شاہد زبیری
مدھیہ پردیش ، گجرات اور یوپی کے بعد اترا کھنڈ وہ صوبہ ہے جس کو سنگھ پریوار اور بی جے پی گجرات کی طرز پر ہندتواکی تجر بہ گاہ کے طورپر استعمال کرتی آرہی ہیں ۔ اترا کھنڈ سرکار یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا اعزاز حاصل کرنے کے فراق میں لگی ہے جس کے نفاذ کی کوششیں کافی تیز ہوگئی ہیں ۔اترا کھنڈ کی بی جے پی کی دھامی سرکار میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت کی علامات مانے جا نے والے مزارات ،خانقاہیں ، مساجد اور مدارس ہندو فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں اور سرکار کے نشانے پر ہیں۔مبینہ طور پر ایک سے زائد مقامات پر مزارات یا تو منہدم کیے جاچکے ہیں یا ان کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ہلدوانی کی مسجد اور مدرسہ پر تو سرکا نے ہی بلڈوزر چلوایا تھا اور مسجد اور مدرسہ منہدم کردیا گیا تھا ۔تازہ معاملہ اترا کھنڈ کے ضلع اتر کاشی کا ہے جہاں ضلع کے صدر مقام پر برسوں پرانی تعمیر کی گئی آباد مسجد کو منہدم کرا ئے جا نے کی کوششیں اچا نک تیز ہو گئی ہیں۔ ہندو فرقہ پرست تنظیمیں جن کی پشت پر سنگھ پریوار اور بی جے پی ہے یہ تنظیمیں اس مسجد کو غیر قانونی بتا رہی ہیں اور اس کو منہد م کرائے جا نے کی ضد پرقائم ہیں اور اس کیلئے سڑکوں پر اتر چکی ہیں ہر چند کہ اتر کاشی کی ضلع انتظامیہ نے 21 اکتوبر کو پریس کانفرنس بلاکر یہ واضح کردیا تھا کہ مسجد ہر لحاظ سے قانونی ہے اوراس میںکچھ بھی غیر قانونی نہیں ہے۔ 2004 میں لکھنؤ وقف بورڈ سے اترا کھنڈ وقف بورڈ کے ذریعہ مسجد کا داخل خارج ہو چکا ہے۔اترا کھنڈ جب یوپی میں شامل تھا تو دیگر وقف املاک کی طرح اتر کاشی کی یہ مسجد بھی یوپی وقف بورڈ لکھنؤکے ریکارڈ میں درج تھی لیکن باوجود اس کے ہندو فرقہ پرست تنظیمیں مسجد کو غیر قانونی بتا کر اس کے انہدام پر بضد ہیں ۔
گزشتہ روز ہندو فرقہ پرست تنظیموں نے سنیکت سناتن دھرم رکشک دل کے بینر تلے اتر کاشی میں جن آکروش ریلی نکا لی، ضلع انتظامیہ اور پولیس نے اس جن آکروش ریلی کا روٹ اور وقت طے کردیا تھا، مگر جن آکروش ریلی طے شدہ روٹ سے نکالنے کی بجا ئے مسجد والے روٹ سے نکا لی گئی جس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ فرقہ پرستوں کے ارادے کیا تھے اور کیا ہیں وہ اتر کاشی میں یو پی کے ایودھیا کی طرح بابری مسجد کے انہدام کی تاریخ دہرانا چا ہتے تھے۔ ضلع انتظامیہ اور پولیس نے ان کے ناپاک ارادوں کو بھانپ کر مسجد کی طرف جا نے والے راستوں پر بیری کیٹنگ لگا دی تھی لیکن پھر بھی جن آکروش ریلی کو اسی راستے نکالنے کی کوشش کی گئی تو ریلی میں شامل لوگوں نے پولیس پر حملہ اور پتھرائو کردیا اور مبینہ طور پر پولیس پر کانچ کی بوتلیں پھینکی گئیں جس کے جواب میں پولیس نے ہلکا لاٹھی چارج کیا اور فرقہ پرستوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اس حادثہ میں 8پولیس والے زخمی بتا ئے گئے ہیں اور ایک پولیس افسر سمیت دو پولیس والوں کی حالت ناز ک بتائی گئی ہے ان کو دہرہ دون کے ہائر سینٹر ریفر کردیا گیا ہے اور اس معاملہ میں پولیس نے 8کو نامزد اور 200نامعلوم ملزمان کے خلاف کیس درج کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ضلع انتظامیہ اور پولیس کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ جن سنیکت سناتن دھرم رکشک دل کے ارادے کیا ہیں، آخر163کے نفاذ کے باوجود ریلی نکا لنے کی اجازت ہی کیوں دی گئی ؟اس ریلی کو اتر کاشی بیوپار منڈل کی بھر پور حمایت حاصل تھی ،جس دن یہ ریلی نکالی گئی بازار بند رکھے گئے تھے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق فرقہ پرست ہندو تنظیمیں ابھی چین سے نہیں بیٹھی ہیں اب ان کی طرف سے 4نومبر کو مہا پنچایت بلائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔
اتر کاشی میں مسجد کی انہدام کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے اس سے پہلے رواں سال کے ماہ فروری کی 8تاریخ کو نینی تال ضلع کے ہلدوانی میں بن پھول کی مسجد اور مدرسہ کو دھامی سرکار کے افسروں نے بلڈوزر چلاکر منہدم کردیا تھا جبکہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھااور مسلمانوں نے مزاحمت کی تو اترا کھنڈ سرکار کی پولیس نے اتر کاشی کی طرح ہلکا لاٹھی چارج نہیں کیا تھا بلکہ مزاحمت کرنے والوں پر گولی چلا دی تھی اور 5افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور 16 افرادکو نامزد کیا گیاتھا اور 5ہزار ا نامعلوم کے خلاف کیس درج ہواتھا، اتنا ہی نہیں اس معاملہ میں نامزد ملزمان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ ،این ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔کیا اتر کاشی میں پولس پر حملہ کر نے والوں کے خلاف بھی دھامی سرکا ر قومی سلامتی ایکٹ کے تحت این ایس اے کی کارروائی کرے گی کیا ان کے گھروں پر بھی بلڈوزرچلایا جائے گا سوال یہ ہے؟ ایک اترا کھنڈ کا ماتم کیا، دہلی سمیت ملک کا شاید ہی کوئی صوبہ بچا ہو جہاں کی درگاہوں، مزارات، مساجد اور مدارس پر ہندو فرقہ پرست تنظیمو ں کی نظر نہ ہو رواں سال کے ماہ فروری میں غریب نوازؒ کی اجمیر کی درگاہ کو ہندو شکتی دل کے صدر نے مندر بتا کر کشیدگی پیدا کردی تھی ۔
گزشتہ ماہ ستمبر میں شملہ میں کانگریس کی سرکار ہوتے ہوئے شملہ کے تمام اضلاع کی مساجد کے خلاف ہندو فرقہ پرست تنظیمیں سڑکوں اتر آئی تھیں،آغاز شملہ کی سنجولی مسجد سے ہوا تھا اور شملہ کے ایک درجن اضلاع کی مساجد کو غیر قانونی بتا کر ان کے انہدام کی کارروائی کرانے کے مطالبہ کے ساتھ دوسرے صوبوں اور اضلاع سے روز گار کی تلاش میں شملہ آئے مسلمانوں کوباہر نکالے جانے کی تحریک ہندو فرقہ پرست تنظیموں نے چلائی تھی اور جن آکروش کے نام سے اسی طرز پر مسلمانوں اور مساجد کے خلاف ہماچل میں بھی ایک طوفان کھڑا کیا گیا تھا۔ صوبہ گجرات کے سومناتھ میں بھی 9مساجد اور درگاہیں منہدم کردی گئی ہیں یہ سانحہ 28ستمبر کا بتا یا جاتا ہے ۔
میڈیا خبروں کے مطابق گجرات کی بی جے پی سرکار سومناتھ مندر کے قریب تعمیرات کے خلاف انہدامی مہم چلارہی ہے اس کے تحت 57ایکڑ رقبہ پر پھیلی تعمیرات کو غیرقانونی قرار دے کر ان تمام عمارتوں کومسمار کیا جا رہا ہے،جواس مندر یا ہندوطبقہ سے متعلق نہیں ہیںاوراس میں مسلمانوں کے کئی مذہبی مقامات اور رہائش گاہیں بھی شامل ہیں گجرات حکومت ان تعمیرات کو اس لیے غیر قانونی تعمیرات بتا رہی ہے کیونکہ یہ ساحلِ سمندر کے قریب ہیں ۔جن 9مساجد اور درگاہوں کو مسمار کیا گیا وہ بھی اسی 57ایکڑ رقبہ میں شامل ہیں ۔اس بابت ایک عرضی سپریم کورٹ میں دی گئی تھی کہ اس علاقہ میں جو بلڈوزر کی کارروائی کی جارہی ہے اس پر روک لگا ئی جا ئے لیکن سپریم کورٹ نے اس سے انکار کردیا ہے ۔اس کیس میں اولیائے دین کمیٹی کی طرف سے کپل سبل نے سپریم کورٹ میں دلائل پیش کرتے ہوئے انہدامی کارروائی کی مخالفت کی اور کہا کہ جس کو غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے وہ زمین 1903کی ہے اور اولیائے دین کمیٹی کے نام رجسٹرڈ ہے۔ اولیائے دین کمیٹی کی عرضی پر گزشتہ روز 25اکتوبر کو سپریم کورٹ میں سومناتھ میں منہدم کردہ 9مساجد اور درگاہوں کے انہدام پر اہم سماعت ہوچکی ہے ۔کہاجا رہا ہے کہ موجودہ عہد میں ایک ساتھ اتنی عبادت گاہیں کہیں مسمار نہیں کی گئیں۔
سپریم کورٹ میں جاری کارروائی اور پیش رفت پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ قدیم عبادت گاہیں ہمارے ملک کی تہذیب و وراثت کا حصہ ہیں جنہیں محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے وہ کہتے ہیں کہ سو مناتھ میں جو کچھ ہوا اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے ۔ جمعیۃ علماء گجرات کی طرف سے بھی یکم اکتوبر کو اس انہدام کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں عرضی دی گئی ہے ۔آخر یہ سب ایک ایسے ملک میں کیوں اور کیسے ہورہا ہے،جس کی پیشانی کا جھومر جمہوریت ہے، انسانی حقوق کاضامن آئین جس کے ہاتھوں کا کنگن ہے جو مذہبی اقلیتوں کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے اوران کی عبادت گاہوں اور ان کی جان ومال کا امین ہے لیکن پھر بھی یہ سب تماشہ ہورہا ہے اور دن کے اجالے میں جمہوریت بدنام کی جا رہی ہے اور آئین پامال کیا جا رہا ہے جس سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کی شبیہ مجروح ہورہی ہے اور امریکی ادارہ USCIRF مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالہ سے ہمارے ملک کے خلاف دنیا کے سامنے منفی رپورٹیں پیش کررہا ہے جبکہ ہماری ملّی تنظیمیں اور ہمارے قائد یہی سمجھاتے آرہے ہیں کہ فرقہ پرست تنظیمیں مسلمانوں کو اپنی معاش اور تعلیم و ترقی کی طرف سوچنے اور کچھ کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی ہیں وہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو ایسے مسائل میں الجھا ئے رکھیں لیکن ہماری ملّی تنظیمیں اور ہمارے قائد کیا چاہتے ہیں۔ مہلت خداوندی کے ان 75 سالوں میں اس سے نجات پانے کیلئے ان کو کوئی راہ کیوں نہیں سوجھ رہی ہے سوائے آئے دن کانفرنسوں کے انعقاد کے ؟نئی نسل یہ سوال پوچھ رہی ہے۔ بقول غالب ’کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا ـ‘۔