کابل(ایجنسی): کابل پر طالبان کا قبضہ ہونے کے بعد افغانستان میں حکومت کی تبدیلی ہوچکی ہے۔بتایا جارہا ہے کہ ملا
برادر کا ملک کے نئے صدر بننے جارہے ہیں۔وہ طالبان کے بھاونڈر لیڈروں میں سے ایک رہے ہیں۔ ملابرادرکون ہیں اوروہ کیسے طالبان میں اتنے طاقتور بن گئے ۔افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے۔15اگست کو طالبان لڑاکوں نے کابل کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ وہ صدر کے محل پر قابض ہوگئے ۔ اس سے پہلے افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر اپنے
خاندان کے ساتھ تاجکستان چلے گئے۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں اب شریعہ قانون لاگو ہوگا۔ ان سب کے
بیچ یہ مانا جارہا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر ملک کے صدر ہونگے۔
ملا عبدالغنی برادر ان 04لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 1994میں طالبان کو کی بنیاد رکھی تھی۔سال 2001 میں جب امریکی اتحادی نے فوج نے افغانستان میں کارروائی شروع کی تو ملا برادر کی قیادت میں بغاوت کی خبریں آنے لگی۔ امریکی فوجیں انہیں افغانستان میں تلاش کررہی تھیں جب کہ وہ پاکستان چلے گئے تھے۔ حملوں کی وجہ سے طالبان کو کابل
چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ فروری 2010 میں ملا برادر کو پاکستان کے شہر کراچی سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
۔ملا برادر کو امریکہ پاکستان کی مشترکہ مہم میں پکڑا گیا تھا۔ 2012 کے آخر تک افغانستان حکومت نے امن کے لئے بات چیت کو بڑھاوا دینے کے لئے جن قیدیوں کی رہائی کی مانگ رکھی تھی ان میں ان کا نام ان قیدیوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہوتا تھا۔ستمبر 2013میں وہ رہا ہوگئے اس کے بعد ان کا ٹھکانا کہاں رہا یہ کسی کو نہیں معلوم۔
90 کی دہائی میں ملا عمر متحرک تھے
افغانستان میں 90 کی دہائی میں طالبان کی تشکیل ہوئی۔ ملا محمد عمر اس کے سربراہ تھے۔ برادر نہ صرف ان کے خاص تھے بلکہ ان کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ برادر کی بہن ملا عمر کی بیوی تھی۔ وہ 90 کی دہائی میں طالبان حکومت کے طاقتور دوسرے بڑے لیڈر تھے۔
ملا عمر جب زندہ تھے وہ طالبان کے لیے فنڈ ریزنگ اور روز مرہ کی سرگرمیوں کے انچارج تھے۔
1994 میں طالبان کے قیام کے بعد ، انہوں نے ایک کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کا کردار بھی ادا کیا۔ اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اب ان کے آنے کے بعد طالبان کی حکومت میں کوئی نرمی ہوگی۔
مکمل اسلامی نقطہ نظر کی وجہ سے ملا برادر طالبان حکومت کے دوران اپنے سخت رویہ کے لیے زیادہ مشہور تھے۔ وہ جمہوریت،خواتین،کھلے ذہن اور ایک بہتر ملک کے بارے میں بہت اسلامی معاملے میں بہت سخت تھے۔ وہ ملا عمر کے بعد طالبان میں دوسرے نمبر کے لیڈر تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں جب بھی افغانستان میں امن مذاکرات شروع ہوئے،حکومت اور اس کے عہدیدار بھی ان کو شامل کرنے کے حق میں تھے۔انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں مذاکرات کے ذریعے قائل کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ بھی انہیں ہمیشہ مذاکرات کے لیے اہم سمجھتا تھا۔
یہاں تک کہ امریکی حکومت نے بھی انہیں مذاکرات کے لیے اہم سمجھا ہے۔ یقینا دنیا نہیں جانتی کہ ماضی میں امریکہ اور ملا برادر کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا تھا ، لیکن امریکہ کو واضح ہونا چاہیے تھا کہ جیسے ہی وہ افغانستان سے نکلیں گے ، طالبان کو دوبارہ قبضہ کرنے کا آسان موقع ملے گا۔ افغانستان۔ ملا برادر بھی ہمیشہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حامی رہے ہیں۔
انٹرپول کے مطابق ملا برادر کی پیدائش 1968 میں صوبہ ارزگان ضلع دیہرووڈ کے ویٹمک گاؤں میں ہوئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق درانی قبیلے سے ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی بھی درانی قبیلے سے ہیں۔
1996 سے 2001 تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران کئی عہدوں پر فائزرہے۔ وہ ہرات اور نیمروز صوبوں کے گورنر تھے۔ مغربی افغانستان کی فوجیوں کے کمانڈر تھے۔ امریکی دستاویزات میں انہیں افغان فورسز کا نائب سربراہ اور مرکزی طالبان افواج کا کمانڈر بتایا گیا۔ جب کہ انٹرپول کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ اس وقت افغانستان کے وزیر دفاع بھی تھے۔