طالبان کی پیش قدمی اور نقل مکانی کا بحران

0

صبیح احمد
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل جب سے شروع ہوا ہے، طالبان نے رفتہ رفتہ اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور اب تو انہوں نے بہت تیزی کے ساتھ پیش قدمی کر تے ہوئے یکے بعد دیگرے ملک کے کئی صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے اور یہ سلسلہ فی الحال تھمنے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان سے اگست میں امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد کابل حکومت کو اپنی بقا کی جنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہو سکتا
ہے کہ طالبان اسے زیر کر لیں۔ ابھی تک کی جو صورت حال ہے اس سے لگتا ہے کہ افغان فورسز کسی بھی قسم کی مؤثر مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مجموعی طور پر رجحانات افغان حکومت کے لیے سازگار نہیں دکھائی دیتے۔ اگر کابل حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو اسے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ملک کے لوگوں کی عام رائے یہ ہے کہ سرکاری فورسز طالبان حملوں کے سامنے ششدر ہیں، وہ حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ دفاعی حالت میں پہنچ گئی ہیں۔
امریکی صدر بائیڈن کے اپریل میں افغانستان سے رواں برس فوجی انخلا مکمل کرنے کے اعلان کے بعد امریکی حکام اس حوالے سے محتاط رہے ہیں کہ افغان حکام کو در پیش چیلنجز کو کم ظاہر نہ کیا جائے لیکن امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے کمانڈر جنرل کینتھ میکنزی نے اس حقیقت کا بے جھجھک اعتراف کیا ہے کہ افغان حکومت ایک سخت امتحان کا سامنا کر رہی ہے اور یہ کہ اس لڑائی کا پیشگی نتیجہ موجود نہیں۔ دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی دعویٰ کرتے رہے ہیں
کہ افغان فوج شہری علاقوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ دوبارہ متحرک ہو گی اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ادھرطالبان کی جانب سے ایسا کوئی سگنل نہیں ہے جس پر یقین کیا جا سکے کہ وہ اپنی کارروائیوں کی شدت میں کمی لائیں گے۔ طالبان نے جہاں عسکری کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے، وہیں ان کو نفسیاتی برتری بھی حاصل ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے لیے امریکی پالیسیاں اور حکام بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ امریکی حکومت کے افغانستان میں تعمیر نو کے لیے نگراں ادارہ ’سیگار‘(اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ریکنسٹرکشن) نے اس صورتحال کا بے باک تجزیہ کرتے ہوئے امریکہ کے اعلیٰ ترین حکام کی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے میں بار بار ناکامی کا حوالہ دیا ہے۔ محکمہ دفاع کے اعلیٰ ترین حکام اور سفارت کاروں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خود سے اور امریکہ کے عوام سے جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ حد سے زیادہ مبالغہ آرائی کی گئی۔ امریکی فوجی جنرلوں، سفارتکاروں اور تمام اعلیٰ حکام نے ایسا کیا۔ وہ امریکہ کی کانگریس اور عوام کو بتاتے رہے کہ پانسہ پلٹ رہاہے جبکہ امریکہ کے چوٹی کے فوجی حکام جانتے تھے کہ افغانستان کی فوج کس قدر کمزور ہے اور اس طرح انہوں نے مسائل کو دبائے رکھنے کی کوشش کی۔
بہرحال طالبان کی تیزی کے ساتھ پیش قدمی، ملک کے نصف سے زیادہ اضلاع اور یکے بعد دیگرے مختلف صوبوں پر قبضے اور کئی صوبائی ہیڈکوارٹرس کے محاصروں سے افغانستان میں امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے اور بہت سے لوگ اپنی زندگیاں بچانے کے لیے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کا رخ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کئی افغان شہری دوسرے ملکوں خاص طور پر ایران اور ترکی کے راستے یوروپ کا رخ کر رہے ہیں۔ ہر روزافغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ایران کے راستے ترکی میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ ترکی میں وہ زیادہ دیر نہیں رکتے کیونکہ ان کی اگلی منزل یوروپ کا کوئی ملک ہوتا ہے۔ ادھر یوروپی ممالک افغان مہاجرین کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ان کی آمد کو روکا جائے۔ دشوار گزار راستوں سے گزرتے اور مشکلات جھیلتے ہوئے اوسطاً 2000 افغان باشندے روزانہ ترکی پہنچ رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ جیسے جیسے افغانستان میں طالبان مزید علاقوں پر قابض ہوں گے، مہاجرین کی تعداد میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا جائے گا۔ یوروپی ملکوں کے رہنما تارکین وطن کے نئے بحران سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ تجویز زیر غور ہے کہ پناہ کے خواہش مند افغان مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے ترکی کے ساتھ طویل مدتی معاہدہ کیا جائے۔ 2016 سے پہلے ترکی کے ساتھ اس قسم کا ایک معاہدہ ہو چکا ہے لیکن اس کے لیے یوروپی ممالک ترکی کو اربوں ڈالر ادا کرتے رہے ہیں۔ اس رقم سے ترکی پہنچنے والے مہاجرین کی رہائش کا بہتر بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آبادکاری کے باضابطہ منصوبوں اور قانونی طریقے سے ہجرت کی راہ اپنانے میں
معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ 2016 کے معاہدہ کے نتیجے میں یوروپ پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد خاصی کم ہو گئی تھی۔ اب افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ایک بار پھر تارکین وطن کا سنگین بحران پیدا ہوسکتا ہے اور لگتا ہے کہ طالبان کے خوف سے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی کافی تعداد تارکین وطن کی صفوں میں شامل ہوجائے گی۔ اندازہ ہے کہ ترکی میں پہلے ہی 2 لاکھ سے 6 لاکھ تک افغان مہاجرین موجود ہیں جبکہ وہاں رہائش پذیر شامی مہاجرین کی
تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے۔
اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارہ نے بھی افغانستان کی جنگ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی بڑھتی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور عالمی برادری سے افغان بحران کے فوری حل کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں لڑائی میں شدت آنے کے ساتھ ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ آمدنی کے ذرائع بھی روز بروز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اب تو انہیں اپنی جانوں پر بھی خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ عام شہری عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں۔ جنگ کی وجہ سے ملک
چھوڑکر جانے والوں کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بے گھر افراد کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر موجودہ بحران کو جلد حل نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ ملک میں بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہو گی۔ افغان مہاجرین کی وزارت کا بھی کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے اس سال اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ گزشتہ 6 ماہ میں 2 لاکھ افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔صرف پچھلے ماہ 4000 خاندان بے گھر ہوئے ہیں۔
دراصل بڑے پیمانے پر یہ جبری نقل مکانی ملک میں سیاسی شکست کا نتیجہ ہے۔ اس مسئلہ کا واحد حل فریقین میں سیاسی مفاہمت میں مضمر ہے جس کے فی الحال آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ طاقت کے استعمال کا متبادل آزما کر پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ ایک دو سال نہیں بلکہ 2دہائیوں میں بھی انہیں خالی ہاتھ واپسی کے سوائے کچھ نہیں ملا۔ اس کے باوجود حیرت کی بات ہے کہ ملک کا حکمراں طبقہ اب بھی خم ٹھونکنے سے باز نہیں آ رہا ہے۔ امریکہ کے زیر قیادت عالمی برادری تھک ہار
کر آخر کا ر مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے خود کو افغانستان سے محفوظ نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ مقامی حکمراں جتنی جلد اس سے سبق لیں، ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS