شامیوں کے امتحانات کا سلسلہ ختم نہیں ہو پا رہا ہے جبکہ انہوں نے بہت قربانی دے دی ہے۔ بشارالاسد کے دور میں شام میں امن تھا مگر شامی جمہوری حقوق سے محروم تھے۔ یہ محرومی انہیں بے چین کیے رہتی تھی۔ یہ ان کا جائز حق تھا کہ شام میں جمہوری نظام قائم ہوتا مگر مشرق وسطیٰ عالمی طاقتوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے اور بڑی طاقتیں جمہوریت کی باتیں ضرور کرتی ہیں، ان ملکوں میں جمہوری نظام پسند نہیں کرتیں جن سے ان کے مفاد وابستہ ہوں۔ دراصل جمہوری نظام میں لیڈر عوام کی پسند کا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ عوام کی طاقت ہوتی ہے جبکہ غیر جمہوری نظام میں لیڈر کو ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ عوام اگر سڑکوں پر نکل آئے تو اسے گدی سے ہٹا دیں گے، اس لیے وہ بڑی طاقتوں کی پناہ میں چلا جاتا ہے اور یہ طاقتیں اس کی اس پوزیشن سے فائدہ اٹھاتی ہیں، اس سے اس طرح کے فیصلے کرواتی ہیں جو اس کے عوام کے مفاد میں نہ ہوں۔ بشارلاسد اور ان کے والد حافظ الاسد جمہوری لیڈر نہیں تھے۔ یہ بات الگ ہے کہ انتخابات شاممیں بھی ہوتے تھے۔ شام کے لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنا لیڈر خود سے چنیں، اپنی پسند کا لیڈر چنیں، اسی لیے تیونس سے عوامی احتجاج کی لہر چلی تو اسے شام تک آنے میں دیر نہیں لگی۔ بشار نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ مظاہرین پھر بھی ان کے خلاف ڈٹے رہے۔ وہ انہیں ہٹانے پر بضد رہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے دانستہ طور پر شام کے حالات کو خراب ہونے دیا تاکہ وہ اس ملک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں یا اسے اپنے دائرۂ اثر میں لے سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دمشق کی وہ گلیاں، جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ شام جایا کرتے تھے، ویران ہو گئیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ مار ڈالے گئے۔ جائے امن کی تلاش میں بہتوں کو جانیں گنوانی پڑیں۔ دو سالہ شامی بچے الان کردی کی ساحل پر پڑی لاش نے دنیا کے امن پسند، انسان دوست اور حساس دل رکھنے والے لوگوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس کی دردناک موت شام کے حالات میں مثبت تبدیلی کی وجہ بنے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ بشار کے حامی بشار کی مدد کرتے رہے، بشار کے مخالف ان کے مخالفین کی۔ دونوں طرف سے خانہ جنگی کو جاری رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شامیوں کے شام چھوڑنے کا سلسلہ جاری رہا۔ 70 لاکھ سے زیادہ شامیوں کو مہاجر بننے پر مجبور ہونا پڑا۔ بشارالاسد کے اقتدارسے ہٹ جانے کے بعد ان کے لیے اب موقع ہے کہ شام واپس آجائیں، وہ شام واپس آبھی رہیہیں لیکن امریکہ اور روس کی شام میں موجودگی، اسرائیل کے حملے، ایران، ترکیہ اور چین سمیت دیگر ملکوں کی اس سے دلچسپی کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ شام کے لوگوں کے امتحان کا دور ابھی ختم نہیں ہوگا۔ انہیں مزید امتحان دینا ہوگا لیکن یہ بات طے ہے کہ ایک دن شام میں امن قائم ہوگا۔ ممکن ہے، وہ دن مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کی تباہی کے بعدآئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے ہی آجائے، کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اعلان کر دیا ہے کہ غزہ جنگ ختم نہیں کریں گے اور جب تک غزہ جنگ چلتی رہے گی، مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کے تباہ ہونے کا اندیشہ قائم رہے گا، اس لیے شام میں بشار الاسد کا تختہ اٹلنے والی اپوزیشن کی فورسز کی عبوری حکومت کے وزیراعظم محمد البشیر کے لیے حالات کو سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ لوگوں کی توقعات پراترنے کے لیے انہیں بڑی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ شامیوں کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ صبح امن کا انتظار انہیں کچھ اور کرنا پڑے گا، انہیں کچھ اور قربانی دینی پڑے گی۔
شامیوں نے بہت قربانی دے دی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS