پروفیسر مشتاق احمد
شام میں مارچ 2011 سے شروع خانہ جنگی ہنوز جاری ہے اور اب یہ جنگ صرف اور صرف خانہ جنگی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی چنگاری عالمی سیاست کو بھی اپنی زد میں لے چکی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس خانہ جنگی کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں شروع سے ہی امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب شامل ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی جانب سے بارہا یہ صفائی دی جاتی رہی ہے کہ اس خانہ جنگی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ بعد کے دنوں میں امریکہ کے حمایتی ممالک برطانیہ اور جرمنی کا کردار بھی مشتبہ ہے کہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف شام کے جنگجوئوں کی امداد کر رہے ہیں۔ یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ پورے عالم اسلام کو تباہ وبرباد کرنے میں مغربی ممالک شامل ہیں اور جن کی قیادت امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں کبھی روس کا بھی ہاتھ رہا ہے لیکن جب سے روس خود منتشر ہوا ہے اور امریکہ ولادیمر پوتن کے خلاف مہم چلا رہاہے، اس کے بعد سے روس کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ خود اپنی حفاظت میں مصروف ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جو جنگ چل رہی ہے، اس کے پس پردہ بھی امریکہ ہی ہے کہ وہ پوری دنیا پر اپنا دبدبہ بنائے رکھنا چاہتا ہے لیکن شام کے معاملے میں شروع سے ہی روس بشار الاسد کے ساتھ ہے اور ایران بھی اسد کی مدد کر رہا ہے کہ حزب اللہ کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے اور حزب اللہ اس خانہ جنگی میں اپنی موجودگی کا احساس کرا رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی اپنے مفاد میں شام کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
بہر کیف! شام کے صدر بشار الاسد اپنی حکمت عملی سے اس خانہ جنگی کو ناکام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور تمام تر سازشوں کے باوجود وہ اپنی کرسی پر قابض ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس خانہ جنگی میں اب تک سات لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ معذور بھی ہوئے ہیں۔ اس خانہ جنگی نے شام کی معاشی حالت کو بھی تباہ و برباد کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود خانہ جنگی جاری ہے ۔ واضح ہو کہ شروع میں جب یہ تنازع شروع ہوا تھا تو خانہ جنگی کے حامیوں کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ اسد حکومت بے دخل ہو اور وہاں جمہوری حکومت تشکیل دی جائے اور اس کے لیے علاقائی سطح پر مخالفت شروع ہوئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ جنگ عالمی سیاست کا حصہ بن گئی اور بالخصوص امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر شام حکومت کے خلاف ایک نئی صف بندی کا آغاز کیا جس کا نتیجہ ہے کہ شام میں اس خانہ جنگی کے حامیوں کو اپنے مقصد میں کامیاب تو نہیں ہونے دیا لیکن شام کے لاکھوں شہری موت کے منہ میں چلے گئے اور لاکھوں معذور ہو کر اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ دراصل امریکہ کی سازش کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں جنگ وجدل کا ماحول پروان چڑ ھ رہا ہے۔ غزہ کی حالیہ جنگ بھی امریکہ اور عرب کی سازشوں کا ہی حصہ ہے کہ اسرائیل اب تک تیس ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اور ہزاروں معصوم بچے یتیم ہوگئے ہیں اور اس سے بھی کہیں زیادہ معذور ہو کر اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود جنگ جاری ہے۔
دراصل اقوام متحدہ بھی اب صرف تماشائی کی حیثیت رکھتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حامی مسلم ممالک کی تباہی کا جو ایجنڈہ طے کرچکے ہیں، اسے وہ پورا کر رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس میں سعودی عرب اور ترکی بھی شامل ہیں۔ خطۂ عرب میں جس طرح مغربی دنیا کا دبدبہ ہے، اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اب یہ اسلامی خطہ اپنی شناخت کھونے جا رہاہے۔ سعودی عرب میں سنیما گھروں اور بار ڈانس کھولنے کی اجازت اسی سازش کا حصہ ہے۔ شام کی سرزمین کا ایک اہم حصہ 2014 سے 2017 تک اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیونٹ (ISIL) کے زیر کنٹرول تھا جسے بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیاہے اور بیشتر مغربی ممالک نے داعش کے خلاف کارروائی بھی کی لیکن اس کے باوجود اس کا زور کم نہیں ہوا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر روس، شام کی خانہ جنگی کے دوران شام کے فوجی اتحاد کو ہتھیار نہیں دیتا تو اسد حکومت ختم ہوگئی ہوتی اور ایران جو خود کو اس خانہ جنگی سے الگ رکھنے کی بات کرتا ہے، وہ اگر حزب اللہ کی مدد نہیں کرتا تب بھی اسد کے لیے اس جنگ کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔
شام کی خانہ جنگی کو سول بغاوت کہنا درست نہیں ہوگا ،کیونکہ یہ جنگ علاقائی بھی ہے، مذہبی بھی ہے اور جغرافیائی اعتبار سے عالمی سیاست کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ شام کی بعث پارٹی کا موقف رہا ہے کہ کرد کے علاقے میں اسد حکومت کے خلاف جو آواز اٹھ رہی ہے، وہ صرف اور صرف اندرونی نہیں ہے بلکہ عراق کی سازش کا حصہ ہے جبکہ 2011 میں عراق حکومت نے اسد کی مالی معاونت کی تھی اور 2015 میں شامی حکومت نے عراق کو باضابطہ طورپر داعش پر کارروائی کرنے بھی اجازت دی تھی لیکن بعد میں اس کے رویے میں تبدیلی آئی۔ اسی طرح شیعہ اور سنی کے درمیان جو منافرت ہے، وہ بھی اس خانہ جنگی کو پروان چڑھانے میں معاون بنی۔ ساتھ ہی ساتھ خطۂ عرب میں جو جمہوریت کے لیے آواز بلند ہونے لگی، اسے سعودی عرب نے قبل از وقت ہی بے اثر کردیا لیکن شام میں اسد حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی حمایت کرتا رہاہے۔ اس کے باوجود شام کے صدر بشار الاسد اقتدار پر قابض ہیں جس سے امریکہ کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں کو بھی مایوسی ہاتھ لگی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے سے اسد اس خانہ جنگی سے جوجھ تو رہے ہیں لیکن کیا وہ شام کی سالمیت کے لیے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے پاتے ہیں اور اپنے مخالفین کے منصوبوں پر پانی پھیر سکتے ہیں، کیونکہ اس خانہ جنگی نے شام کے عام شہریوں کی زندگی کو بہت دشوار کن بنا دیا ہے۔ سب سے افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ آہستہ آہستہ دنیا کے بیشتر مسلم ممالک امریکہ کی سازشوں کے شکار ہوتے جا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں ہے کہ جب تمام مسلم ممالک اسلام دشمن کے چنگل میں پھنس کر اپنا وجود کھو دیں گے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ شام گزشتہ 13 برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے اور پوری اسلامی دنیا تماشائی ہے ، ٹھیک اسی طرح جیسے غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی موت بھی اسلامی دنیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہم پہلے ہی عراق اور ایران کی جنگ دیکھ چکے ہیں۔ صدام اور قذافی کا حشر بھی آنکھوں میں ہے۔ اس کے باوجود اگر مسلم ممالک ہوش کے ناخن نہیں لے رہے ہیں توحیرت کی بات ہے۔n