مغربی یشیا کے خطے میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور اسرائیل کی من مانی اور مسئلہ فلسطین کو حل کرانے میں امریکہ کی عدم دلچسپی یہ نکتہ چینی شروع ہوگئی ہیں۔مغربی ایشیا میں پچھلے دنوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کرکے جس طرح چین نے اپنا مقام اہم بنا لیاہے۔ مبصرین کا رائے ہے کہ امریکہ نے جانبدارانہ طریقے سے رول نبھا کر اپنی حیثیت کم کرلی ہے۔امریکہ پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ اپنی مفادات کو مقدم رکھ رہاہے اور مغربی ایشیا کے کئی ملکوںمیں ان کی فوج کی موجودگی اور وہاں کے تنازعات میں غیرضروری مداخلت ہے۔ شام میں پچھلے دنوں امریکی فوجیوں نے ان مقامات پر حملہ کیاہے جو کہ ایران کے اثرورسوخ والے ہیں۔ان حملوں میں 19افراد کی موت ہوگئی ہے اس کارروائی سے امریکہ اور ایران کے درمیان تلخی بڑھ گئی ہے۔ ایران کے دفاعی اداروں کی طرف سے اس کا سخت ردعمل سامنے آیاہے۔
ایران نے کہاہے کہ شام کی حکومت کی درخواست پر شدت پسند جنگجوعناصر کی سرکوبی کے لئے ہم نے کچھ محفوظ علاقے بنائے ہیں ،ان بیسس پر حملوں پر شدید ردعمل ظاہر ہوگا۔ ایران کا موقف ہے کہ ایران میں دمشق سے چلنے والی بشارالاسد کی حکومت کی درخواست پر کچھ بیسس قائم کی گئی ہیں اور ایران کے حمایت یافتہ مشرقی شام میں سرگرم ہے۔ان علاقوں پر امریکہ نے حملہ کرکے آئی ایس آئی ایس کے خلاف کارروائی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب شام میں سرگرمیوں کو لے کر امریکہ اور ایران میں نوک جھونک ہوئی ہے۔اس خطے میں کشیدگی ، جنگ اور برادر کشی کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔مگر یہ جھڑپ ان کوششوں کو نقصان پہنچانے والی ہے۔چند روزقبل امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے سخت الفاظ میں وارننگ دی تھی کہ اگر شام میں امریکہ اوراس کی حامیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا سختی سے جواب دیاجائے گا۔ جمعرات کو مبینہ طور پر ایران میں بنے ہوئے ایک ڈرون نے ایک امریکی کنسٹریکٹر کوہلاک اور چند دیگر سرکاری افسران کو زخمی کردیا تھا۔ امریکہ کی یہ کارروائی اسی کی جواب میں بتائی جاتی ہے۔کناڈا کی شہر اوٹاوا میں تقریر کرتے ہوئے جوبائیڈن نے کہاتھا کہ وہ شام کی سرزمین پرایران کے ساتھ کوئی جھڑپ نہیں چاہتا ہے۔ مگر ہم اپنی لوگوںکی حفاظت کیلئے ایران اور اس کی حمایت یافتہ ممالک اور طاقتوں کو منھ توڑجواب دیںگے۔ گزشتہ دوروز قبل کی یہ کارروائی اسی کا نتیجہ ہے۔ایران سے وابستہ ایرانین کنسلٹیوٹیو سینٹر نے امریکہ کو وارننگ دی تھی کہ وہ شام میں اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہ کرے ورنہ ہم اس کا جواب دیں گے۔اس ادارے نے کہا تھا کہ ہماری یہ کارروائی کوئی صرف انتقام کارروائی نہیں ہوگی۔اس مرکز نے کہاہے کہ امریکی فوج نے جن مقامات پر حملہ کیاتھا وہ مقامات ہیں جہاں پر اناج رکھاجاتا ہے۔ مذکورہ سینٹر کاکہناہے کہ اس واردات میں 7لوگوں کی موت ہوئی تھی اور اتنے ہی لوگ زخمی ہوئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک شام میں خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لئے روس سرگرم ہوگیاہے اور کہاجارہاہے کہ سعودی عرب اور شام کے درمیان جو مذاکرات ہورہے ہیں ان کے پست پشت بھی روس کی کوششیں ہیں۔پچھلے دنوں شام کے صدر بشارالاسد روس گئے تھے اور انہوں نے صدر پوتن سے ملاقات کی تھی اس کے بعد روس کے صدر سے ملاقات کرنے کے لئے چین کے صدر شی بھی ماسکو گئے تھے۔ ظاہر ہے یہ سرگرمیاں مغربی ایشیا میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے رول کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔اس صورتحال سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ امریکہ ان سفارتی کوششوں میں اس درجہ شامل نہیں ہے۔شام میں ایران ،امریکہ ،روس اور ترکی سمیت کئی فریق سرگرم ہیں اور ا ن علاقو ں میں جنگ اور فوجی کارروائی کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیاجارہاہے کہ امریکہ اپنے عسکری وفاعی اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔کئی حریفوں کا الزام ہے کہ امریکہ شمال مشرقی شام میں تیل کی کنوئوں سے پیٹرولیم وغیرہ نکال کر اسمگل کررہاہے اگر چہ ان الزامات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے مگر امریکہ جو کہ 2015سے اپنی فوجوں کے ذریعہ وہاں موجود ہے اور وہ اسلامی اسٹیٹ کے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے وہاں آیاتھا ۔ امریکہ نے کردووں کی غلبے والے علاقوں میں ان کی مدد کرکے ایک محفوظ خطہ بنالیاہے جو کہ شام کا ایک تہائی حصہ ہے۔اس وقت امریکہ کے 900فوجی وہاں پرموجود ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں بدلتے حالات کے پیش نظرامریکہ نے کہاہے کہ اس کا رابطہ سعودی عرب سے ہے اور دونوں ممالک شام کے حالات میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں۔سعودی عرب دمشق کی موجودہ حکمراں بشارالاسد حکومت کے ساتھ بات چیت کررہاہے مگر بشارالاسد کے بارے میں امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔امریکہ چاہتاہے کہ بشارالاسد اقتدار سے بھی بے دخل کئے جائیں۔ایران ،روس بشارالاسد کے حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔حالیہ تصادم کے بعد امریکی انتظامیہ کاایک بیان سامنے آیاہے،جس میں اس نے کہاہے کہ شام میں قیام امن کی جو بھی کوششیں کی جارہی ہیں ان کامقصد شام کے لوگو ں کی فلاح وبہبود ہونا چاہئے۔خیال رہے کہ شام ایران اور امریکہ کی پراکسی وار کا گڑھ بن گیاہے۔
2021کے بعد سے اب تک ایران -عراق اور شام میں امریکہ کے اسّی(80) ٹھکانوں پر حملہ کرچکا ہے اور ایران کے زیادہ تر حملے شام میں ہوئے ہیں۔مبصرین کا کہناہے کہ شام میں قیام امن کے لئے روس کی ثالثی سے سعودی عرب اور بشارالاسد کے درمیان مذاکرات کسی بھی سطح پر اور کسی حدتک کامیاب ہوسکتے ہیں،مگر شام میں امریکہ کو نظراندازکرکے قیام امن آسان نہیں ہوگا۔rt
شام:کیا روس ایک موثر ثالث ثابت ہوگا؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS