جمہوری ملکوں میں وقتاً فوقتاً لوگوں کو حق رائے دہی کے استعمال کا موقع ملتا رہتا ہے، انہیں یہ امید رہتی ہے کہ ایک متعینہ مدت کے بعد وہ کسی پارٹی یا لیڈر کی حکومت کو ہٹا دیں گے مگر ان ملکوں میں جہاں جمہوریت ہے ہی نہیں یا جہاں انتخاب کے نام پر تماشے ہوتے ہیں، عوام بے چین رہتے ہیں۔ دیر بدیر وہاں عوامی احتجاج کی لہراٹھتی ہے جیسے تیونس میں اٹھی اور وہاں کے بظاہر سب سے مقبول لیڈر زین العابدین بن علی کو جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا، جیسے مصر میں اٹھی اور وہاں کے بظاہر سب سے مقبول لیڈر حسنی مبارک اقتدار سے ہٹا دیے گئے، جیسے لیبیا میں اٹھی اوروہاں کے بظاہر سب سے مقبول لیڈر کرنل معمر قذافی مار ڈالے گئے، جیسے شام میں عوامی احتجاج کی لہر اٹھی اور بالآخر بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف شام میں ہی عوام پر تھوپی ہوئی حکومت تھی، مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں نہیں ہے؟ عوامی احتجاج کی لہر تو مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں میں اٹھی تھی، پھر وہاں وہ لہر دبا کیوں دی گئی اور شام میں اس لہر کو کیوں ہوا دی گئی؟ بشارالاسد یا ان کے والد حافظ الاسدنے جو کیا، اس کی تعریف نہیں کی جا سکتی مگر اسے ایک فرقے سے جوڑ کر دیکھنا بھی مناسب نہیں۔ دونوں باپ بیٹے نے جو کیا، حکومت کرنے کے لیے کیا۔ بات اگر لوگوں کو دبانے، انہیں مار ڈالنے اور زبردستی اقتدار کرنے کی ہے تو مصر کے موجودہ صدر نے کیا کیا؟ ایک جمہوری حکومت کو گراکر اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس وقت جمہوریت کے علم بردار کہاں تھے؟ مسئلۂ فلسطین برسوں سے سلجھ نہیں پایا، انسانی حقوق کی حفاظت کا جھنڈا اٹھانے والے کہاں ہیں؟ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد اہل غزہ کے درد و غم پر بیان بازی کرنے والے مسلم لیڈران کہاں ہیں؟ غزہ کے ایشو پر جو کام عیسائی ممالک نے کیا یا عیسائی لیڈروں نے جو عملی اقدامات کیے، ان کے برابر کوئی مسلم ملک یا کوئی مسلم لیڈر ہے؟ ایک شام ہی نہیں، بہت سے مسلم ممالک ہیں، وہاں چاہے حکومت کسی بھی فرقے کی ہو، جمہوری حکومت نہیں، وہ اپنے عوام کے ساتھ کم یا زیادہ وہی سلوک کرتے ہیں جو بشارالاسد نے شام کے لوگوں کے ساتھ کیا، البتہ سمجھا جاتا ہے کہ ایران نے شام سے قربت کا فائدہ اٹھاکر حزب اللہ اور حماس کی مدد کی۔ بشار کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد یہ مددان دونوں کو مل پائے گی؟ اور اگر مدد نہ مل سکی تو پھر غزہ جنگ وسعت کیوں نہیں اختیار کرے گی؟
بشارالاسد کے اقتدار سے ہٹ جانے کا جشن اگر ان ملکوں میں بھی منایا جاتا ہے جو غزہ جنگ میں اہل غزہ کے خلاف ہیں، اگر وہ لیڈران بھی مسرت کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کے خلاف ہر طرح کے سلوک کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے تو پھر یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ بشار کا اقتدار چھوڑ دینا، روس چلے جانا،اہل غزہ کے حق میں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ عالمی سیاست سے ناآشنا لوگ خوش ہیں۔ ان لوگوں کی خوشی فطری ہے جنہیں بدترحالات کی وجہ سے شام چھوڑنا پڑا تھا۔ وہ خوش ہیں، کیونکہ انہیں امید ہے کہ وہ اب واپس شام آئیں گے۔ وہ خوش ہیں کہ انہیں پرامن زندگی نصیب ہوگی۔ وہ خوش ہیں کہ انہیں مہاجر کی زندگی سے نجات ملے گی۔ وہ خوش ہیں کہ وہ خواب دیکھ سکیں گے لیکن انہیںزیادہ خوشی کا اظہار کرنے میں ذرا صبر سے کام لینا چاہیے، کیونکہ شام میں اقتدار تبدیل ہوا ہے، حالات نہیں بدلے۔ حالات بدلنے کے امکانات ہیں مگر حالات اگر بدل گئے تو پھر گریٹر اسرائیل کے خواب کا کیا ہوگا؟ اب شام میں قیام امن کا کا بڑی حد تک انحصار عبوری حکومت کے ارکان پر ہوگا۔ یہ سوال ابھی جواب طلب ہے کہ کیا تمام ارکان ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیں گے؟