پہلے سے ہی غربت اور ذلت کی بھٹی میں پس رہی ملک کی اکثریت کو کورونا وبا کی دوسری لہر نے ایک ایسے منجدھار میں لاپھینکا ہے جہاں سے نکلنے کی بظاہر کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے۔ہر چہار طرف موت کا رقص ہے۔ بیماری، غربت اور بھکمری کا عذاب اس پر سوا ہے۔ملک کی اشرافیہ ان سب سے بے نیازچین کی بانسری بجارہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکمرانوں اورا نتظامی اہلکاروں کی نااہلی و عاقبت نا اندیشی کا خمیازہ بھی عوام کوہی بھگتنا پڑرہاہے۔ کورونا وائرس سے بچائو کیلئے 16جنوری2021سے بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ شروع کی گئی ویکسین مہم بھی حکمرانوں اور انتظامیہ کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ایک طرف ویکسین کی بربادی ہورہی ہے تو دوسری طرف ویکسین دیے جانے کی پالیسی بھی سوالوں کے گھیرے میںہے۔ ایک ایسا انتظامی معاملہ جسے سرانجام دینے کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہے اوراس کی کامیابی پر ملکی آبادی کی بقا کا دارومدار ہے، اس میں بھی منمانی اور نامعقولیت سر چڑھ کر بول رہی ہے۔نوبت یہ آگئی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بھی کوروناویکسین دیے جانے کی پالیسی پر حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کئی ایک معاملات میں وضاحت طلب کی ہے۔سپریم کورٹ نے مرکز کی ٹیکہ کاری پالیسی کو ناقص قرار دیتے ہوئے 18سے44سال تک کے عمر گروپ کی ٹیکہ کاری پالیسی کو ترجیح دینے کو ناکافی ٹھہرایا ہے۔
نام نہاد ویکسین اتسو اوربلند بانگ دعوے کے ساتھ شروع کی گئی مہم کے آغاز سے ہی ویکسین کی کمی کا معاملہ سامنے آنے لگا تھااور آج بھی پنجاب، دہلی، مہاراشٹر، کیرالہ اور آندھرا پردیش سمیت ملک کے زیادہ تر حصوں میں ویکسین کی کمی برقرار ہے جس کی وجہ سے کئی ریاستوں میںوہاں کی حکومتوں نے ٹیکہ کاری مراکز عارضی طور پر بند کردیے ہیں۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ بڑے سرمایہ داروں کے نجی اسپتالوں میں کورونا ویکسین کی بہتات ہے۔یہ نجی اسپتال نہ صرف اپنے یہاں بلکہ اپنے ذیلی اداروں کے توسط سے بھاری رقم لے کر لوگوں کو ٹیکہ دے رہے ہیں۔اس صورتحال میںیہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیاکسی سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ویکسین کی قلت پیدا کی جارہی ہے تاکہ دواساز کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو بھاری منافع پہنچایا جاسکے؟ ان سوالات کی وجہ سے معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا اور عدالت نے مرکزکی ٹیکہ کاری پالیسی کو غیرمعقول بتاتے ہوئے اس کی تمام تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ عدالت نے مرکز کو حکم دیا ہے کہ اب تک جتنی ویکسین خریدی گئی ہے،وہ اس کی تفصیلات پیش کرے نیز یہ بھی بتائے کہ اب تک کتنے لوگوں کو ٹیکہ دیا گیا ہے اور کتنی آبادی اس سے محروم ہے۔ دیہی حلقوں میں کتنے فیصد لوگوں کو ویکسین لگی ہے اور شہری علاقوں میںکتنی فیصد آبادی اس سے مستفیض ہوئی ہے۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیر صدارت تعطیلی بنچ نے حکومت سے یہ بھی پوچھا ہے کہ کورونا کے ساتھ ہی پروان چڑھ رہے بلیک فنگس کی وبا سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں۔اس کے علاج کیلئے دوا کی دستیابی یقینی بنانے کے کیا کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔یہ تمام جانکاریاں 2ہفتوں کے اندر حلف نامہ کی شکل میں عدالت نے طلب کی ہیں۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس ایل این ناگیشور رائو اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی اس بنچ نے اپنے احکام میں کہاہے کہ حکومت یہ تفصیل دے اور صاف صاف بتائے کہ تینوں ویکسین کووی شیلڈ، کوویکسین اوراسپوتنک -بی کی خریداری کیلئے کب کب آرڈر دیے گئے، ہر تاریخ پر ویکسین کی کتنی ڈوز کا آرڈر دیاگیا اور اس کی دستیابی کی تاریخ کیا ہے۔ ملک کی ویکسی نیشن پالیسی لگاتار سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت سے جتنے سوالات پوچھے ہیں وہی سوالات ہرہندوستانی کے ذہن میں بھی پیدا ہورہے ہیں۔ ویکسین کی قیمتوں میں بھاری فرق بھی حیران کن ہے۔ مرکزی حکومت کو فی ڈوز ویکسین 150روپے، ریاستوں کو 300روپے سے600روپے اور نجی اسپتالوں کو 600روپے سے1200روپے میں فی ڈوز ویکسین مل رہی ہے۔ یہ پالیسی بھی ویکسین کی قلت کا سبب ہے،قیمتوں میں فرق کی وجہ سے بہت سی ریاستیں ویکسین کی خریداری پرشش و پنج کی شکار ہیں۔ کیرالہ کے وزیراعلیٰ پنرائی وجین نے تو 11غیر بی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھا ہے اور ویکسین کی خریداری کیلئے مرکز پر مشترکہ دبائو بنانے کی اپیل کی ہے۔
کہاجارہاہے کہ کورونا سے جاری جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار ویکسین ہے۔اس ہتھیار کے بل پر ہی ہم وبا کو مات دے سکتے ہیں لیکن اسی ہتھیار کی پالیسی جب مبہم، غیرمعقول، ناقص، غیرواضح اور امتیاز و تعصب سے بھری ہوئی ہو تو ممکن نہیںہے کہ جنگ جیتی جاسکے۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ویکسین پالیسی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب دے۔ عدالت عظمیٰ نے عوام کے ان ہی سوالوں کے جواب حکومت سے طلب کیے ہیں تاکہ عوام کی غیریقینی ختم ہو اور ان کے خدشات دورکیے جاسکیں۔
[email protected]
ویکسین پالیسی پر ’سپریم ڈوز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS