خواجہ عبدالمنتقم
حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنے قیام کے تقریباً 74سال بعد بھی اپنے ایک حالیہ فیصلے میںنچلی عدالتوں کو یہ تنبیہ کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے کہ انہیں مقدمات کی سماعت کے معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے اور گواہوں کی باتوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے صرف ٹیپ ریکارڈر جیسا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کی اس بات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس غیر ذمہ دارانہ روش کے سبب نہ معلوم کتنے فیصلے غلط ہوئے ہوں گے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انہیں معتبر ثبوت و شہادت حاصل کرنے کے لیے شہادت ایکٹ کی دفعہ165 اور مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ311 ، جن کی تفصیل ما بعد درج ہے،کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہیے تا کہ تمام حقائق سامنے آجائیں اوراس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحیح انصاف تبھی ہوسکتا ہے جب عدالتیں چاق چوبند رہیں اور استغاثہ و پراسیکیوٹنگ ایجنسیوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں۔ان کی لاپروائی سے انصاف رسانی کے عمل پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔
یاد رہے کہ گواہان کے ذریعہ پیش کی گئی شہادت کو قانونی اعتبار سے صرف اس صورت میں قابل ادخال شہادت کہا جائے گا، جب وہ صداقت پر مبنی ہو۔ اگر کوئی گواہ جھوٹ بولتا ہے اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس نے جھوٹی گواہی دی ہے یا اس کی شہادت سنی سنائی بات پر مبنی ہے تو ایسی گواہی نا قابل قبول ہوتی ہے۔ سنی سنائی شہادت (Hearsay evidence) اس شہادت کو کہاجاتا ہے جس کو گواہ نے نہ بچشم خود دیکھا ہو اور نہ خودکہتے ہوئے سنا ہو بلکہ یہ اس کی ایسی سنی سنائی بات ہو جو اسے کسی دوسرے شخص سے معلوم ہوئی ہو۔
کلیان کمار گگوئی بنام آشوتوش اگنی ہوتری ودیگروالے معاملے (AIR 2011 SC 760) میں سپریم کورٹ نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ مندرجہ ذیل پیمانوں کی بنیاد پر سنی سنائی شہادت کو کافی حدتک متعلقہ نہیں کہا جاسکتا:
.1جو شخص سنی سنائی شہادت عدالت کے روبرو پیش کرتا ہے تو یہ سمجھئے کہ وہ قانون شہادت کی اس غرض کو زک پہنچا رہا ہے جس میں بنیادی طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ عدالت کے روبرو جو بھی شہادت پیش کی جائے، وہ ذمہ دارانہ طریقے سے پیش کی جانی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ملزم کو جھوٹی شہادت کی بنیاد پر سزا مل جائے۔
.2ایسی سنی سنائی شہادت کی بنیاد سچ پر نہ ہو، اسے عدالت کے روبرو پیش کرنے سے عدالت اور فریق ثانی دونوں کا ہی وقت ضائع ہوتا ہے۔
.3 اگر عدالتیں سنی سنائی شہادت کو پیش کرنے کی اس طرح اجازت دینے لگیں تو اس سے نام نہاد گواہان کوفریب، غلط بیانی اور ناجائز دباؤ جیسی برائیوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا اور یہ فریق ثانی کے خلاف ناانصافی کے زمرے میں آئے گی۔
قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اپنے ایک حالیہ فیصلے میں گجرات ہائی کورٹ نے ایک جج کے مقابلے میں عدالت کے ایک چپراسی کی شہادت کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے معاملے کو مزید کارروائی کے لیے ذیلی عدالت کو بھیج دیا۔
آئیے اب مذکورہ ان دونوں دفعات کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں جنہیں نچلی عدالتوں کو انصاف رسانی کے نقطۂ نظر سے ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
قانون شہادت کی دفعہ165: اس دفعہ کے تحت جج متعلقہ واقعات کے انکشاف یا ان کے مناسب ثبوت حاصل کرنے کے لیے کوئی سوال جو وہ چاہے کسی بھی اندا ز میں، کسی بھی وقت، کسی بھی گواہ یا فریقین سے کسی متعلقہ یا غیر متعلقہ واقعہ کے متعلق پوچھ سکتا ہے اور کسی دستاویز یا چیز کے پیش کرنے کا حکم دے سکتا ہے اور نہ فریقین نہ ان کے ایجنٹ کسی ایسے سوال یا حکم پر کوئی اعتراض کرنے کے عدالت کی اجازت کے بغیر کسی ایسے سوال کے جواب میں دیے گئے کسی جواب پر کسی گواہ سے جرح کرنے کے حقدار ہوںگے بشرطیکہ فیصلے کا ان واقعات پر مبنی ہونا لازم ہے لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی ہے کہ اس دفعہ کی رو سے کسی جج کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ کسی گواہ کو کسی ایسے سوال کا جواب دینے پر یا کوئی ایسی دستاویز پیش کرنے پر مجبور کرے جس کا جواب دینے یا جس کو پیش کرنے سے انکار کرنے کا ایسا گواہ قانوناًحقدار ہو۔
اس سلسلہ میں قانون شہادت کی دفعات148 اور 149بھی کافی اہمیت کی حامل ہیں۔
دفعہ148: عدالت کا فیصلہ کرنا کہ گواہ سے کب سوال کیا جائے گا اور کب اس کو جواب دینے پر مجبور کیا جائے گا: -اگر کوئی ایسا سوال اس معاملے کی نسبت ہو جو نالش یا کارروائی سے متعلقہ نہ ہو سوائے اس حد تک جس تک کہ اس کا اثر گواہ کے چال چلن میں عیب لگا کر اس کی معتبریت پر ہوتا ہو تو عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا گواہ کو اس کا جواب دینے پر مجبور کیا جائے گا یا نہیں اور اگر وہ ٹھیک سمجھے تو گواہ کو آگاہ کرسکتی ہے کہ وہ اس کا جواب دینے پر مجبور نہیں ہے لیکن اپنا اختیار تمیزی استعمال کرتے وقت عدالت مندرجہ ذیل کو ملحوظ خاطررکھے گی—
(1) ایسے سوالات مناسب ہیں اگر وہ ایسی نوعیت کے ہیں کہ ان سے لگائی گئی تہمت کی صداقت اس معاملے میں جس کی گواہی وہ گواہ دیتا ہے گواہ کی معتبریت کے بارے میں عدالت کی رائے پر شدید اثر ڈالے گی؛
(2) ایسے سوالات نامناسب ہیں اگر ان سے لگائی گئی تہمت ایسی باتوں کے متعلق ہے جو وقت میں اتنی پرانی یا اس نوعیت کی ہیں کہ تہمت کی صداقت اس معاملے میں جس کی گواہی وہ گواہ دیتا ہے گواہ کی معتبریت کے بارے میں عدالت کی رائے پر کوئی اثر نہ ڈالے گی یا خفیف حد تک اثر ڈالے گی؛
(3) ایسے سوالات نامناسب ہیں اگر گواہ کے خلاف لگائی گئی تہمت کی اہمیت اور اس کی شہادت کی اہمیت کے درمیان بہت زیادہ نامناسبت ہے؛
(4) عدالت اگر ٹھیک سمجھے گواہ کے جواب دینے سے انکار سے یہ نتیجہ نکال سکتی ہے کہ اگر جواب دیا جاتا تو ناموافق ہوتا۔
دفعہ 149:سوال کا بغیر معقول وجوہ کے نہ پوچھا جانا: ایسا کوئی سوال جس کا حوالہ دفعہ 148 میں دیا گیا ہے تب تک نہیں پوچھا جانا چاہیے جب تک کہ اس سوال کو پوچھنے والے شخص کے پاس یہ باور کرنے کی مناسب وجوہ نہ ہوں کہ وہ تہمت مضبوط بنیادوں پر لگائی گئی ہے۔
مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 311: اس دفعہ میں یہ التزام ہے کہ عدالت اس کوڈ کے تحت کسی بھی جانچ، ٹرائل یا دیگر کسی بھی کارروائی میں کسی بھی مرحلہ پرکسی بھی شخص کو بطور گواہ سمن کر سکتی ہے اور کسی ایسے حاضر شخص کا بیان بھی درج کر سکتی ہے جسے بطور گواہ سمن نہ کیا گیااور کسی بھی ایسے شخص کو جس کا بیان پہلے ریکارڈ کیا جا چکا ہے اسے دوبارہ بلا سکتی ہے اور اس کا بیان درج کرسکتی ہے لیکن عدالت یہ قدم اس صورت میں ہی اٹھائے گی جب معاملے کا صحیح فیصلے کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]