موقف اگر واضح ہو تو تذبذب پیدا نہیں ہوتا، اندیشے اور خدشات جنم نہیں لیتے۔ ہندوستان کے چیف جسٹس، ڈی وائی چندرچوڑ نے منی پور معاملے پر واضح موقف کا اظہار کیا ہے۔ منی پور تشدد پر داخل عرضیوں کی سنوائی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا، ’سی بی آئی اور ایس آئی ٹی پر اعتماد کرنا کافی نہیں ہوگا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ لوگوں کو انصاف مل سکے۔ پہلے ہی کافی وقت گزر چکا ہے۔ تین مہینے گزرچکے ہیں اور لوگ اب تک انصاف کے انتظار میں ہیں۔ کوئی عمل شروع نہیں ہوا ہے۔‘یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ چیف جسٹس انصاف کے لیے متاثرین کو زیادہ انتظار کرانا نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں واقعی انصاف ملے۔ اس سے متاثرین کی امید بندھے گی، انہیں حوصلہ ملے گا کہ پرتشدد واقعات انجام دینے والوں کو بخشا نہیں جائے گا، منی پور کے امن کو غارت کرنے والوں کو انجام تک پہنچایا جائے گا، کیونکہ چیف جسٹس، ڈی وائی چندرچوڑ جیسے گھما پھراکر باتیں نہیںکہتے، براہ راست کہتے ہیں، اسی طرح انصاف کرتے وقت انصاف ہی کرتے ہیں، مصلحت پسندی کا خیال نہیں کرتے۔
منی پور میں اتنے دنوں تک پرتشدد واقعات کا جاری رہنا واقعی حیرت کی بات ہے۔ تشدد کا سلسلہ کیوں شروع ہوا؟ اس میں شدت کیوں آئی؟ ان سوالوں کی تو اہمیت ہے مگر یہ سوال جواب طلب ہے کہ منی پور کی حکومت اسے روکنے میں ناکام کیوں رہی؟ خواتین کو بے لباس کرکے گھمائے جانے کا ویڈیو جاری کرنے کو درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا مگر یہ ویڈیو اگر جاری نہیں ہوتا توکیا اس واقعے کے ملزمین کی گرفتاری ہوپاتی؟ یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے، کیونکہ ویڈیو آنے کے بعد پولیس نے ملزمین کو گرفتار کرنے میں سرگرمی دکھائی اور ایک سے زیادہ ملزمین کو گرفتار بھی کر لیا۔ اب اگر پولیس یہ کہتی ہے کہ وہ پہلے سے سرگرم تھی تو یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ مذموم واقعے کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد بھی ملزمین کی گرفتاری میں کامیابی اسے نہیں ملی تھی تو ویڈیو آنے کے بعدکامیابی اسے کیوں ملنے لگی؟ منی پور سیاست کرنے کا ایشو نہیں ہے، یہ ایشو ہمدردی کا طلب گار ہے۔ منی پور کے حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ متاثرین سے ملاقات کی جائے، ان سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے، انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ ان کے دکھ میں ملک کے تمام لوگ شامل ہیں، انہیں بلکتے ہوئے حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا، ان سے عملی طور پر بھی ہمدردی کا اظہار کیا جائے گا، ان کی بازآبادکاری کی کوشش کی جائے گی۔ اپوزیشن اتحاد انڈیا کے لیڈروں کا ایک وفد 29 جولائی کو منی پور گیا تاکہ وہ منی پور میں 3 ماہ سے جاری تشدد اور وہاں کے لوگوں کے مسئلوں کے حل کے سلسلے میں حکومت اور پارلیمنٹ کو رائے دے سکے۔ اپوزیشن لیڈروں نے متاثرین سے ملاقات کی، ان کی آپ بیتی سنی، ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری کے مطابق، ’منی پور میں نسلی لڑائی ہندوستان کی شبیہ کو خراب کر رہی ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے سبھی پارٹیوں کو ایک پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔‘ ادھیر رنجن چودھری کا کہنا ہے کہ ’ہم سیاسی مسائل اٹھانے نہیں آئے ہیں بلکہ منی پور کے لوگوں کے درد اور زمینی صورتحال کو سمجھنے آئے ہیں۔ حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔‘ادھر بی جے پی نے اپوزیشن پارٹیوں سے منی پور کے حالات خراب کرنے سے باز رہنے کے لیے کہا ہے تومرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے اپوزیشن ارکان پارلیمان کے منی پور دورہ کو ’محض دکھاوا‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اتحاد کے ارکان پارلیمان کو بنگال اور راجستھان بھی جانا چاہیے۔ ادھیر رنجن کو بنگال کے حالات کو بھی اراکین پارلیمان کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔‘
ایک طرف پارلیمنٹ میں منی پور تشدد کے ایشو پر بحث جاری ہے تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی عدالت اس پر سنوائی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس، ڈی وائی چندرچوڑ کے مطابق، ’ہم منی پور میں ذاتوں کی جدوجہد کے دوران خواتین کے خلاف غیرمتوقع طور پر تشدد دیکھ رہے ہیں۔ اس معاملے میں بنگال اور دیگر ریاستوں میں خواتین کے خلاف تشدد کی مثالیں دی جارہی ہیںلیکن یہ معاملہ الگ ہے۔‘ انہوں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ’کہیں دوسری جگہ خواتین پر ہو رہے تشدد کا حوالہ دے کر منی پور کے معاملے کو صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘اس لیے بہتر یہی ہے کہ پوری توجہ منی پور میں امن بحال کرنے پر دی جائے تاکہ قیام امن منی پور کے لوگوں کے لیے زیادہ دنوں تک خواب نہ رہے، وہ لوگ چاہے میتیئی ہوں یا کوکی۔
[email protected]
منی پور تشدد پر عدالت عظمیٰ کا واضح موقف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS