آج 22 مئی 2025 کو ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں ایک اور فیصلہ کن لمحہ رقم ہوا جب سپریم کورٹ نے ایک غیرمعمولی سخت لب و لہجے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کو آئینی حدود کی یاددہانی کراتے ہوئے تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (TASMAC) کے خلاف جاری منی لانڈرنگ کارروائی پر فوری طور پر روک لگا دی۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل دو نفری بنچ نے جس قطعیت، صراحت اور آئینی وفاداری کے ساتھ ای ڈی کی ’’تمام حدوں کو پار کرنے‘‘ والی روش پر سرزنش کی وہ نہ صرف ایک ادارے کی بے مہار پیش قدمی پر قدغن ہے بلکہ وفاقی توازن کے تاروپود کی حفاظت کا ایک جرأت مند مظہر بھی ہے۔
یہ فیصلہ ان معنوں میں بھی تاریخی ہے کہ اس میں پہلی بار عدالت عظمیٰ نے مرکزی تفتیشی ایجنسی کو ایک ریاستی کارپوریشن پر براہ راست کارروائی سے باز رہنے کا حکم دیتے ہوئے یہ بنیادی سوال اٹھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جرم کو ایک کارپوریشن کے خلاف قرار دیا جائے؟ اگر کوئی خلاف قانون عمل ہوا ہے تو اس کے ذمے دار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہیے نہ کہ پوری کمپنی کے خلاف۔ عدالت نے کہا کہ یہ ایک فوجداری معاملہ ہے اور فوجداری ذمہ داری انفرادی ہوتی ہے اجتماعی یا ادارہ جاتی نہیں۔ای ڈی اپنی کارروائیوں میں حد سے تجاوز کر رہا ہے۔
عدالت کا یہ سوال اور تبصرہ اصل میں ای ڈی کی اس بڑھتے ہوئے رجحان کو چیلنج کرتا ہے جس میں وہ ریاستی خودمختاری کو نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست ادارہ جاتی سطح پر مداخلت کی جسارت کرتا ہے۔
تمل ناڈو کی سرکاری شراب کمپنی TASMAC پر ای ڈی کے ذریعہ مارچ 2025 اور پھر 16 مئی کو کیے گئے چھاپے جن میں منیجنگ ڈائریکٹر سمیت اعلیٰ عہدیداروں سے طویل بازپرس، موبائل فونز کی کلوننگ اور ٹنڈر و بار لائسنس الاٹمنٹ میں بے ضابطگیوں کے الزامات شامل تھے، بظاہر شفافیت کی آڑ میں ایک سنگین آئینی مسئلہ کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ای ڈی نے اپنی تحقیقات کی بنیاد ریاستی ڈائریکٹوریٹ آف ویجی لنس اینڈ اینٹی کرپشن (DVAC) کی پرانی ایف آئی آرز پر رکھی لیکن سوال یہ ہے کہ جب ریاست خود ان الزامات کی چھان بین کرچکی ہے اور بارہا افراد کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے تو ای ڈی کا اچانک نمودار ہونا ایک طے شدہ سیاسی بیانیے کی خوشبو نہیں دیتا؟
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں جس جرأت اور بصیرت کے ساتھ ای ڈی کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب افسران کے خلاف ایف آئی آر ہیں تو ای ڈی یہاں کیوں آرہا ہے؟ وہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ عدالت نے ریاستی خودمختاری کو محض ایک نظریاتی اصول نہیں بلکہ آئین کے ایک فعال اور ناقابل تردید جز کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
یہ فیصلہ محض ای ڈی کی ایک کارروائی پر عدالتی حکم نہیں بلکہ یہ آئندہ کیلئے وہ آئینی معیار متعین کرتا ہے جس پر مرکز اور ریاست کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو پرکھا جائے گا۔ اگر مرکزی ایجنسیاں آئندہ بھی ریاستی اداروں پر براہ راست یلغار کرتی رہیں تو اس سے وفاقی ڈھانچے کی جڑیں کھوکھلی ہو سکتی ہیں۔ چیف جسٹس کی طرف سے دیا گیا یہ عندیہ کہ ای ڈی وفاقی ڈھانچے کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے، محض ایک تنبیہ نہیں بلکہ ایک آئینی اصول کا دفاع ہے۔
تمل ناڈو کی حکومت اور ڈی ایم کے قیادت کی جانب سے اس فیصلے کو مرکز کی ’’سیاسی انتقام‘‘ کی سیاست کے خلاف ایک فتح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ اگلے سال2026 میں ہونے والے ریاستی انتخابات سے قبل ایک اہم سیاسی بیانیہ بن سکتا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر یہ عدالتی مداخلت ایک گہری فکری بحث کو جنم دیتی ہے کہ کیا تفتیشی ایجنسیوں کو سیاسی آلہ کار بننے سے روکا جا سکتا ہے؟ کیا آئین کی روح کو بیوروکریسی کی چالاکیوں سے بچایا جاسکتا ہے؟ اور سب سے اہم کہ کیا ہمارے وفاقی ڈھانچے کا تقدس محض کاغذی تحریر ہے یا عملی ترجیحات میں بھی اس کی حیثیت مسلم ہے؟
اب وقت آ گیا ہے کہ مرکز اور اس کی ایجنسیاں اپنی آئینی حدود کا ازسرنو مطالعہ کریں اور ریاستوں کے اختیارات و وقار کا احترام کریں۔ بصورت دیگر یہ خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ وفاقیت محض ایک نعرہ بن کر رہ جائے اور آئینی توازن مرکزیت کے شکنجے میں آ جائے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اگرچہ فوری طور پر TASMAC کو ریلیف فراہم کرتا ہے لیکن درحقیقت اس نے ایک وسیع تر جمہوری اصول ’’وفاقی شراکت داری‘‘ کو ایک بار پھر زندہ کیا ہے۔ ای ڈی سمیت تمام اداروں کو یاد رکھنا ہوگا کہ آئین صرف اقتدار کا ضابطہ نہیں بلکہ اختیارات کی تہذیب کا معاہدہ بھی ہے۔