پروفیسر اسلم جمشید پوری
سپریم کورٹ ہندوستان کا فیصلہ سنانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے یا یوں کہیں کہ سپریم کورٹ ہندوستان کی سب سے بڑی انصاف گاہ ہے،جہاں انصاف کی آخری امید ہوتی ہے۔یہ ہائی کورٹس کے سنائے ہوئے فیصلوں کو سنتا ہے۔ عوام کے حق میں ہو رہی بے انصافی پر اپنا حکم دیتا ہے۔اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔اس کا قیام ملک میں اپنے قانون کے لاگو ہونے کے ساتھ ہوا،یعنی 26جنوری1950میں سپریم کورٹ کا قیام عمل میں آیا۔یہ پہلے پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں ہی کام کر رہا تھا،بعد میں 1958 میںیہ تلک مارگ پر اپنی بلڈنگ میں شفٹ ہوگیا۔دراصل بہت پہلے 1774 میں اس کا قیام کولکاتا میں ہوا تھا۔یہ 1773 کے ریگولیٹنگ ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ تب اسے Calcutta Supreme Court کہا جاتا تھا۔اس میں ایک چیف جسٹس اور تین جج ہوتے تھے۔
سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 34 ہوتی ہے۔اس میں چیف جسٹس آف انڈیا بھی شامل ہیں۔چیف جسٹس آف انڈیا اور ججوں کی تقرری صدر جمہوریہ ہند کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 برس ہوتی ہے۔ابھی تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم دھننجے وائی چندرچوڑ تھے،جو سپریم کورٹ کے 50 ویں چیف جسٹس تھے اور آپ نے 9نومبر 2002 میں چارج لیا تھا۔ 10نومبر 2024 میں آپ کا ریٹائرمنٹ ہوا ہے۔ابھی تک کوئی ان کا متبادل نہیں آیا ہے۔چیف جسٹس کا عہدہ بڑی ذمہ داری کا ہوتا ہے۔ہندوستانی قانون نافذ کرنا اور شہریوں کو انصاف دلانا اس کا اہم کام ہو تا ہے۔جیسے جیسے ملک کے حالات بدل رہے ہیں،سپریم کورٹ،چیف جسٹس آف انڈیااوردیگر ججوں کا رول کافی اہم ہوگیا ہے۔یہ مانا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ،الیکشن کمیشن اور تمام اعلیٰ ادارے ہندوستان کے آئین کے مطابق سیکولر ہوں گے اور کسی کی بھی بے جا طرفداری نہیں کریں گے۔تمام اداروں کے عمل پر عوام کا بھروسہ جاتا رہا ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اب بھی عوام کو اعتماد ہے۔اصل میں عدالت عظمیٰ کسی بھی کیس یا عدالتی معاملے میں آخری عدالت ہے۔ضلعی عدالت کے فیصلے کے خلاف، صوبائی عدالت یعنی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی جا سکتی ہے۔ہائی کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے،سپریم کورٹ کیس کے ہر پہلو کی خوب چھان بین کرتا ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے،قائم بھی رکھ سکتا ہے۔اس طرح سپریم کورٹ تک پہنچتے پہنچتے انصاف بالکل چھَن جا تا ہے۔
اب سپریم کورٹ کے کچھ فیصلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔سپریم کورٹ نے کئی برسوں سے چلے آرہے بابری مسجد اراضی تنازع کے معاملے میں جو فیصلہ دیا، وہ بڑا اہم تھا۔دراصل 1992 میں بابری مسجد کا انہدام کچھ شر پسند عناصر نے کیا تھا۔اس موقع پر ہندوستان کے بڑے خطے میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑے تھے۔یہ اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے کی کوشش تھی۔اس کا مقدمہ کئی سال چلتا رہا۔ پہلے اتر پر دیش ہائی کورٹ میں،بعد میں سپریم کورٹ میں۔ مسجد کی اراضی پر ایک قوم نے رام کی جائے پیدائش کے نام پر قبضہ کر لیا تھا۔سپریم کورٹ سے مسلمانوں کو امید تھی کہ انہیں انصاف ملے گا۔9 نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس شکل میں آیا۔ اس میں متنازع اراضی77.2 ایکڑکو ہندو فریق کو دے دیا گیا۔کورٹ نے یوپی گورنمنٹ کویہ بھی حکم دیا کہ ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر تعمیر کرنے کے لیے ایک ٹرسٹ بنایا جائے۔کورٹ نے اترپر دیش حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ ایودھیا میں ہی مسجد کے لیے سنی سینٹرل وقف بورڈ کو 5 ایکڑ زمین دی جائے۔عدالت نے یہ بھی مانا کہ بابری مسجد کا انہدام قانون کی خلاف ورزی ہے۔26 سال بعدکورٹ کا فیصلہ جب آیا تو پورے ملک میں تنائو تھا اور سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی تھیں۔ملک میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑنے کا اندیشہ جتایا جا رہا تھا،مگر ایسا نہیں ہوا۔
اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر برسوں سے سب کی نظریں تھیں۔1967 میں کورٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔مرکزی قانون کے مطابق اس کا قیام،اسے اقلیتی ادارے کے زمرے میں شامل کرنے سے روکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی سات رکنی بینچ،جس میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ بھی شامل تھے،نے 1967کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیااور اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے معاملے کو تین رکنی بینچ کے حوالے کر دیا۔امید ہے کہ وہاں سے بھی یہ پاس ہو جائے گا،کیوںکہ جب سات رکنی ٹیم نے اے ایم یو کے کردار کو اقلیتی مان لیا تو تین رکنی کمیٹی تو اسے پاس ہی کر دے گی۔سوال یہ ہے کہ جس ادارے کو مسلمانوں نے قائم کیا،جس کا انتظام و انصرام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو، اسے اقلیتی درجہ نہ ملے۔یہ کیسا قانون ہے۔اے ایم یو میں غیر مسلم طلبا خاصی تعداد میں تعلیم حاصل کر تے رہے ہیں۔ویسے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی بحالی کی خبر سے سر سید کے چاہنے والوں، اے ایم یو کے طلبا اور سابق طلبا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے،بلکہ اس خبر نے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کے چہروں کو کھلا دیا ہے۔
بلڈوزر نے کافی شہرت حاصل کرلی ہے۔اترپر دیش میں ایک ہی قوم کے لوگوں کے گھر اور دکانوں پر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔یوپی میں اب اس کا خوف طاری ہے۔اسی طرز پر دوسری ریاستوں نے بھی یہ کام کرنا شروع کر دیا ہے اور ایک قوم کے لوگوں کے لیے بلڈوزر کا استعمال ہو رہا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے سے بلڈوزر کی کارروائی پر روک لگا دی ہے اور اس کے لیے نئے اصول بنانے کی بات کہی ہے۔
سپریم کورٹ نے ایک اور بہت ہی سنجیدہ معاملے میں فیصلہ سناتے ہو ئے کہا ہے کہ اب لائٹ وہیکل لائسنس والے کو 7500 کلو وزن والی گاڑیاں چلانے کی اجازت ہوگی۔یہ فیصلہ پانچ رکنی کمیٹی،جس میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ بھی شامل تھے، نے سنایا ہے۔اس سے ان ڈرائیورس کو فائدہ پہنچے گا،جن کے کلیم کو انشورنش کمپنیاں یہ کہہ کر رد کردیتی تھیں کہ انہیں اتنی وزنی گاڑی چلانے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
یوپی اور اتراکھنڈ حکومتوں نے کانوڑیاترا کے دوران راستے میں پڑنے والے دکانداروں اور ٹھیلے والوں کو اپنا نام لکھنے کا حکم دیا تھا۔اس سے پورے علاقے میں نفرت کا بازار گرم ہوتا۔سپریم کورٹ نے یوپی اور اترا کھنڈ حکومتوں کے اس حکم کو کالعدم قرار دیا اور بد امنی پھیلنے کا بر وقت علاج کیا۔
اس طرح کے سپریم کورٹ کے کئی تاریخ ساز اور اہم فیصلے ہیں،جن پر عوام کا مختلف ردعمل ہوتا ہے۔ظاہر ہے ایسے فیصلے کسی کے حق میں ہوتے ہیں اور کسی کے خلاف جاتے ہیں،مگر سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں پر عوام کی نظر ہوتی ہے اور ان کاسپریم کورٹ پر اعتماد بحال ہے۔