خواجہ عبدالمنتقم
آئین کی بالادستی کا نظریہ ہمارے جدید قانونی نظام کی دین ہے اور یہ آج کی ترقی یافتہ اور متمدن دنیا کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے۔کسی بھی ملک کا آئین اس ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے، اسی لیے اسے ملک کا قانون اساسی کہا جاتا ہے اور اسے قوانین کے زمرے میں حیثیت سربفلک حاصل ہوتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر قانون اس قانونی التزام کو ملحوظ خاطر رکھ کر بنایا جاتا ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات شامل نہ ہو جس سے آئین کی کسی بھی دفعہ میں شامل کسی بات کی نفی ہوتی ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کسی قانون یا ا س کی کسی دفعہ کو یااس کے کسی حصے کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں اور ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔ٹاڈا(Terrorist and Disruptive Activities (Prevention) Act) کا جو حشر ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح بغاوت سے متعلق مجموعہ تعزیرات بھارت کی دفعہ124Aکو کئی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے ناجائز قرار دیا۔ اس سال اگست میں سپریم کورٹ نےKarnataka Co-operative Societies Act,1959 کی دفعہ 128-A جو2023 میںترمیمی قانون کے ذریعے شامل کی گئی تھی، اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اس نے اپنے ایک فیصلے میں بنگال پراپرٹی ایکٹ کی دفعہ3اور دفعہ 5کو آئین مخا لف قرار دیا۔ اس طرح کے فیصلوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
جہاں تک بھارت کے آئین کی بات ہے، یہ کبھی ناکام نہیں ہوا۔اگر لغزش ہوئی ہے تو ان لوگوں یا اداروں سے جنہیں آئین کے التزامات کو عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ جس آئین کو سپریم کورٹ کے ججز گیتا، قرآن کریم، بائبل اور گرو گرنتھ صاحب اور فلسفہ ہند کی دھڑکن قرار دیں تو اس کے جواز کو چیلنج چہ معنی دارد۔آئین تو وہ مقدس قانونی کتاب ہے جس کی پاسداری ہر شخص اور ہر ادارے پر لازم ہے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ تک کو آئینی حدود میںرہ کر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔
ملک کا آئین ملک کے شہریوں و دیگر لوگوں کو جن پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، جائز حدود میں رکھتا ہے اورآئین کسی کو بھی اس سے انحراف اور تجاوز کی اجازت نہیں دیتا اورملک کے کسی بھی قانون کو تجاوز کی صورت میں تجاوز کی حد تک ناقص بنا دیتا ہے۔مگر ہر سماج میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو چند منٹوں میں اپنی نازیبا حرکتوںسے آئین کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔کبھی لنچنگ، کبھی پتھربازی تو کبھی مذہب کی آڑ میں لوگوں کا قتل، تو کبھی غیرشائستہ زبان کا استعمال، کبھی موجودہ اورسابقہ حکمرانوں کی بے جا تنقید۔
ویسے بھی کسی ایسے شخص کی تنقید جو اپنا دفاع نہ کرسکے قرین مصلحت نہیں۔ مگر ’ہوتا ہے تماشہ شب و روز مرے آگے‘۔اگر برسر اقتدار جماعت یا کوئی آنے والی حکومت آئین کی بالا دستی قائم نہیں رکھے گی یا کسی پہلی حکومت نے ایسا نہیں کیا تو یہ اچھی بات نہیں۔ گزشتہ را صلواۃ آئندہ را احتیاط۔ راہ معقول ہی یا صراط مستقیم ہی بہتر متبادل ہے مگر صدا طوطی کی سنتا کون ہے نقارخانے میں!کوئی اپنی خو نہیں بدلتا، تو کوئی اپنی وضع۔ ایسے تمام عوامل سے مل کر ہی کوئی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
آئین کا بنیادی مقصدہے معاشرہ کو تقسیم نہ ہونے دینا، معاشرہ کو ا من وامان اور سکون کی دولت عطا کرنا اور اگر عوام صحیح راستہ پر چلیں اور آئینی ادارے بشمول جمہوریت کے دیگر ستون سے وابستہ ادارے اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کریں تو ملک میں یقینا امن و امان رہے گاورنہ جنگل راج جیسی صورت حال پیدا ہوجائے گی،حقوق پامال ہوں گے اور معاشرہ میں انسان دشمنی، بد امنی،نا انصافی،جبروتشدد اور استحصال و استبداد جیسی برائیاں گھر کرلیں گی۔مگر اس کے باوجود انگشت شہادت اس بات کی گواہی دیتے ہوئے یہ اشارہ کر رہی ہے کہ اس طرح کی حر کتیں نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہوتی رہی ہیں جن سے آئین پر آنچ آنے کا گمان ہونے لگتا ہے۔
اگر ہم تاریخ رفتہ پر نظر ڈالیں تو آزادی کے بعد بھی ہمارے ملک میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جن سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے قانون کی بالادستی خطرے میں ہے،جیسے عبادت گاہوں کو ضرر پہنچانا یا ان کا انہدام،مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے مضرت رساں افعال و اقوال، مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کی کوشش ،کسی کے کھان پان اور پوشاک پر بے جا تبصرہ، مذہبی مجمع و عبادت میں خلل ڈالنا۔مجاہدین آزادی کے قد کو چھوٹا کرنا، اجتماعی زنا بالجبر کے مجرمین کی رہائی پر حکومت کی ناک کے نیچے جشن منانا، ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے مجسمہ پر وار، تریپورہ میں لینن کے مجسمہ کا انہدام، بنگال میں شیاما پرساد مکھر جی کے مجسمے کی بے حرمتی،ہجومی تشدد اور پتھر بازی کے واقعات، موجودہ و ماضی کے حکمرانوں کے خلاف بے جا تبصرہ وغیرہ۔ اپنی پسندیدہ شے یا شخصیت کو تو سبھی پسند کرتے ہیں مگر قوت برداشت اور اعلیٰ ظرفی کا اصل امتحان تو اس وقت ہوتا ہے جب اپنی طبیعت کے خلاف ہونے والے کسی وقوعہ کے خلاف احتجاج کی صورت میں یا سنگین جرائم کے مجرمین کی رہائی پر بے جا خوشی مناتے وقت بھی تہذیب کے دائرہ میں رہا جائے۔ کسی مشن میں کامیابی، خواہ وہ کسی بھی میدان یا شعبۂ حیات میں ہو ،کسی عمارت کی شکست و ریخت کے ذریعہ یا طعنہ کشی کے ذریعے نہیں منائی جاتی۔ جشن منانا ایک تعمیری عمل ہے لیکن اگر اسے تخریبی اندازمیں منایا جاتا ہے تو یہ یقینا منفی فکرو عمل کا اظہار ہوگا۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانوں کو بانٹنے سے سماج میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ملک میں خوشگوار فضا کی برقراری تب ہی ممکن ہے جب قانون کی بالادستی کو برقرار رکھا جائے۔
ہمارے سپریم کورٹ نے بھی قانون کی بالادستی کے اصول کو بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ مانا ہے اور اپنے مختلف فیصلوں میں یہ بات کہی ہے کہ قانون کی بالادستی میں من مانے ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اور جہاں پر بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی کام من مانے ڈھنگ سے کیا گیا ہے یا ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے تو اسے قانون کی بالادستی کی نفی سمجھا جائے گا (ملاحظہ فرمائیے اندرا گاندھی نہرو بنام راج نرائن (اے آئی آر 1975 ایس سی 2299 ) اوربچن سنگھ بنام ریاست پنجاب(اے آئی آر 1982 ایس سی 1325 ) والے معاملے۔ ویسے بھی جب ہماری عدلیہ اور ارباب حکومت آئین کے تقدس کو مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کے مشابہ سمجھنے لگیں تو پھر آئین کے تقدس کو کیسا خطرہ؟
یاد رہے کہ قانون کی بالادستی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ضرورت پڑنے پر آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی البتہ اتنا ضرور ہے کہ کوئی ایسی ترمیم نہ کی جائے جس سے قانون کی بالادستی پر آنچ آئے، اس کے بنیادی ڈھانچے کو کوئی خطرہ لاحق ہو، کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں یا سماج میں انتشار پیدا ہو ۔باقی اہل قیادت جانیں!
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]