ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کی جنگ تاریخ میں اس اعتبار سے ایک منحوس باب کے طور پر درج ہو چکی ہے کہ اسرائیل اور اس کے مغربی حلیفوں نے عام اور نہتھے انسانوں کا 6 مہینے تک مسلسل خون بہایا، انہیں بھوک اور پیاس کی شدت سے تڑپایا اور بچوں اور عورتوں کے لئے اس مقدس سر زمین کو قبرستان میں تبدیل کر دیا، لیکن اس کے باوجود عالمی نظام کا کوئی قانون صہیونی جنگی مشین کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا کیونکہ کبھی سنجیدہ کوشش ہی اس بات کے لئے نہیں کی گئی کہ اس وحشت و بربریت سے پر صہیونی جارحیت کو روکا جائے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد فلسطینی اس بربریت کا شکار ہوچکے ہیں جن میں 33 ہزار سے زیادہ شہداء ہیں جبکہ باقی زخمی ہیں۔ جو ملبوں کے نیچے دفن ہیں ان کی تعداد اس پر مستزاد ہے۔ شہداء اور زخمیوں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ان سارے جرائم کا ارتکاب صہیونی ریاست ایسے وقت میں کر رہی ہے جبکہ اس کا ہر جرم ویڈیوز، آڈیوز اور پرنٹ شکل میں ریکارڈ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور ابلاغ کے بیشمار ذرائع سے ہر پل کی خبر دنیا کے تمام گوشوں میں پہنچ رہی ہے اور کوئی شہر ایسا اس ’مہذب‘ دنیا میں باقی نہیں ہے جہاں اس اسرائیلی بربریت اور اس کے مغربی حلیفوں بالخصوص امریکہ کے خلاف خود ان ملکوں کے باشندوں نے صدائے احتجاج بلند نہ کیا ہو۔ لیکن زمین پر حقیقت بالکل نہیں بدلی کیونکہ عوام کی آواز کو اسی طرح بے حیثیت بنا دیا گیا ہے جس طرح عالمی اداروں کو بے وزن بنا دیا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے جنگی جرائم کے لئے اس کو عالمی عدالت میں گھسیٹا اور وہاں پہلی بار اس صہیونی ریاست کو حاضر ہونا پڑا اور اس کے جنگی جرائم کے لئے پھٹکار پڑی لیکن فلسطینیوں کے حق میں اس فیصلہ کا بھی کوئی مثبت اثر نہیں ہوا بلکہ جب سے یہ عارضی فیصلہ صادر ہوا اس کے بعد سے فلسطینیوں کے قتل میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں نے روایتی طور پر مذمت کے چند الفاظ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے برأ ت کا اظہار کر لیا اور اس کے بعد پھر بم و بارود اور بھوک و پیاس کا استعمال بطور ہتھیار کرکے اسرائیل نے فلسطینیوں کا قتل جاری رکھا۔سیکورٹی کونسل میں رمضان کے اندر جنگ بندی سے متعلق قرار داد پاس ہونے کے باوجود اس کو نافذ نہیں کیا جا سکا۔ یہ تحریر جس وقت لکھی جا رہی ہے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پھر اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ غزہ کے اندر بھوک مری کی شدت کس قدر بڑھنے والی ہے۔ اہل فلسطین کی اسی بھوک مری کا سنگین معاملہ تھا جس کو کم کرنے کی غرض سے امریکہ میں واقع این جی او ورلڈ سنٹرل کچن نے اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ورلڈ سنٹرل کچن کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب امریکہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ شمالی غزہ میں بھوک کی شدت سے زندگی کھونے کے خطرات سے دوچار لوگوں تک غذا کی فراہمی کا کام کرے گا۔ حالانکہ اس ڈرامہ بازی کی ضرورت امریکہ کو قطعا نہیں تھی۔ اگر اس میں انسانی ہمدردی اور اخلاقی برتری کا ادنی عنصر بھی پایا جاتا تو وہ صرف اسرائیل سے یہ کہتا کہ رفح کے بارڈر سے امدادی اشیاء کو گزرنے کی اجازت دے۔ کیونکہ مختلف قسم کی اشیاء امداد سے پر گاڑیاں مصر اور فلسطین کی سرحد پر داخلہ کے لئے منتظر ہیں۔ مواد و اجناس کی کمی بالکل نہیں ہے۔ صرف امریکی حمایت میں اسرائیل کی حرکت سے یہ انسانی بحران فلسطین میں پیدا ہو رہا ہے، لیکن صرف صدارتی انتخابات میں اپنی گرتی ساکھ کو سنبھالنے کے لئے بائیڈن نے کہہ دیا کہ امداد کی فراہمی کے لئے امریکہ ایک عارضی بندرگاہ غزہ کے ساحل پر بنائے گا۔ حالانکہ اس کے تیار ہونے میں دو مہینے کی مدت درکار ہے۔ اس دوران ورلڈ سنٹرل کچن نے قبرص کی بندرگاہ سے غزہ تک ضروری اشیاء کی فراہمی کا کام شروع کیا تھا۔ اس سلسلہ میں اسرائیل کے ساتھ مکمل تنسیق اور کوآرڈی نیشن کیا گیا تھا تاکہ راحت رسانی کا کام کرنے والوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ ان کی گاڑیوں پر تمام تر وہ علامتیں ثبت کی گئی تھیں جن سے واضح طور پر معلوم ہو کہ یہ ورلڈ سنٹرل کچن کے عملے ہیں جو انسانی امداد کے لئے زمین پر موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اس عملہ نے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کے بارے میں بھی موافقت اسرائیل کی جانب سے آئی تھی۔ ان تمام احتیاطی پہلوؤں کے اختیار کئے جانے کے باوجود اسرائیل کی جنگی مشین نے اس این جی او کے 7کے 7 افراد کو پے در پے حملے کرکے ختم کر دیا۔ جو افراد اس حملہ میں مارے گئے ان میں سے صرف ڈرائیور فلسطینی تھا جس کا نام سیف الدین عصام ایاد ابو طہ تھا اور اس کی عمر محض 25 برس تھی۔
اس کے علاوہ سبھی افراد کا تعلق مغربی ملکوں سے تھا۔ زومی فرینکوم (43) آسٹریلیا کا شہری تھا، ڈیمیان سوبول (35) پولینڈ سے تھا اور جیکب فلیکینگر (33) امریکا و کناڈا کا شہری، جبکہ جون چیپ مین (57)، جیمس ہینڈرسن (33) اور جیمس کیربی (47) کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ ان ساتوں افراد کا قتل اس وقت کیا گیا جب وہ سو ٹن غذائی اجناس کو اپنی گاڑی سے اتار کر فارغ ہی ہوئے تھے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں اسرائیل نے راحت رسانی کا کام کرنے والے افراد کو نشانہ بنایا ہو۔ اقوام متحدہ کی اعداد و شمار کے مطابق اب تک 196 ایسے لوگوں کا قتل اسرائیل اس جنگ کے دوران کر چکا ہے جو راحت رسانی کی خدمات میں منہمک تھے۔ لیکن مغربی ملکوں کے پاور کے گلیاروں سے کبھی اس کے خلاف احتجاج اور غم و غصہ کے جذبات کا اظہار نہیں کیا گیا۔ شاید اس لئے کہ اس سے قبل سفید رنگ کے مغربی شہری ان ہتھیاروں سے نہیں مارے گئے تھے جن کی سپلائی خود مغربی ممالک اسرائیل کو لگاتار کر رہے ہیں۔ اس واقعہ نے مغرب کے دوہرے معیار کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے واضح کر دیا۔ اب تک 33 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اگر ورلڈ سنٹرل کچن کے 6 سفید فام افراد کی موت کا موازنہ فلسطینی قیمتی جانوں سے کیا جائے تو ہر فرد کے مقابلہ 5 ہزار سے زائد فلسطینی شہید کئے گئے لیکن مغربی ملکوں کی پیشانی پر بل تک نہیں آئے۔ بلکہ جب کبھی فلسطینیوں نے اپنے شہداء کی تعداد کا ذکر کیا تو اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور عام طور اسرائیلی پروپیگنڈہ کو ہی قبول کیا گیا گویا کہ فلسطینی زندگیوں کی طرح ان کی باتوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس جنگ میں مغربی عوام کی اکثریت کا ہی صرف استثناء کیا جاسکتا ہے جنہوں نے لگاتار مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اپنی آواز بلند کی ہے۔ ورنہ اس کے علاوہ پاور کے تمام مراکز خواہ وہ سرکاری ادارے، میڈیا یا کارپوریٹ ہوں سب نے اسرائیل کی وحشیت و بربریت اور فلسطینی عوام کے خلاف اس کے مظالم کے ارتکاب میں صہیونیوں کا ساتھ دیا ہے۔ مغربی میڈیا میں حق و انصاف کی آواز اتنی مدھم اٹھتی رہی ہے کہ اس کو قابل اعتناء نہیں سمجھا جا سکتا۔ برطانوی اخبار ’دی انڈپنڈنٹ‘نے اگرچہ ورلڈ سنٹرل کچن کے عملہ کے قتل پر بہت زوردار اداریہ لکھا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کے مظالم کی حد ہوگئی اس پر قدغن لگنا چاہئے اور اداریہ نے کافی اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور مغربی ملکوں بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور کناڈا میں اسرائیل کے تئیں ہمدردی میں جو کمی آ رہی ہے اس کا ذکر کیا ہے۔ اس نے فوراً جنگ بندی کا مشورہ بھی دیا ہے اور جنگ کے دائرہ کو ایران کے ساتھ وسیع کرنے سے منع کیا ہے تاکہ اس خطہ کا امن غارت نہ ہو۔ لیکن اخبار اس بات کو کہنے سے بھی نہیں چوکتا ہے کہ ’اسرائیل کے لئے مدد ہمیشہ موجود رہے گی‘ لیکن یہ مدد غیر مشروط اور آٹومیٹک ڈھنگ سے نہیں ملے گی۔ یہ بات اسی قبیل کی ہے جس کے تحت اسرائیل کے ہر جرم کے باوجود امریکہ اور یوروپ یہ کہہ دیتا ہے کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ اسرائیل اس بیان کو اپنے حق میں بلینک چیک سمجھتا ہے اور دنیا کے ہر قانون کو اپنے پاؤں تلے روند دیتا ہے۔ اگر مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ اس جنگ کو روکنے اور عام فلسطینیوں کے مسائل کے حل میں واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اسرائیل کو ہتھیار کی فراہمی بند کرنی ہوگی اور اس کے بعد اس پر ہر طرح کی پابندیاں عائد کرنی ہوگی۔ اگر اسرائیل کے خلاف اسی طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا جو روس کے ساتھ امریکہ اور ناٹو کے اراکین نے کیا تھا تو آج اہل فلسطین کی حالت اتنی خستہ اور ناگفتہ بہ نہ ہوتی۔ امریکہ اگر چاہے تو ایک فون سے اس جنگ کو بند کروا سکتا ہے کیونکہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ ورلڈ سنٹرل کچن کے افراد کے قتل کے بعد جب بائیڈن نے نیتن یاہو سے فون پر اپنے غصہ کا اظہار کیا تو اس کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اسرائیل نے امدادی اشیاء کی فراہمی کے لئے راستوں کو کھولنے کا اعلان کردیا، لیکن سچائی یہی ہے کہ امریکہ اس معاملہ میں بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔ وہ اسرائیل کے اس پلان میں برابر کا ساتھی ہے جس کے مطابق غزہ کو فلسطینیوں سے صاف کردینے کا ارادہ موجود ہے۔ مغربی ملکوں کا یہ دوہرا معیار دنیا کی باقی کمزور قوموں کے لئے لعنت بن چکا ہے۔ اس کی بہت بڑی قیمت دنیا کی اکثریت چکا رہی ہے۔ اب ایک ایسے عالمی نظام کی ضرورت ہے جس میں مغرب کی بالادستی اور اس کی جدید استعماری پالیسیوں کے خاتمہ کا نسخہ موجود ہو اور ایک ایسا متوازن عالمی نظام تشکیل دیا جائے جس میں حق و انصاف کے الگ الگ معیار طے نہ کیے جائیں۔ اس کی جانب پہلا مثبت قدم یہ ہوگا کہ فلسطین کو اسرائیلی تسلط سے آزاد کیا جائے اور گزشتہ 76 سالوں سے اپنے حقوق اور آزادی کی مسلسل جنگ لڑنے والی باوقار قوم کو عزت کے ساتھ جینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جب تک فلسطین کو آزادی حاصل نہیں ہوگی دنیا کا ضمیر بھی آزاد تصور نہیں کیا جا ئے گا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں