غزہ میں 43,603 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں، اس کی تباہی کی رہی سہی کسر پوری کی جا رہی ہے۔ لبنان کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے، کئی جمہوری ممالک امن کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ باتوں سے جنگ ختم نہیں ہوتی۔ ایک سال پہلے مسلم ملکوں کا غزہ پر ایک بڑا سربراہ اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں ان ملکوں نے کیا اشارہ دیا یا بعد کے دنوں میں ان کی حکمت عملی کیا رہی، یہ سوچنے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ گزشتہ ایک برس میں غزہ کی تباہی نے ان کی حقیقت دنیا کے لیے قابل فہم بنا دی ہے۔ آج ریاض میں ایک بار پھر غزہ اور لبنان کی صورتحال پر ایک سربراہ اجلاس ہو رہا ہے۔ 50 سے زیادہ عرب اور اسلامی ملکوں کے سربراہان اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ سربراہ اجلاس سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے بلایا گیا ہے۔ اس اجلاس کا انعقاد خوش آئند ہے، البتہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس سے امیدیں وابستہ کرنا خود کو خوش فہمی میں مبتلاکرنا تو نہیں؟
سیاست میں اکثر اچھی اچھی باتیں کی جاتی ہیں، انسانیت کی باتیں، انسانیت کی بقا کی باتیں، انسانیت کے تحفظ کی باتیں، انسانوں کی بھلائی کی باتیں،یہاں تک کہ انسانیت کی حفاظت کے لیے جنگ تک کر ڈالی جاتی ہے اور اس سلسلے میں عراق جنگ ایک مثال ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ جنگ کا ظاہری مقصد کچھ اور ہوتا ہے اور اصل مقصد کچھ اور ہوتا ہے اور اصل مقصد مفاد پر مبنی ہوتا ہے۔ عالمی سیاست میں مفاد کی بڑی اہمیت ہے، البتہ کچھ لیڈروں کو عہدہ، مفاد سے بڑھ کر انسانیت عزیز ہوتی ہے، وہ خود کو عملی طور پر انسان ثابت کرنے کے لیے کسی بات کی پروا نہیں کرتے، بلا تفریق مذہب و ملت انسانوں کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ غزہ اور لبنان کے معاملے میں بھی یہی سب دیکھنے میں آیا ہے۔ ان ملکوں نے غزہ کے لوگوں کو بچانے اور اسرائیل کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جو مسلم ممالک نہیں ہیں۔ وہ غیر مسلم ممالک جو غزہ کے لوگوں کے حق میں بہت کھل کر کھڑے نہیں ہوئے، جنگ کو رکوانے کی کوشش ان کی طرف سے بھی ہوئی۔ اقوام متحدہ میں جب جب جنگ بندی کے لیے قرارداد پیش کی گئی، جنگ بندی کے حق میں وہ کھڑے ہوئے۔ یہ بات الگ ہے کہ امریکہ اور اس کے چند اتحادیوں نے جنگ بندی کی ان کی کوششوں پر پانی پھیرنے کا کام کیا مگر اسی امریکہ میں، برطانیہ میں جو بڑی مضبوطی سے اب تک اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، لوگوں نے غزہ جنگ کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کیے، کھل کر لبنان جنگ کے خلاف بولتے رہے ہیں بلکہ امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والے اسرائیل مخالف مظاہرے دنیا بھر کے اخبار و رسائل کی سرخیوں میں رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کتنے مسلم ملکوں، بالخصوص عرب ملکوں میں غزہ جنگ کے خلاف لوگ اسی طرح مظاہرے کرسکے جیسے امریکہ اور یوروپی ممالک میں ہوئے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کتنے مسلم ملکوں، بالخصوص عرب ملکوں نے اہل غزہ سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے علاوہ اسرائیل کے خلاف اقدامات کیے یا اسرائیل سے اس ایشو پر سفارتی تعلقات منقطع کیے؟ سوال یہ بھی ہے کہ بظاہر اسرائیل سے رشتہ منقطع اور غزہ کے فلسطینیوں سے ہمدری کا اظہار کرکے گھریلو سیاست میں اپنی امیج مضبوط کرنے اور عالمی سطح پر اپنے ملک کی ساکھ مستحکم بنانے کے لیے کوشاں رہنے والے مسلم لیڈروں کے اسرائیل کے لیے جانے والے ہتھیاروں سے بھرے جہاز کو اپنے پورٹ پر ٹھہرنے کی اجازت دینے کی سچائی کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب جاننا ضروری اس لیے ہے کہ یہ تو سچائی ہے کہ سیاست میں مفاد کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے مگر وہ لیڈران بڑے ’گھاتک‘ ہوتے ہیں جو اپنے مفاد کا کھیل دوسروں کے تئیں ہمدردی کا اظہار کرکے کھیلتے ہیں، فلسطینیوں کے تئیں بظاہر پرخلوص ہمدردی کا اظہار کرنے والے لیڈروں کی اصلیت جاننے کے لیے ان کے قول و عمل کی یکسانیت اور تضاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ اچھی باتوں سے اگر فلسطینیوں کا بھلا ہو جاتا تو مسئلۂ فلسطین کب کا سلجھ چکا ہوتا، غزہ کھلی جیل میں تبدیل نہیں ہوتا اور آج وہ حالات نہیں ہوتے، جو ہیں۔ غزہ جنگ کی لبنان تک توسیع اور ایران تک توسیع کا اندیشہ یہ اشارہ ہے کہ جنگ کی آگ ایک علاقے میں لگ جائے تو اطراف کے وسیع علاقے کے لیڈروں اور لوگوں کو خوف میں جینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ آج مشرق وسطیٰ کے حالات کچھ اسی طرح کے ہیں۔ فلسطینیوں کو ہمدردی کی نہیں، انصاف کی ضرورت ہے؟ انصاف کون دلائے گا، دلانے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے، یہ جواب طلب سوال ہیں!