پروفیسر للن پرساد
ملک کی مختلف ریاستوں میں ہر سال بڑی تعداد میں کسان اور زرعی مزدور خودکشی کرتے ہیں، ان کی تعداد دوسرے پیشوں کے لوگوں سے زیادہ ہے۔ حالانکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کی آدھی سے زیادہ آبادی کا انحصار زراعت پر ہے، یہ تشویش کا موضوع ہے۔ کسانوں کی خودکشی کے واقعات سب سے زیادہ مہاراشٹر میں ہوتے ہیں، جو ایک خوشحال ریاست ہے۔ آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالہ، تمل ناڈو اور پنجاب میں بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے خودکشی کے زیادہ معاملے سامنے آتے ہیں۔ آزادی کے75سال بعد بھی چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کو معاشی ترقی کا فائدہ بڑے کسانوں کے مقابلے میں بہت کم ملا۔ زیادہ تر چھوٹے کسان قرض میں ڈوبے ہوتے ہیں، قدرتی آفات کی وجہ سے فصل کے نقصان کو برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ گھر کے اخراجات پورے کرسکیں، شادی بیاہ اور تہواروں،بچوں کی تعلیم اور خاندان کی صحت کا خرچ نکال سکیں اور خوشگوار زندگی گزارسکیں۔ گاؤوں میں پسماندہ طبقات اور دلتوں کی حالت تو اور بھی نازک ہے۔ کاشتکاری کی بڑھتی ہوئی لاگت، آبپاشی کا ناقص نظام، مہنگی کیمیائی کھادوں کا استعمال، منشیات کی لت بھی ان کے مسائل میں اضافہ کرتی ہے۔ خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ذہنی تناؤ ہوتی ہے جو فصل برباد ہونے اور خاندانی مسائل کی وجہ سے سب سے زیادہ ہوتا ہے۔1990میں ہوئی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں صنعتی، مالیاتی اور کاروباری شعبوں میں سرمایہ کاری زیادہ ہونے لگی۔ زراعت ثانوی ہوگئی، شہرکاری میں تیزی آئی اور گاؤں پیچھے رہ گئے۔ پارلیمنٹ اور مقننہ میں گاؤں کے نمائندوں کی زیادتی کے باوجود چھوٹے کسانوں اور زرعی مزدوروں کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔ بڑے کسانوں کو فائدہ ہوا، حکومت میں ان کی شرکت بڑھی اور سیاسی طاقت بھی۔ کسانوں کی قیادت بھی ان ہی کے ہاتھوں میں چلی گئی جو اب تک برقرار ہے۔ زرعی پیداوار کی تجارت ان کے کنٹرول میں ہے۔ حکومت کی طرف سے زرعی قوانین میں اصلاحات جن سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ حاصل ہو سکتا تھا، ٹھنڈے بستہ میں رہ گیا۔
1960 کی دہائی میں سبز انقلاب آیا، زرعی پیداوار میں اچھا خاصا اضافہ ہوا، لیکن کاشتکاری کی لاگت بھی بڑھتی گئی، کسانوں کی پیداوار کی قیمت نسبتاً کم بڑھی، انقلاب کا زیادہ فائدہ ان امیر کسانوں کو ہوا جن کے پاس بڑے بڑے کھیت تھے، چھوٹے کسان پھر بھی مارجن پر ہی رہ گئے۔ 1990 کی دہائی سے خودکشی کے واقعات زیادہ رپورٹ کیے گئے۔ 1995 سے 2013 کے درمیان296438 کسانوں نے خودکشی کی۔2018تک یہ تعداد 400,000 سے اوپر پہنچ گئی تھی، اوسطاً روزانہ48خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2017 اور 2021 کے دوران ملک میں خودکشی کے286,000واقعات ہوئے جن میں سے 55فیصد کسان تھے۔ مہاراشٹر میں سب سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی۔ 2021 میں روزانہ اوسطاً 15 کسانوں نے خودکشی کی۔ نیشنل کرائم بیورو کے مطابق 2022میں 11290کسانوں اور زرعی مزدوروں کے ذریعہ خودکشی کی رپورٹس آئیں۔ 2021 کے مقابلے میںیہ 3.7 فیصد اور2020کے مقابلے میں5.7فیصد زیادہ تھا۔ مجبوری میں خواتین بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ 2020-22 میں ملک کا دو تہائی حصہ خشک سالی کا شکار ہوا تھا، شدید گرم ہواؤں کی وجہ سے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں گندم، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔ چارے کی قیمتوں میں اضافہ، مویشیوں میں بیماری اور ان کی موت سے کسانوں کو اور بھی صدمہ لگا۔
کسانوں کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات ملک کی خوشحال ریاستوں میں پیش آتے ہیں جن میں مہاراشٹر پہلے نمبر پر ہے۔2021میں، ملک بھر میں کسانوں کی خودکشی کے464واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے 2640 صرف مہاراشٹر سے تھے۔ یہ صورتحال برسوں سے برقرار ہے۔ کرناٹک، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور مدھیہ پردیش میں بھی کسانوں کی خودکشی کے واقعات دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ کسانوں اور زرعی مزدوروں کے 80فیصد خودکشی کے واقعات ان ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ قومی کسان کمیشن نے 2006میں ان ریاستوں کے 31اضلاع کی نشاندہی کی تھی جہاں کسان سب سے زیادہ خودکشی کرتے ہیں۔پیاز اور ٹماٹر جیسی فصلوں کی بمپر پیداوار بھی بعض اوقات کسانوں کے لیے ایک مسئلہ بن جاتی ہے، قیمتیں گر جاتی ہیں اور فصلیں پھینکنے تک کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسے وقت میں خودکشی کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ مہاراشٹر حکومت نے2008میں منی لینڈنگ ریگولیشن ایکٹ پاس کیا تھا جس کا مقصد حد سے زیادہ شرح سود اور ساہوکاروں کی جبری وصولی کے طریقوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ کسانوں کو آفات سے بچانے کے لیے مہاراشٹر حکومت کے اقدامات کارگر نہیں رہے۔ اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ ریسرچ کے مطابق مہاراشٹر میں بڑی تعداد میں کسانوں کی خودکشی کی بڑی وجوہات تھیں- کسانوں پر قرض، کم آمدنی، موسم کی مار، خشک سالی وغیرہ کی وجہ سے فصلوں کی بربادی، خاندانی مسائل جیسے بیماری، لڑکیوں کی شادی میں جہیز، تعلیم کی کمی وغیرہ۔شمال مشرقی ریاستوں، اترپردیش اور بہار، ہریانہ، مرکز کے زیرانتظام چنڈی گڑھ، پانڈوچیری اور لکشدیپ میں کسانوں کی خودکشی کے بہت کم واقعات سامنے آتے ہیں۔
زرعی شعبے میں خودکشی کی روک تھام کے لیے جو کوششیں اب تک کی گئی ہیں، وہ آدھی ادھوری ہیں۔ کسانوں کی آمدنی جب تک اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی زندگی صحیح طریقے سے جی سکیں، اس صورت حال میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ انتخابات کے وقت سیاسی جماعتیں کسانوں کے قرض معاف کرنے اور ان کو جو سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہیں، وہ الیکشن کے بعد بھول جاتی ہیں اور اکثر غریب کسان دھوکہ کھا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کی کچھ اسکیموں کا فائدہ کسانوں تک پہنچا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر اسکیموں کا فائدہ بڑے کسانوں کو زیادہ ہوا ہے۔ کسان کریڈٹ کارڈ، فصل بیمہ اسکیم، کھاد، چھوٹی آبپاشی کی اسکیمیں کسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔ گاؤںمیں سڑک، بجلی، پینے کے صاف پانی، بیت الخلاء وغیرہ کی فراہمی بھی کسانوں کا معیار زندگی بلند کرنے میں کارگر ثابت ہوئی ہے، لیکن زراعت اور دیہی ترقی کے لیے جو بجٹ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے مختص کیا جاتا ہے، وہ ان کی ضرورت سے بہت کم ہے۔
کسانوں کے لیے وزیر اعظم کی اعزازی اسکیم اچھی ہے لیکن اس میں دی جانے والی رقم6000روپے سالانہ ہے جسے بڑھایا جانا چاہیے۔ قدرتی آفات اور موسمی حالات کی وجہ سے جب بھی فصلوں کو نقصان ہوتا ہے تو ریاست اور مرکزی حکومتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کسانوں کو فوری طور پر نقصانات کی تلافی کی جائے۔ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہمارے کسان ہی ہیں۔کسانوں کو ان کی پیداوار کی پوری قیمت نہیں ملتی۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں زرعی پیداوار کی قیمت صنعتی پیداوار سے بہت کم ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ غذائی اجناس کی اچھی پیداوار کی وجہ سے ہی حکومت کے لیے80کروڑ لوگوں کو مفت راشن فراہم کرنا ممکن ہوا ہے اور اسے دوسرے ممالک کو بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے حکومت نے جو وعدے کیے ہیں ان پر تیزی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔