دردمند انسان، مجاہد آزادی اور صحافی مولانا امداد صابری : پرویز عادل ماحی

0

پرویز عادل ماحی
تاریخ و ادب کی چند اصطلاح بڑی معنی خیز ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھی اپنے کثیر استعمال کی بنا پر ایسی اصطلاحات کے معنوی خدوخال مدھم پڑ جاتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک لفظ’’عہد ساز شخصیت‘‘ کا ہوتا ہے۔ عہد معنی دور یا زمانہ اور ساز با معنی اثر انداز ہونے والا۔ اسی طرح شخصیت کی مراد اس شخص کی سوانح اور خاکہ نگاری سے ہوتی ہے جو کسی امتیاز کی بنا پر اوروں سے منفرد اپنے انفرادی خدو خال رکھتا ہو۔
پس! دونوں الفاظ سے مل کر بننے والا ’’عہد ساز شخصیت‘‘ کا فقرہ مولانا امداد صابری کی شخصیت پر پوری طرح صادق آتا ہے ۔ بلا شبہ مولانا امداد صابری نے اپنے عہد اور آنے والے زمانے پر ایسے دور رس اثرات چھوڑے ہیںکہ جن کی گونج چار دانگ عالم میں آج بھی مدھم نہیں ہوسکی ۔
مولانا امداد صابری ایک شریف ،علم دوست اور متمول گھرانے کے فرد تھے۔اس خاندان کو رئیسانہ وضع سے زیادہ درویشانہ انداز زندگی سے شغف رہا۔ان کے والد مولوی شرف الحق پر مذہب و تصوف کا گہرا اثر تھا۔یہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا رشید احمد گنگوہی کے خاص مرید، معتقد اور خلفاء میں سے تھے اسی ارادت و عقیدت کا اظہار مولانا امداد صابری کے اصل اور مکمل نام ’’امدا دالرشید صابری ‘‘سے بھی ہوتا ہے ۔ مجاہد نفس اور خدمت خلق اس سلسلے کی کنیت ہے۔ مولانا امداد صابری نے مجاہد نفس کو جہادی زندگی میں بدل دیا اور ابتدائی عمر سے اخیر عمر تک ایک مجاہد کی مانند رہے ۔ انہوں نے اپنے سلسلہ کے بزرگوں کی طرح انگریزی اقتدار کے خلاف تحریک آزادی میں وطن کا ساتھ دیا اور زندگی کا بیشتر حصہ جیل میں گزارا۔ آزادی کے بعد بھی سیاست سے کنارہ کش ہونے کی بجائے حریت فکر اور آزادی رائے کے ساتھ خدمت خلق میں مصروف عمل رہے ۔ڈاکٹر تنویر احمد علوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ مولانا اس قمار عشق میں کہ جسے سیاست کہا جاتا ہے مجنوں کی طرح بازی لے جانے کے لئے نہیں بلکہ کوہ کن کی طرح سر کھونے کے لئے آئے تھے ‘‘
ان کے والدمولانا شرف الحق اولاد نرینہ سے محروم تھے ۔ بڑی دعائوں اور چاہتوں کے بعد امداد صابری 16اکتوبر 1914میں پیدا ہوئے۔ قارئین بخوبی واقف ہیں کہ یہ زمانہ خلافت تحریک کے عروج اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کا دور تھا ۔ مطلب یہ کہ وطنی آزادی کی بازگشت امداد صابری نے شیر خواری میں ہی سن لی تھی ۔ نتیجہ کیا ہوا کہ آپ تمام عمر
ترک مال و ترک جان و ترک سر
در طریق عشق اول منزل است
کا پیکر بنے رہے ۔ابھی امداد صابری محض 17برس کے ہی تھے کہ ایک انگریز سپاہی نے ایک لڑکی کے اوپر ڈنڈا مارنے کی کوشش کی ۔ امداد صابری شمشیر برہنہ بن کر انگریز سپاہی پر ٹوٹ پڑے ۔ سپاہی نے نہتے امداد صابری کے سر پر اس شدت سے ڈنڈا مارا کہ آپ زخمی ہوگئے اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے ۔ دو گھنٹہ کی تلاش بسیار کے بعد آپ کے والد کا پتہ دریافت ہوا اور انہیں گھر پہنچایا گیا۔ یہ عملی زندگی کی طرف ان کا پہلا قدم تھا اور اپنے پہلے ہی قدم پر آپ سرخرو ہوکر اپنے والدین کی خدمت میں پہنچے تھے ۔ مولانا شرف الحق اپنے بیٹے امداد الرشید صابری کو اعلی تعلیم کے لئے جامعہ اظہر مصر بھیجنا چاہتے تھے ۔ پاسپورٹ بنانے کے لئے ضروری دستاویز تیار کئے جارہے تھے کہ 28جنوری1936کو ان کا انتقال ہو گیا ۔ ان کی والدہ انتہائی نیک اور زاہدہ خاتون تھیں ۔ بیٹے کی جوانی کا بیشتر حصہ جیل کی چہار دیواری میں گذرا لیکن یہ ہمیشہ سجدہ شکر ادا کرتی رہیں ۔ حالات بدل گئے اور گھر کی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ امداد صابری کے کاندھوں پر آ پڑا۔ والد کی ناگہانی موت کے بعد امداد صابری کے اوپر آئے ذمہ داریوں کے بوجھ نے امداد صابری کو مضبوط کیا ۔ غو رو خوض کر نے کا موقع ملا ۔ اس درمیان آپ نے قوم کی نا گفتہ بہ حالت پر نگاہ ڈالی اور پھر اپنے ہی گھر دہلی سے اصلاحی و سیاسی تحریکات کا سلسلہ شروع کردیا۔ آپ نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی کی وجہ وہ شریف ٹولیاں اور اڈے ہیں جو مسلمانوں کے اوقاف پر قابض ہیں اور ملت کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ۔
چنانچہ 1936 میں اوقاف کے سرمائے کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کرانے کا عملی بیڑا اٹھایا اور جامع مسجد دہلی کے مکبر سے اصلاحی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ لیکن یہ ایک طویل اور سخت مشن تھا نتیجہ بھی طے شدہ تھا، چنانچہ مولانا امداد صابری کو 17 ستمبر 1938 کو گرفتار کر لیا گیا اور 6ماہ قید و پانچ سو روپئے کا جرمانہ عائد کیا گیا ۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید تین ماہ جیل کی سزا سنائی گئی ۔ اس درمیان امداد صابری کی سماجی خدمات اور سیاسی سرگرمیوں کا شہرہ ہو چکا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو 1937میں دہلی کانگریس کمیٹی کا سکریٹری منتخب کیا گیا ۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا اور معلوم کیونکر ہو جب ہم ہی اپنے اجداد کو یاد کرنے کا سبق بھول گئے ۔ آپ ہی کی سرگرمی اور دور اندیش قیادت کے نتیجہ میں دہلی صوبہ کی توسیع اور اسمبلی کے قیام کی تحریک شروع ہوئی تھی۔اس سلسلہ میں عام ہڑتال کی قیادت کرتے ہوئے 22جولائی1938 کو مولانا امداد صابری اپنے 300ساتھیوں کے ہم راہ گرفتار کرلئے گئے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ مولانا امداد صابری کی ضمانت جو 107کے پہلے مقدمہ میں دی گئی تھی ضبط کر لی گئی ۔
علماء و دانشوروں کا قول ہے کہ سنت یوسفی کے صلہ میں انسان کے بہت سے مخفی جوہر نکھر جاتے ہیں ۔ بالکل یہی مولانا امداد صابری کے ساتھ بھی ہوا۔جتنی مرتبہ جیل سے باہر آتے اتنی ہی شدت سے دوباری تحریکی مہمات میں لگ جاتے ۔ ان کا ایک پائوں جیل کے باہر اور دوسرا جیل کے اندر رہنے لگا لیکن عوامی فلاح و بہبود اور ملک کی آزادی سے کم کسی بھی شرط پر وہ پیچھے ہٹنے کو تیا رنہ تھے ۔ 15 اگست 1939کو پرانی دہلی کے فراشخانہ پر فارورڈ بلاک کا جلسہ منعقد کرنے کے جرم میں آپ کو پھر گرفتار کرلیا گیا اور 6ماہ کی سزا سنائی گئی ۔ جیل سے رہائی کے بعد یہ اپریل 1940کو دہلی میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد کی کوششوں میں لگ گئے۔ جس میں ملک کے ممتاز قوم پرست و انقلابی رہنما کو شامل ہونا تھا ۔
کانفرنس کی کامیابی کے لئے مولانا نے ایک انقلابی پوسٹر ترتیب دیا اور پوری دہلی کو انقلابی رنگ میں ڈھال دیاتھا ۔ اس پوسٹر میں ہندوستان کے تمام محکموں کوانقلاب میں شامل ہونے کے ساتھ انقلابی طریقہ سمجھائے گئے تھے۔مقامی پولیس انتظامیہ نے امداد صابری کو گرفتار کرنے کی ناکام کوشش کی اور یہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کرنے میں کامیاب ہو گئے۔لیکن 15اگست 1942کو فارورڈ بلاکسٹ ہونے کی حیثیت سے گرفتار کرلئے گئے اور ڈیڑھ سال تک جیل کی صعوبتوں کو برداشت کیا ۔ یہاں پر یہ بتلانا ضروری ہے کہ مولانا امداد صابری نیتا جی سبھاش چندر بوس کے انتہائی قریبی اور معتمد خاص تھے اور دہلی میں فارورڈ بلاک کے سر براہ تھے ۔ حالانکہ یہ آزاد ہند فوج کا حصہ نہیں تھے لیکن جنہوں نے آزاد ہند فوج کو ترتیب دیا اس میں مولانا امداد صابری کا شمار صف اول میںہوتا ہے۔ سچ پوچھئے تو نیتا جی سبھاش چندر بوس ہی ان کے ا صل ہیرو تھے۔ اپنے ایک مضمون ’’ غیر ممالک میں اردو کے انقلابی اخبارات اور رسائل ‘‘ میں لکھتے ہیں’’ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آخری جدو جہد نے تو وہ رنگ دکھایا کہ انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور انہی کی بدولت ملک کو آزادی کی دولت نصیب ہوئی ‘‘۔ فروری 1945میں آپ کو علاقہ کی نظر بندی توڑنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور الزام لگایا گیا کہ آپ علاقہ سے پندرہ قدم کے فاصلے پر کھڑے تھے ۔ اسی مقدمہ کے دوران آپ کو شاہی قیدی بنادیا گیا آپ پر الزام تھا کہ آپ نے سبھاش چندر بوس کے جاپانی ساتھیوں کی مدد کی اور ان کو اپنے گھر میں ٹھہرایا اور اسٹیشن تک پہنچانے کا انتظام کیا۔ شاہی قیدی کی حالت میں علاقہ کی پابندی توڑنے کا مقدمہ بھی جاری رہا اور انہی دنوں اے ، ڈی ، ایم نے مقدمہ مذکور میں پوری قوت صرف کرکے تیرہ ماہ کی سزا دی۔ آپ کی یہ نظر بندی 1947تک جاری رہی ۔ بقول خورشید احمد کاظمی مولانا امداد صابری کے ساتھ مجھ کو دہلی، ملتان اور فیروز پور جیل میں رہنے کا موقع ملا اس لئے میں ذاتی تجربے اور مشاہدات کی بناء پر لکھ رہا ہوں ’’ مجھے یاد ہے کہ مولانا امدادصابری کی فیروز پور کیمپ میں رہائی کی اطلاع آئی تھی تو اس وقت مسٹر ڈوگرہ انچارج کیمپ نے خاص طور پر مجھے بتایا کہ آپ کے خاص دوست آج رہا ئی کے لئے جا رہے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ ذرا صاف بتائیے تو انہوں نے کہا کہ’’ ایسا شخص رہا ہو رہا ہے جس کو دہلی حکومت بھی خطرناک سمجھتی ہے اور جیل افسران بھی‘‘
آخر انگریزی ظلم و بربریت کی تاریکی کا سینہ چیر کر آزادی کی صبح نمودار ہوئی ۔ لیکن ایک ملک آزادی سے قبل دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا لیکن ہمارے تقریباسبھی رہنما انگریزی سازش کا شکار ہو گئے نتیجہ کے طور پر مادر ہند اپنے ہی بچوں کے خون میں تر بتر ہوگئی ۔ بڑے بڑے ثابت قدم افراد کے پائوں میں لرزہ آگیا۔ 1947کے خونی دور میں قومی عوام کی حفاظت اور باز آبادکاری بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ہندو مسلم اتحاد انتہائی نازک موڑ پر تھا ۔ ایسے پر آشوب دور میں امداد صابری نے سر بہ کفن ہوکر قومی عوام کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا اور 11 اکتوبر1947 کو انجمن اتحاد ہند کا قیام کیا۔لالہ شنکر صاحب کو اس کا صدر اور مولانا امداد صابری اس انجمن کے سکریٹری منتخب ہوئے ۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر ہوا جس میں کم و بیش 50ہزار لوگوں کا مجمع شریک تھا۔یہ مولانا امداد صابری کی جرأت مندانہ شخصیت ہی تھی کہ آپ نے اس زمانہ کے ظالم و جابر حکام کی مذمت میں ایک پوسٹر جاری کیا اور صرف پوسٹر ہی نہیں نکالا بلکہ جلسوں میں علی الاعلان ان کی تباہ کن حرکتوں کی نقاب کشائی کی۔کسٹوڈین کے مظالم کے آگے بھی آپ سینہ سپر رہے ۔
مولانا امدا د صابری سے متعلق اپنے ایک مضمون میںڈاکٹر تنویر احمد علوی تحریر کرتے ہیں کہ ’’شاعری میں ایک صنعت ذو معنیں ہوتی ہے ۔مولانا کی شخصیت کے بھی دو نمایا ںپہلو تھے ۔ وہ سیاسی جدجہد کے ساتھ ایک انتھک سپاہی تھے اور عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے ساتھ وہ علم دوست بھی تھے ۔ رئیس الاحرار مولانا حسرت موہانی کی طرح انہوں نے چکی کی مشقت کے ساتھ مشق سخن کو بھی جاری رکھا ‘‘ سیاسی طبقہ مولانا امداد صابری کی ادبی خدمات سے ناواقف ہے انہوں نے جس عنوان پر قلم اٹھایا اس پرحقیقت و راز داری کے سبھی در کوواضح کردیا ۔ تاریخ صحافت اردو ایسا ہی زندہ و جاوید کارنامہ ہے ۔ اختر الدولہ کی کتاب ’’ اختر شہنشاہی ‘‘ اردو والوں کی طرف سے اردو اخبارات اور اردو پریس کی تاریخ میں مرتب کرنے کی پہلی باقاعدہ کوشش ہے ۔اختر شہنشاہی کے بعد مولانا امداد صابری کی کتاب ’’تاریخ صحافت اردو‘‘ اس سلسلہ میں حیات جاوید کا درجہ رکھتی ہے یہ چھ جلدوں پر مشتمل ہے تاریخ صحافت اردو کی تحریر کے بعد ہی دانشور حضرات کو صحافت و صحافی کی اس اہمیت کا احساس ہوا کہ جس کو وہ فراموش کر بیٹھے تھے ۔
صحف ابراہیم وموسی
مولانا امداد صابری فرماتے ہیں کہ ’’تاریخ صحافت اردو ‘‘ کو ترتیب دینے کی تحریک مولانا ابوالکلام آزاد سے ملی حالانکہ مولانا امداد صابری اور مولانا ابوالکلام آزاد کے سیاسی تعلقات میں کافی اختلاف تھا، لیکن مولانا امداد صابری اپنی تحریری کاوش کی پہلی جلدہمیشہ مولانا آزاد کی خدمت میں پیش کرتے تھے ۔ بقول مولانا امداد صابری ’’ مولانا آزاد مجھ سے ہمیشہ علمی گفتگو کرتے تھے ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی کتاب ’’ فرنگیوں کا جال ‘ پیش کرنے کے لئے مولانا آزاد کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کتاب کی تعریف کے بعد انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ میں تم کو ایک عنوان دیتا ہوں ، اس پر کام کرو اور اگر تم نے اس پر کام کیا تو کافی عمر پائو گے ، انہوں نے تاریخ صحافت اردو کا عنوان دیا اور تاریخ صحافت اردو کے تعلق سے کچھ تحریری اشارے جو مولانا آزاد نے ترتیب دے رکھے تھے ، مجھ کودئے ۔
تاریخ صحافت اردو کی پہلی جلد 1953میں شائع ہوئی ۔1953میں ہی انہوں نے اور ان کے کچھ دوستوں نے اردو کے پرانے اخبارات کی نمائش کا اہتمام کیا تھا جس کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے کیا تھا۔ جب اہل علم اور محققوں نے پرانے فائل دیکھے اور اس زمانے کے اہل علم حضرات کی دانائی کو سامنے رکھا تو ششدر رہ گئے ۔
نتیجہ سامنے ہے کہ آج کم و بیش تمام ہی جامعات ہند میں اردو صحافت پر ڈپلومہ اور ڈگریاں تفویض کی جا رہی ہیں ۔
داستان شرف ، دہلی صدیقی برادری کی شخصیتیں ، جنوبی افریقہ کے اردو شاعر، فرنگیوں کا جال ، سبھاش بابو کی تقریریں ،رسول خدا کا دشمنوں سے سلوک ،تاریخ جرم و سزا، روح صحافت ،تذکرہ شعراء حجاز وغیرہ ان کی مشہور کتابیں ہیں ۔
انسان کا سفر تمام ہونا ہی ہے اور با لآخر مولانا امداد صابری کا سفر بھی حضرت ازرائیل کی سرگوشی کے ساتھ تمام ہوگیا اور آپ 3 اکتوبر 1988کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS