شاہنوازاحمد صدیقی
براعظم افریقہ کے ملک سوڈان جو کہ گزشتہ 60سال میں کئی مرتبہ اپنے جغرافیائی حدود بدل چکا ہے۔ ایک بار پھر خانہ جنگی کے اس گہرے کنوئیںمیں دھنستا جارہا ہے۔ اس مرتبہ بھی جہاں سے نکلنا آسان نہیں لگ رہا ہے۔ گزشتہ 14ماہ سے سوڈان کے دو بڑے مسلح گروپوں میں ایسی خانہ جنگی چل رہی ہے جس کا خاتمہ فی الحال نظر نہیں آرہا ہے۔ سرکاری فوج اور دوسرے نیم مسلح گروپ ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان وہ معرکہ ہے ایک ایک دن میں 100-100عام شہری قتل کردیے جاتے ہیں اور کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی۔ چند روز قبل وسطی سوڈان میں ریپڈ سپورٹ فورس پر الزام لگا کہ اس نے ایسے 100لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جو ایک طویل عرصہ سے ملک میں جمہوریت کے قیام کے لیے پر امن تحریک چلا رہے تھے۔ یہ اموات سوڈان کی بدترین اور خونریز تاریخ کا وہ حصہ ہے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 2022کے اواخر اور اپریل 2023سے آج تک سوڈان میں انتہائی جدید ہتھیاروں سے مسلح دو خونخوار’’ جنگی گروپ‘‘ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ عالمی سطح پر کئی بڑی طاقتوں نے سوڈان میں جنگ بندی کے لیے کوششیں کرچکی ہیں مگر کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ ایک کو منائو تو دوسرا روٹھے جاتا ہے۔ عالم اسلام — عظیم طاقتوں نے ملک میں اس قتل عام کو روکنے کے لیے براہ راست اور بالواستہ طور پر کئی کوششیں کرلی ہیں مگر کوئی بھی فریق ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ قارئین کو یادہوگا کہ سوڈان کی سرکاری فوج کے سربراہ عبدالفتح البرہان اور ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے سربراہ حمیدتی کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں یہ خانہ جنگی بھڑک اٹھی تھی۔ یہ دونوں گروپ کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض صدر البشیر کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے ملک میں ایک مستقل نظام قائم کرنے کے لیے متحد ہوئے تھے مگر بعد ازاں عبدالفتح البرہان نے اپنے آپ کو ملک کا حکمراں بناکر پیش کرنے کی کوشش کی اور دنیا کے مختلف فورمو ں میں ملک کی نمائندگی کرنی شروع کردی۔ جبکہ یہ دونوں مسلح گروپوں ملک میں جمہوریت کے قیام اور ایک نئے آئین کی تشکیل کے لیے متحد ہوئے تھے اور ان دونوں گروپوں نے مل کر سوڈان میں جمہوری نظام قائم کرنے کے لیے مہم چلا رہے عوامی لیڈروں، ٹریڈ یونینیوں کے سربراہوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے اور تمام متحارب اور متصادم گروپ اور جمہوریت نواز قیام امن اور آئین سازی کے لیے ایک ٹائم ٹیبل پر راضی ہوگئے تھے۔ مگر ان دونوں مسلح گروپوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے یہ عظیم ملک جو کہ وادی نیل کا ایک اہم اور مردم خیز علاقہ ہے ، خانہ جنگی کے دلدل میں پھنس گیا ہے۔ صدر البشیر کو معزول کرنے کے بعد جنرل برہان اپنی فوج کو ملک کا واحد نمائندہ فوج قرار دے رہے تھے جبکہ دوسرے مسلح گروپ ریپڈ سپورٹس فورس کو یہ لگا کہ ان کے اہلکار سربراہان اس سمجھوتے کے کسی پوزیشن میں نہیں آرہے ہیں۔ اس احساس نے رپیڈ سپورٹ فورس نے بے چینی پیدا کردی۔ ریپڈ فورس کا شکوہ تھا کہ اس نے ملک میں قیام امن ، خارجی جارحیت ، خانہ جنگی کے خاتمے اور ملک میں جمہوری نظام کے سلسلے میں جو کوششیں کی تھیں اس کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ جنرل حمیدیتی کو اس بات کا بھی ملال تھا کہ ان حالات میں جنرل برہان اپنے آپ کو سوڈان کا ایک نمائندہ لیڈر اور حکمراں ثابت کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی جذبات اور احساسات فساد کی جڑ بنے ہیں۔ حمیدیتی کو اس کا شکوہ تھا کہ اگر مستقبل میں ملک میں کوئی جمہوری نظام معرض وجود میں آجاتا ہے تو ان کی فوج آر ایس ایف کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ اس احساس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حمیدیتی کی سربراہی والی فوج پر بین الاقوامی اداروں میں بڑے منفی تاثرات ہیں۔ اس مسلح گروپ پر دار فر میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام تھا ۔ یہی نہیں کئی حلقوں میں یہ بھی کہا گیا کہ سوڈان کے اس جنگ زدہ ملک میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں بھی اسی آر ایس ایف کا ہاتھ ہے۔ خیال رہے کہ دار فر میں خانہ جنگی ایک طویل عرصے سے عالمی برادری کے لیے فکر کا باعث رہی ہے۔ سوڈان کے سابق حکمراں جنرل البشیر پر یہ الزام ہے کہ انہوںنے دار فر میں اپنے مخالفوں کو ٹھکانے کے لیے سرکاری فوج اور آر ایس ایف جیسے دیگر غیر منظور شدہ اور غیر قانونی مسلح گروپوں کو شہہ دی ہے۔ یہ ٹکرائو محض سیاسی نہیں بلکہ نسلی اور نظریاتی بھی ہے۔ سوڈان کا قبائلی ، لسانی نظام اس کو مزید پیچیدہ بتاتا ہے بین الاقوامی کا اداروں کا یہ الزام ہے کہ سوڈان میں مذہبی انتہائی پسندوں کو دوام مل رہاہے۔ مغربی دنیا افریقہ کے ساحل علاقے اور ہارن آف افریقہ (قرن افریقہ) میں آنے والے ملکوں میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کررکھا ہے اور یہاں سرگرم مسلح گروہ نظریاتی بنیادوں پر قتل عام مچا رہے ہیں۔ اس سے پورے خطے میںعدم تحفظ کا اور عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے۔ سوڈان کے آس پاس جنتے بھی ملک ہیں ان ملکوں میں فوجی ڈکٹیٹر اپنی منمانیاں کررہے ہیں اور ایک ملک کے مسلح فوجی گروہ دوسرے ملک کے اندرونی اور خارجی امور میں مداخلت کرکے ایک غیر معمولی صورت حال پیدا کیے ہوئے ہیں۔ امریکہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ اس خطے میں امن قائم ہوجائیں، دونوں گروپ جنگی بندی آمادہ ہوجائے اور جمہوریت پسند وں کو اقتدار منتقل ہوجائے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوڈان میں خواتین یہاں کے جمہوری نظام کو قائم کرنے کے لیے ایک غیر معمولی رول ادا کرہی ہیں اور ایک ایسے آئین پر اتفاق رائے بنانے کی کوشش ہورہی ہے جو خواتین کو اقتدار میں شراکت داری بڑھانے میں معاون ہو۔ مگر ان تمام کوششوں پر اس وقت پانی پھیر دیا جب فوج کے سربراہ عبدالفتح البرہان نے آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان حمیدیتی کو مستقبل کے دفاعی اور فوجی ڈھانچے میں کوئی خاص اہمیت یا مقام دینے میں توجہ نہیں تھی اور ایک عبوری نمائندہ کمیٹی کو اقتدار کی منتقلی سے قبل ہی صورت حال کشیدہ ہوگئی اور جنگ چھڑ گئی۔
اپریل2023سے شروع ہونے والے اس بحران اور خانہ جنگی کا مرکز راجدھانی خرطوم رہا ہے۔ سوڈانی فوج کے پاس یہ سہولت ہے کہ وہ ہوائی فوج کا استعمال کرکے دشمن کے خلاف بڑی کارروائی کرسکتی ہے۔ آر ایس ایف جو کہ چھاپہ مار جنگ میں کافی مہارت رکھتا ہے اور یہاں کے نسلی کھینچ تان میں بھی شامل ہے۔ آر ایس ایف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے اکثر جنگجو غیر عرب اور مقامی قبائیلی ہیں۔ 2020میں عالمی مصالحت کاری اور عرب ومسلم ملکوں کی مداخلت کے بعد سوڈان میں فوج او ر آر ایس ایف میں سمجھوتہ ہوگیا تھا۔ مگر اس بحران نے ملک کو ایک بار پھر خانہ جنگی میں دھکیل دیا ہے۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کا اثر افریقہ کے قرب وجوار کے ممالک پر پڑ رہا ہے۔ سوڈان کے لوگ جان بچا کر قرب وجوار کے ممالک مثلاً چاڈ اور جنوبی سوڈان میں پناہ لے رہے ہیں۔ غیر متوقع اور بڑے پیمانے پر ہجرت کی وجہ سے عالمی تنظیموں اور اداروں کو فلاحی اقدام کرنے میںدشواری ہورہی ہے۔ جنگ اور فاقہ کشی کے شکار اس ملک کے بدقسمت عوام کو اقوام متحدہ کی طرف سے ملنے والی امداد بھی نہیں پہنچ پار ہی ہے اور دیگر ذیلی کھلاڑی چھوٹے چھوٹے مسلح گروپ بھی غذائی امداد ، رسد اور پانی پر قبضہ کرلیتے ہیں اور حریف گروپ تک یا حریف کے کنٹرول والے علاقے تک پہنچنے نہیں دیتے۔ n