سوڈان گہری مغربی سازش کا شکار

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

کسی بھی جنگ میں انسانی زندگیوں کو جو ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں وہ سب سے سنگین پہلو قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہ جنگیں صرف بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں اور مہلک ہتھیار بنانے والے کارخانوں کے مالکان کے لیے ہی نفع بخش اور مفید ہوتی ہیں۔ یہ استعماریت کا نیا فارمولہ ہے جس کے تحت ماضی کی استعماری قوتیں پہلے انارکی کا ماحول پیدا کرواتی ہیں اور پھر جنگ کی صورتحال تیار کر کے آپس میں بر سر پیکار جماعتوں کو ہتھیار بیچ کر بھاری منافع کماتی ہیں۔ ان کمپنیوں اور کارخانوں کے مالکان کی پشت پر اسٹیٹ کی طاقت ہوتی ہے۔ جب کوئی ملک پوری طرح تباہ ہو جاتا ہے تب پھر یہی نئی استعماری قوتیں مصالحت کار کا کردار بھی ادا کرتی ہیں اور جنگ کی مار سے تباہ شدہ سر زمینوں کی تعمیر نو کے لیے اپنا ’’تعاون‘‘ پیش کرتی ہیں۔ اس ’’تعاون‘‘کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ استعمار نو کے ایجنڈہ کو نافذ کرنے والے ملکوں کی بڑی بڑی کمپنیوں کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ تعمیر نو کا کام کریں اور اس طرح جنگ سے متاثر ملک کو طویل مدتی قرضوں کے دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ جمایا جاتا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے نئی استعماری قوتیں اپنا تسلط پورے طور پر جما لیتی ہیں اور اس ملک کے عوام کے سامنے اقتصادی ترقی اور سیاسی آزادی کے تمام راستے مسدود کر دیے جاتے ہیں۔ سوڈان بھی ان بدقسمت مسلم عرب ممالک میں سے ایک ہے جس کے ساتھ نئے استعمار کا کھیل طویل عرصہ سے جاری ہے۔ آج جو کچھ سوڈان میں ہو رہا ہے اس کو بہت سادہ ڈھنگ سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے بہت سے محرکات ہیں اور اس کے پیچھے ایک بڑی سازش کارفرما ہے جس کا مقصد سوڈان کو کئی حصوں میں توڑ ڈالنا ہے۔ میڈیا میں جو خبریں آتی ہیں وہ محض حالات و واقعات کو بیان کرنے پر اکتفا کرتی ہیں۔ ان گہری سازشوں کے جال کو صاف کرکے حقیقی لیکن بھیانک تصویر پیش نہیں کی جاتی ہے جن کے پیچھے یہ سارا کھیل چل رہا ہے۔ ماضی میں بھی سوڈان کو توڑا جا چکا ہے اور جنوبی سوڈان کے نام سے ایک ملک بنایا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو اپنی ذمہ داری زیادہ ایمانداری کے ساتھ نبھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس بین الاقوامی سازش سے پردہ اٹھایا جا سکے جس کا مقصد یہ ہے کہ سوڈان کو ایک طویل خانہ جنگی کے غار میں دھکیل دیا جائے تاکہ وہ اس قدر کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے کہ اس کو کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹنا آسان ہو جائے۔
امریکہ تو کئی برسوں سے سوڈان کے تئیں یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ یہ ملک بہت بڑا ہے اور اس کو تقسیم کر دینا چاہیے۔ سوڈان کے جنوب میں یہی کھیل رچا گیا تھا اور اس کو الگ کرنے کے مقصد سے کئی مغربی ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں نے دن رات کام کیا تھا اور بالآخر جنوبی سوڈان بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہی وہ کامیابی تھی جس سے شہ پاکر ان ممالک کے انٹیلی جنس نے مزید قوت کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ اپنے ارادہ میں دوبارہ کامیاب ہو سکیں۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سوڈان اور عرب ملکوں نے اس سازش کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور ایک بار پھر اس کا شکار ہوگئے۔ شاید ان میں اس شعور کا فقدان ہے جس کے تحت کوئی قوم اپنے مشترک مفاد کے دفاع کے لیے کام کرتی نظر آتی ہے۔ اس محاذ پر عرب مسلم ملکوں کی سب سے بڑی ناکامی یہ رہی ہے کہ انہوں نے اسی دشمن ملک کے ساتھ تعلقات کی استواری کا سلسلہ شروع کر دیا جس کا کردار اس پورے خطہ کو غیر مستحکم بنانے میں سب سے زیادہ رہا ہے۔ یہ ملک دوسرا کوئی نہیں اسرائیل ہے جس کی انٹیلی جنس نے سوڈان کو اندر سے کمزور کرنے میں پوری قوت صرف کی ہے۔ جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی کی تاریخ اور وہاں کے علیحدگی پسند لیڈران کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پر جو مبصرین گہری نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل نے علیحدگی پسند لیڈران کے ساتھ اپنے روابط بیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی میں ہی کافی مضبوط کر لیے تھے اور سوڈان سے اس کو الگ کروانے میں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی تھی۔ جنوبی سوڈان نے اسرائیل کے اس احسان کا بدلہ اس طرح چکایا کہ اس کا سب سے بڑا حلیف بن گیا اور اسرائیل کو بڑی آسانی سے وادی نیل کے جنوب میں واقع پانی کے چشموں اور بجلی کے ذرائع پر قبضہ مل گیا۔ لیکن سوڈان کو اس کی بڑی قیمت یہ چکانی پڑی کہ وہاں مختلف قسم کے سیاسی اور اقتصادی مشکلات پیدا ہوتے چلے گئے اور دارفور میں بغاوت کی آگ بھڑکائی گئی۔ دارفور کو ہی بہانہ بناکر مغربی ممالک نے سوڈان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دیں۔ سوڈان نے جب جنجوید ملیشیا کو قابو کرنے کے لیے اقدامات کیے تو بری طرح ناکام ہوا کیونکہ جنجوید ملیشیا کو جو مغربی ممالک سے ہتھیار اور دیگر تعاون حاصل ہو رہے تھے ان کی بدولت وہ سوڈانی فوج کے بالکل متوازی ایک قوت کے طور پر ابھری اور آج بھی پورے ملک کو خانہ جنگی کی نئی کشمکش میں جھونک رہی ہے۔ اسی لیے یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ سوڈان میں جاری مسائل کو اس وقت تک درست طریقہ سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے جب تک اسرائیل کے کردار کو اس خطہ میں نہ سمجھا جائے۔ اب چونکہ اسرائیل کا اثر و رسوخ کافی گہرا ہو چکا ہے اور اس نے سوڈان کے لیے کافی مسائل پیدا کر دیے ہیں تو ان سے نکلنے کے لیے سوڈان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو خوش کر لیا جائے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بحال کیا جائے تاکہ اقتصادی بحران سمیت دیگر تمام بحرانوں سے سوڈان کو نجات مل سکے۔ ایسا اس لیے ضروری سمجھا رہا ہے تاکہ امریکہ کی رضامندی کا راستہ صاف ہو جائے۔ لیکن اسرائیل صرف اتنی سی مراعات پر خوش نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس خطہ میں اپنے طویل مدتی مقاصد کو حاصل کرے جو تبھی ممکن ہوپائے گا جب سوڈان کمزور ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل آخر سوڈان کو کیوں کمزور کرنا چاہتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سوڈان ایک نہایت زرخیز ملک ہے جس کے پاس اس کی استطاعت موجود ہے کہ وہ پورے عالم عربی کو غذا مہیا کرا سکے۔ غذائی بحران کا جو خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اور روس-یوکرین جنگ نے جس کو مزید سنگین بنا دیا ہے اس سے نکلنے کا سب سے مؤثر ذریعہ سوڈان ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل جانتا ہے کہ مصر کے تعلقات سوڈان سے بہتر رہے ہیں۔ اگر مصر کو سوڈان سے دور کر دیا جاتا ہے تو مصر کے بھی اقتصادی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا اور اس طرح سے کمزور مصر اس کی سیکورٹی کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ اس خطرہ سے مصر و سوڈان کے بے شمار دانشوران واقف ہیں لیکن یا تو ان میں جرأتمندی کی کمی ہے یا پھر ذرائع ابلاغ تک ان کو رسائی نہیں دی جاتی ہے تاکہ عوام کو ان مسائل سے باخبر کیا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قوت کے تمام سرچشموں پر مغرب کے تابع داروں کا قبضہ ہے جو آزادی کے ساتھ سوچنے اور اپنے ملک و عوام کو ترقی کی بلندی تک لے جانے کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 15 اپریل سے جاری سوڈان کی اس خانہ جنگی میں اب تک پانچ سو سے زائد شہری جاں بحق ہوچکے ہیں اور دو ہزار سے زائد لوگ شدید زخمی ہیں جن کو دوا علاج تک میسر نہیں ہے کیونکہ 70 فیصد اسپتالوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ جن علاقوں میں تشدد جاری ہے وہاں سے پچاس ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں اور آئندہ پناہ گزینوں کا مسئلہ مزید بڑھے گا۔ اگر ایسا ہوا تو زیادہ تر لوگ مصر کا رخ کریں گے جس کی اقتصادی حالت پہلے ہی سے ابتر ہے۔ وہاں کے بعد یوروپی ممالک بھی پناہ گزینی کے مسائل جھیلیں گے۔ لیکن خصوصی طور سے سوڈان کے پڑوسی ممالک مصر، جنوبی سوڈان، لیبیا، چاڈ، سنٹرل افریقی ریپبلک، ارٹریا اور ایتھوپیا متاثر ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ سوڈان کی بری سرحدیں لگتی ہیں۔ گویا یہ مسئلہ عالمی مسئلہ ہے لیکن اب تک عالمی برادری نے اس پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ چین کو سوڈان میں اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کی فکر ہے کیونکہ وہ سوڈان کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے۔ روس کی نظر بحر احمر کے قریب واقع ملٹری بندرگاہ پر ہے جس کو وہ ہر حال میں حاصل کرنا چاہے گا۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ اپنا کوئی بھی موقف اسرائیل کے مفاد کو نظر انداز کرکے اختیار نہیں کرے گا۔ سوڈان کے مسئلہ کا سب سے بہتر حل یہی ہوگا کہ سوڈانی فوج کے سربراہ عبدالفتاح برہان اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے سرخیل محمد حمدان دقلو عقل کے ناخن لیں اور جنگ کو فوراً بند کریں اور بات چیت کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کریں تاکہ اپنے ملک اور عوام کے خلاف کی جا رہی مغربی سازش کے گہرے غار سے نکلنے میں کامیابی حاصل کر سکیں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS