سوڈان: فوج میں خلفشار اور جمہوری نظام کا قیام

0

سوڈان میں جمہوریت کے قیام کامعاملہ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ سوڈان کی فوج اور جمہوری نظام کے لئے تحریک چلارہی فورسیز آف فریڈم اینڈ چینج (ایف ایف سی)کے درمیان کئی مرتبہ سمجھوتہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ عین وقت پر یکم اپریل اور 6اپریل کو دونوں فریقوںکے درمیان سمجھوتوں کے لئے تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا مگرعین موقع پر فوج کی اندرونی خلفشار نے اس صورت حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس وقت سوڈان کی فوج دومختلف اکائیوں میں تقسیم ہے۔ ایک ریگولر فوج ہے اور دوسرا دھڑا ریپڈ سپورٹ فورس (Rapid Support Force)ہے جو انتہائی موثر اور پیشہ ورانہ طورپر مضبوط فوجیوںکا ٹولہ ہے۔ سوڈان میں سیاسی طورپر جو گروہ سرگرم ہے ان میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو شدت پسند نظریات کا حامل ہے اور یہ لوگ اسلام پسند ہیں اور اقتدار پر کنٹرول چاہتے ہیں۔ اس گروپ نے فوج کے ایک بڑے حصے کو اپنے ساتھ ملارکھا ہے اور درپردہ رہ کر یہ طبقہ جمہوری نظام کو قائم کرنے کے لئے تحریک چلانے والی ایف ایف سی کی کوششوںکو کمزورکر رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل ابوالفتح البرہان اگرچہ بار بار جمہوری نظام کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں مگر عملی طورپر ان کا رویہ ان کے قول سے بالکل برعکس ہے۔ ان کی پالیسی ایف ایف سی کے مختلف لیڈروں اورجماعتوںکے درمیان نفاق ڈالنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی رہی ہے۔ ایف ایف سی میں اختلافات پیدا کرکے وہ افہام وتفہیم کے بہانے ایک ٹرانزشنل حکومت کے قیام کو موخرکر رہے ہیں۔ دوسری جانب وہ سیاسی اور اقتصادی اوریہاں تک کہ عدالتی نظام پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ عبدالفتح البرہان کے قطعاً خلاف ہے اور وہ چاہتا ہے کہ گھڑی کی چوتھائی میں نظام بدل جائے۔ مگر برہان بڑے شاطرمزاج ہیں پوری دنیا میں وہ سوڈان کے قائد کے طورپر دورے کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کی عالمی سیاست میں عمل دخل بڑھانے کی کوشش ہے۔ امریکہ اسرائیل کو آگاہ کرچکا ہے وہ سوڈان کے فوجی حکمراں عبدالفتح برہان کے ساتھ زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ نہ کرے مگر اسرائیل کو اس کی کیا پرواہ کہ امریکہ کیا کہتا ہے۔ اسی طرح افریقہ کے ایک اور ملک چاڈ کے فوجی حکمرانوں نے اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے اسرائیل سے سمجھوتہ کرکے بہ ظاہر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوڈان کے حکمراں جنرل الفتح البرہان کو سوڈان کے اسلام پسند اوربنیادپسند عناصر کی حمایت مل رہی ہے۔ سوڈان کی سیاست کے یہ تضادات باہر سے تماشہ دیکھنے والوںکے لئے کافی دلچسپ ہیں۔ سوڈان کے داخلی امور اور روزمرہ کی سیاست میں اسلام پسندوں کے بڑھتے عمل دخل کو لے کر فورسیز فار فریڈم اینڈ چینج میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ سوڈان کا جمہوری تحریک چلانے والا طبقہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ۔ان جمہوریت پسندوں میں بڑی تعداد میں خواتین ہیں یہ خواتین سوڈان کی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان خواتین میں پیشہ ورانہ مہارت، فیشن کی دنیا، تعلیمی اداروںمیں اہم تدریسی اور انتظامی عہدوںپر فائز خواتین بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان خواتین کی کئی لیڈروں کو بلاکر اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔ سوڈان کے اسلام پسندوںکو یہ سب باتیں بالکل پسند نہیں ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ سوڈان میں امریکہ اوراس کے مغربی حواریوں کا عمل دخل یا اثرورسوخ بڑھے۔ اقوام متحدہ میں خواتین کا اظہارخیال کرنا اسلام پسندوںکوناگوار گزرا۔ جنرل برہان اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ فوج کا دوسرا حصہ یعنی آر ایس ایف وہ فوج کے اور اسلام پسندوںکے میل جول اور تال میل کوناپسند کرتا ہے۔ فوج میں اسلام پسندوںکا عمل دخل بڑھ رہا ہے اوریہی عمل دخل جمہوری نظام کے قیام میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اسلام پسندوں کے بڑھتے عمل دخل کو کم کرنے کی کوشش جنرل برہان نہیں کر رہے ہیں بلکہ جمہوری لیڈروں کے خلاف ان کی کارروائی جابرانہ ہے۔ آر ایس ایف اور فوج کے درمیان اس بات پر سنگین اختلافات ہیں کہ یہ دونوں دھڑے کس طریقے سے ایک متحد یونٹ میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی گروپوںاور فوج میں کئی مقامات پر رکاوٹیں پیدا ہوئیں مگرجنرل برہان نے کبھی بھی مداخلت کرکے تصفیہ کرانے کی کوشش نہیں کی۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس کی ایک ٹائم لائن طے ہونی چاہئے اور دوسال کے اندراندر یہ دھڑا فوج کی مجموعی یونٹ میں شامل ہوجانا چاہئے۔جبکہ آر ایس ایف چاہتی ہے کہ اس عمل میں کم از کم دس سال کی مدت درکار ہے۔ چونکہ فوج میں مکمل طورپر انضمام کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ بات طے ہوجائے کہ فوج کی اندرونی اصلاحات کس سطح پر ہوں، کس نوعیت کی ہوں اور کس رفتار سے ہوں۔
فورسیز آف فریڈم اینڈ چینج کو ایک اور سیاسی دھڑے نیشنل کانگریس پارٹی کے لیڈر بشیر کی نیت پر بھی شک ہے جن کی تنظیم غیرقانونی قرار دے دی گئی ہے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ وہ سیاسی گروپوں اور فوج کے مختلف گروپوںکے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں اوراسی وجہ سے سوڈان میں سیاسی افہام وتفہیم کا عمل ذرا بھٹک گیا ہے۔ شاید اسی صورت حال کا فائدہ فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان اٹھا رہے ہیں مگر ایف ایف سی کے لیڈر خالد عمر کا کہنا ہے کہ ہم مذاکرات جاری رکھیںگے اورہمارا مقصد سوڈان میں جلد از جلد ایک تصفیہ تک پہنچنا ہے۔ دونوں طبقات میں یہی اختلاف یکم اپریل اور 6اپریل کے سمجھوتے کی تقریب میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جب تک فوج کے یہ اندرونی اختلافات ختم نہیں ہوجاتے شاید سوڈان میں جمہوری نظام کے قیام کے لئے بنائی جانے والی عبوری حکومت یا انتظامیہ کا قیام مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
سوڈان ایک عرب ملک ہے اور انتہائی زرخیز ملک ہے۔ کئی ملکوںکی نظریں سوڈان کی معدنی دولت پر لگی ہوئی ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ وہاں پر جمہوری نظام قائم ہوجائے مگر پریشر گروپوںمیں آپسی کھینچ تان بہت زیادہ ہے۔ سعودی عرب اقوام متحدہ اورافریقی یونین اس جستجو میں ہیں کہ یہ صورت حال ختم ہو اور معدنی اور تیل کی دولت سے مالامال اس ملک کے وسائل کسی ایسے نظام کے ہاتھ میں آجائے جو کہ ملک کی ایک نمائندہ طاقت ہو۔ ظاہر ہے کہ اتنے پیچیدہ حالات میں ایک مستحکم اور مکمل اتفاق رائے والی سرکار کا قیام ٹیڑھی کھیر ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS