ایسی تحریک کا یہی حشر ہونا ہے

0

اودھیش کمار

دہلی میں2020-21 میں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے نام پر دیے جانے والے دھرنے اور تحریک کے دوران حاصل سیاسی حمایت کو دیکھتے ہوئے کسان لیڈروں کو شاید ہی امید رہی ہوگی کہ عام آدمی پارٹی کی پنجاب حکومت سرحد سے ان کے خیمے وغیرہ اکھاڑ کر بھاگنے پر مجبور کردے گی۔ پنجاب کے شمبھو بارڈر و کھنوری بارڈر پر 13فروری، 2024یعنی کل 13ماہ سے دھرنے پر بیٹھے کسان لیڈروں کا سارا لاؤلشکر بھگونت مان حکومت نے ختم کردیا۔ بلڈوزر اور جے سی بی ایکشن کی لائیوتصاویر پورا ملک دیکھ رہا تھا، جن میں اسٹیج گرائے جارہے تھے، ٹیوب لائٹس، پنکھے، ٹین کی چادریں اُکھاڑی جارہی تھیں۔۔۔۔ انتظامیہ کی پوری کارروائی منصوبہ بند تھی۔ شمبھو اور کھنوری بارڈر پر شمبھو امبالا اور سنگرور جند سڑکوں سے کنکریٹ کی رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے جے سی بی اور دیگر مشینوں کی مدد لی گئی۔ ہریانہ کی انتظامی مشینری نے بھی پنجاب سے متصل ریاست کی سرحد پر سیمنٹ کے بلاکس، لوہے کی کیلوں اور خاردار تاروں کا استعمال کرتے ہوئے رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں تاکہ ’دلی چلو‘ پروگرام کے تحت پنجاب سے کسان تنظیموں کو دارالحکومت کی طرف آنے سے روکا جاسکے۔ پنجاب میں تقریباً1000سے زائد مظاہرین حراست میں ہیں اور100سے زائد مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کرنے کے بعد انہیں پٹیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے۔ کسانوں کے نام پر ابھرنے والے لیڈروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اسے نہ صرف حکومت اور انتظامیہ کی بلکہ عوام کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو ان کی حمایت میں کوئی بڑا مظاہرہ کم از کم پنجاب اور ہریانہ میں ضرور نظر آتا۔گزشتہ کئی دنوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ وزیراعلیٰ بھگونت مان ان سے ناخوش ہیں اور انہیں پریشانی سمجھ کر ٹالنا چاہتے ہیں۔ یعنی کارروائی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ کسان تنظیموں کے لیڈروں نے یقینا حکومت کی مخالفت کی کوشش کی ہوگی۔ کارروائی کے باوجود کانگریس اور اکالی دل جیسی پارٹیوں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں کو چھوڑئیے پنجاب ہریانہ میں ہی کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ جگجیت سنگھ دلیوال اور سرون سنگھ پنڈھیر کو بھی پنجاب پولیس نے حراست میں لے لیا۔ اس کے باوجود ان کی حمایت میں کوئی مضبوط آواز نہیں آئی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کسانوں کے نام پر لیڈر بن کران کے حقوق کی بات کرنے والوں کا کسانوں سے کتنا رابطہ اور مکالمہ ہے۔

جن لوگوں نے2020 کے آخر سے زرعی قانون کے خلاف تحریک پر نظر رکھی، وہ جانتے تھے کہ اس کے پیچھے کچھ کسان تنظیموں کے ساتھ وہ تمام گروہ، طاقتیں، این جی اوز، تھنک ٹینکس، ایکٹیوسٹ، دانشور، صحافی، لیڈر سب ہیں جو وزیراعظم نریندر مودی حکومت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ زرعی قانون مخالف تحریک کے تحت26جنوری 2021 کو لال قلعہ پر چڑھ کرہنگامہ کرنے اور بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو دھکے دے کر زخمی کرنے کا واقعہ شامل تھا، ان سب کے باوجود کسی کو کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور بالآخر نریندر مودی حکومت نے قانون واپس لے لیا۔ اس کی وجہ سے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کے تناظر میں انہیں غلط فہمی ہوئی اور ان کی ہمت بڑھ گئی۔ دہلی اور شاہین باغ کی طرح ہی یہاں بھی تقریباً400دنوں تک سرحد پر مظاہرین نے ایک بستی ہی قائم کرلی تھی۔ روزمرہ کی ضروریات کے لیے تقریباً ڈھائی کلومیٹر کا عارضی انتظام تھا جس میں رہائش سے لے کر دفتر، بیت الخلاء، اسٹور، کچن اور لنگر تک سب کچھ شامل تھا۔ ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ مظاہرہ یا کوئی تحریک ہے۔ تاہم، اسے کسان تنظیموں کی ہی پہلے کی طرح حمایت نہیں ملی کیوں کہ یہ صرف پنجاب اور ہریانہ کی کچھ تنظیموں تک محدود تھی۔ یہ نہ سمجھ کر ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اختیار کی اور مرکزی حکومت کی تجاویز کو ٹھکرا دیا۔ پنجاب ٹھیک اسی انجام کی طرف جارہا تھا جیسے ناکہ بندی کی وجہ سے دہلی اور اس کے آس پاس کی صنعتوں، کاروباروں اور روزگار کو اور خاص کر پنجاب میں گزشتہ 13مہینوں میں کاروبار کو10ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ تاجر اور صنعتکارحکومت سے بارڈر کھولنے کا مسلسل مطالبہ کر رہے تھے۔ لدھیانہ ویسٹ سیٹ پر ضمنی الیکشن ہے اور یہاں کی صنعتی اکائیاں بند ہیں اور کاروبار تقریباً ٹھپ ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ سرحد پر ناکہ بندی کی وجہ سے لوگوں کو طویل فاصلہ طے کرکے چھوٹے راستوں کا استعمال کرنا پڑرہا تھا جس سے پورا علاقہ متاثر تھا۔

گزشتہ دنوں جب وزیراعلیٰ بھگونت مان ان سے ملنے گئے تو مقصد انہیں خبردار کرنا ہی تھا۔ بھگونت مان جب ان سے ملاقات کے بعد باہر آئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے پنجاب کے تمام طبقات کی فکر کرنی ہے۔ اس دھرنے کی وجہ سے پنجاب کو بہت نقصان ہو رہا ہے، ہماری ریاست میں سرمایہ کاری نہیں ہوپارہی، معیشت کمزور ہورہی ہے، آمدورفت میں خلل کے باعث پوری معاشی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں، عام لوگوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ بھگونت مان نے کسان لیڈروں کے سامنے ساری باتیں رکھیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس، جیسا کہ بھگونت مان نے بتایا، انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے پاس خوف سے ہی آئے ہو؟ اگر کچھ لوگ دھرنا دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سے کہیں کہ حکومت ہم سے ڈر رہی ہے تو اس سے بڑی حماقت کا کوئی دوسرا ثبوت نہیں ہو سکتا۔ بھگونت مان نے اسی دن کہا کہ میں نے انہیں بتایا کہ میں خوفزدہ ہوکر نہیں آیا ہوں، میں ڈرنے والا نہیں ہوں، میں کوئی بھی کارروائی کرسکتا ہوں۔ ظاہر ہے، وہ انہیں سمجھانے آئے تھے کہ عزت کے ساتھ سڑکیں خالی کردیجیے ورنہ عوام کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہٹانا پڑ سکتا ہے۔ لیکن2020-21 میں، وزیراعظم نریندر مودی حکومت کی تمام اپیلوں اور سپریم کورٹ کی درخواستوں کو مسترد کرنے اور حکومت کے خلاف ہر طرح کی غیر مہذب بیان بازی کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کا انہوں نے غلط اندازہ لگایا کہ مرکزی حکومت نے ان کے خوف سے تینوں زرعی قوانین واپس لے لیے۔ اس کے پیچھے تحریک کے نام پر ملک دشمن بالخصوص علیحدگی پسند خالصتانیوں کے ذریعہ پوری دنیا میں سکھ برادری کے ایک بڑے طبقے میں ہندوستان مخالف جذبات پیدا کرنے اور اس میں پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ دینے جیسی اطلاعات کا کردار اہم تھا۔

کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پی) کی گارنٹی سے متعلق قانون کے حق میں کسان لیڈروں نے دلیل دی تھی کہ صرف25ہزار کروڑ روپے مرکزی حکومت پرخرچ آئے گا۔ وزیر زراعت نے اعداد و شمار دینے کو کہا تھا۔ جو اعداد و شمار انہوں نے آرگنائزیشن آف اکنامک ڈیولپمنٹ کے پیش کیے مرکزی وزیر تجارت(Union Commerce Minister) پیوش گوئل نے کہا کہ یہ ایک منتخب مطالعہ کا ڈیٹا ہے۔ اگروکلاء کی طرح اس قسم کا ڈیٹا پیش کرنا ہے تو آپ کسانوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ سرون سنگھ پنڈھیر نے غصے میں آکر کہا کہ آپ لوگوں کو ملک کے75کروڑ کسانوں کی کوئی پروا نہیں ہے۔ تب گوئل نے جواب دیا کہ ملک نے تیسری بار نریندر مودی کی حکومت بنائی ہے جس میں تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ اگر کسی چیز کے لیے قانون بنانا ہے تو ہمیں ان تمام فریقوں سے بات کرنی ہوگی جو قانون سے متاثر ہوں گے۔ اگر ایم ایس پی قانون بنے گا تو پورے ملک کے لیے بنے گا اور اس وقت سب سے زیادہ خریداری پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش سے ہوتی ہے تو نقصان کس کا ہوگا؟ ایم ایس پی قانون نافذ کرنے کا مطلب ہوگا تمام ریاستوں کے لیے کوٹہ طے کرنا اور اس میں حصہ داری کس کی کم ہوگی؟ بات چیت میں کوئی درمیانی راستہ نہیں تھا۔ حکومت نے بھی غالباً یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر وہ راضی نہ ہوں تو غیر ضروری طور پر بات جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔اس لیے سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ یاد دلایا گیا کہ آپ لوگوں نے الیکشن تو لڑا تھا،دو-دو ہزار ووٹ آئے ہیں۔ گرنام سنگھ چڈونی کو ہریانہ کے کروکشیتر ضلع کی پیہووا اسمبلی سیٹ پر صرف1170ووٹ ملے اور ضمانت ضبط ہوگئی۔ اس کے باوجود حکومت ان سے بات کر سکتی ہے لیکن اس سے کچھ حل نکلنے والا نہیں ہے۔ ان کا ارادہ کسانوں کے مسائل حل کرنا نہیں ہے بلکہ من مانے طریقہ سے احتجاج جاری رکھنا ہے کیونکہ وہ یہی کرسکتے ہیں۔ یہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اگر تحریک کی معتبریت ختم ہوجائے اور اس طرح اسے زندگی کا مستقل کام سمجھ کر سلوک کیا جائے تو کسی بھی قسم کی ناانصافی وغیرہ کے خلاف حکومتوں پر عوامی دباؤ بنا کر انصاف حاصل کرنے کا ہتھیار ختم ہو جائے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS