سرسید احمد خاں کا کامیاب مشن

0

عمر پیر زادہ

سرسیدکے خوابوں کا ہندوستان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ برصغیر کی تہذیبی و ثقافتی، ادبی و علمی، لسانی و تاریخی وراثت کی بہترین مثال ہے۔انیسویں صدی کے اواخر میں سر سید احمد خاں نے جو خواب ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے دیکھا تھا، وہ آج ایک قومی بلکہ عالمی ادارے کی شکل میں ہر طرح کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ وہ پودا ہے جو انیسویں صدی کے آخری حصے میں لگایا گیا تھا، آج ایک تناور اور پختہ درخت کی شکل میں موجود ہے۔ اس سے بلا تفریق لوگ آرام اور استفادہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب وزیر اعظم ہند جناب نریندر مودی صاحب یونیورسٹی کے صد سالہ پروگرام میں آن لائن شریک ہوئے تو دیگر تمام باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے وہ معرکتہ الآرا جملہ بھی کہا جو دراصل سرسید احمد خاں، یو نیورسٹی اور اس کے بانیان کا مشن و مقصد رہا ہے۔ جناب وزیر اعظم نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل ایک منی انڈیا کی سی ہے۔ یعنی اس یونیورسٹی میں پورا ہندوستان سمایا ہوا ہے۔ اگر کسی کو بہت کم وقت میں پورے ملک کا مشاہدہ کرنا ہے، ہندوستان کی مختلف تہذیوں، ثقافتوں، زبانوں، رسم و رواج، بولیوں اور ملبوسات کا نظارہ کرنا ہے تو وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس کا مشاہدہ کرسکتا ہے، کیونکہ یہ منی انڈیا پورے ہندوستان کی تہذیبی، ادبی، لسانی اور جغرافیائی تہذیب و ثقافت کا مظہر ہے۔ سر سید علیہ رحمہ نے بھی اسی مقصد اور مشن کے تحت یہ ادارہ قائم کیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے قوم کے نونہالوں کو مدبر اور معتبر قائد و لیڈر بنایا جا سکے۔ بلا تفریق مذہب و ملت یونیورسٹی اپنے ابتدائی دور سے یہ خدمت انجام دے رہی ہے اور آج بھی اس کے فارغین نہ صرف ہندوستان کے مختلف شعبوں جیسے سول سروس، انجینئرنگ اور طبی شعبوں، نیز سیاسی میدان میں خصوصیت کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں علی گڑھ کے فارغین اپنے ادارے، مادر علمی اور ہندوستان کا نام روشن نہ کر رہے ہوں۔
سر سید علیہ رحمہ نے سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ مذہبی اور عصری علوم کو ایک ساتھ جمع کرتے ہوئے اس فکر اورمشن کے ساتھ ساتھ یہ خدمت انجام دیں کہ آنے والا وقت جس تیز رفتاری سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہا ہے، اس سے مقابلہ و اس کے ساتھ چلنے کے لیے ہمیں پہلے ہی سے تیاری کرنی ہوگی۔ زبان و فنون لطیفہ کے شعبے میں بہت کام ہو چکا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ یورو پ و دیگر مغربی ممالک کے سامنے خود کو ثابت کرنے، اپنے کو معتبر بنانے کے لیے دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مذہبیات و سماجیات، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی اپنی نئی نسل کو کو ماہر بنایا جائے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پورے ملک ہندوستان کے اندر جس قدر ترقی اور تعمیری کام کیا جا رہا ہے، اس میں ایک بڑا حصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ہے۔ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ہر دور میں شیخ الجامع و دیگر ذمہ داران انتہائی کوشاں رہتے ہیں۔ موجودہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور اور ان کے رفقا نے انتہائی کوششوں سے یونیورسٹی کو بین الاقوامی سطح پر جو شناخت دلائی ہے، وہ صرف یونیورسٹی کے لیے ہی باعث فخر نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے باعث عزت وافتخار ہے اور دیگر یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے لیے ترغیب کا باعث بھی۔ شاید یہ ملک کی پہلی یونیورسٹی ہے جہاں توانائی اور تجدید توانائی کے شعبے میں بہترین کام کرتے ہوئے ضرورت کے پیش نظر یونیورسٹی میں شمسی توانائی کا ایک وسیع پروجیکٹ شروع کیا گیا اور اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس پروجیکٹ کے ذریعے ماحولیات کو بہتر بنانے، آلودگی اور کثافت کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی قیمتی وسائل کے بہترین استعمال سے اخراجات میں بھی تخفیف کی گئی۔ سر سید کے اس مشن کو جس خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اپنے محدود وسائل اور حکومتی ضابطوں کے مطابق یونیورسٹی اور اس کے فارغین ایک بہترین مثال بن کر دنیا کے سامنے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب پوری دنیا کورونا وبا سے نبردآزما تھی اور کسی کو ایک دوسرے کی خیریت تک دریافت کرنے کی فرصت نہیں تھی تب بھی یونیورسٹی، اس کا میڈیکل کالج، اس کے ڈاکٹر و اسٹاف متواتر عوام کی خدمت میں مشغول و مصروف رہے۔کورونا کی دوسری لہر میں یونیورسٹی کا بہت قیمتی سرمایہ رہے متعد سینئر اساتذہ، پروفیسران وبا کا شکار ہوئے اور اس دار فانی سے رخصت ہوگئے لیکن وہ خدمت خلق سے پیچھے نہیں ہٹے۔ تمام چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہم انہیں بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
سر سید نے بھی یہی خواب دیکھا تھا کہ ہماری آنے والی نسلوں کے ایک ہاتھ میں قرآن کی تعلیمات ہوں اور دوسرے ہاتھ میں سائنس و ٹیکنالوجی کی اور اس کا استعمال انسانیت کے فائدے کے لیے کیا جائے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی صاحب بھی اسی بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں اپنی روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کریں اور دنیا کے سامنے جو چیلنجز ہیں، ان کا سامنا کرتے ہوئے تمام انسانیت کے لیے راحت اور آسانی کا باعث بنیں۔ یونیورسٹی اس مشن کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ یونیورسٹی کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں اس کے فارغین اپنی مادر علمی اور اس کے بانی و مصلح قوم سرسید احمد خاں کے مشن کے مطابق انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ وہ دنیا کے کونے کونے میں منی انڈیا سے وابستگی اور یہاں کی تعلیم وتربیت کی بنیاد پر وسیع انڈیا کا بہترین نمونہ بنے ہوئے ہیں جو یقینا سرسید احمد خاں کو بہترین خراج عقیدت ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لاکھوں فارغین کی متعدد موضوعات پر تحقیقی و تخلیقی کتب و ریسرچ پیپر سے دنیا بھر میں استفادہ کیا جا رہا ہے۔ ایک ادارے کے اس قدر وسیع اثرات ہیں، جس نے ملک کی تحریک آزادی سے لے کر تعمیرو ترقی میں ہر ہر قدم پر اپنی بیش بہا قربانیاں و خدمات پیش کرکے حق ا دا کرنے کی بہتر سعی کی ہے۔ صرف کسی ایک دن، ایک ہفتہ یا ایک مہینہ نہیں بلکہ ہر روز سرسید احمد خاں اور ان کے شاہکار کو یاد کرتے ہوئے اس سے کسب فیض حاصل کرتے ہوئے دوسروں کو مستفید کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ سرسید کے خوابوں کے ہندوستان کوبلندی کے اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لیے بہت ضروری ہے۔n
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چیف رابطہ عامہ افسر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS