جی-20 کا کامیاب سربراہ اجلاس ہندوستان کی سفارتکاری کی بڑی جیت

0

سینئر صحافی اور تجزیہ کار قربان علی کے مطابق، ’9 اور 10 ستمبر، 2023 کو ہندوستان نے جی-20 کا سربراہ اجلاس نئی دہلی میں منعقد کیا۔ یہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور اس کی کامیابی دراصل ہندوستان کی سفارتکاری کی بڑی کامیابی ہے۔ اس کے لیے سخت محنت کی گئی لیکن کچھ جغرافیائی سیاسی حالات بھی اس کامیابی میں معاون بنے۔ تفصیل میں اگر جائیں تو چین پوری دنیا، خاص کر امریکہ اور مغربی ممالک کے لیے چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے ہندوستان کی اہمیت بڑھی ہے، کیونکہ ہندوستان اقتصادی طور پر بھی مضبوط ہے اور دفاعی طور پر بھی۔ اقتصادی محاذ پر وہ دنیا کے 5 بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ دوسری طرف دنیا کے حالات دوسری عالمی جنگ کے بعد والے حالات نہیں ہیں۔ اس وقت دنیا دو گروپوں، امریکی بلاک اور سوویت بلاک میں بٹی ہوئی تھی۔ ان دونوں بلاکوں میں جو ممالک شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، ان کے لیے نیا گروپ ناوابستہ تحریک امید کی کرن تھا لیکن یہ گروپ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ سرد جنگ کے بعد سوویت یونین بھی بکھر گیا۔ اسی لیے جی-7 کے مقابلے برک بنا جو بعد میں برکس ہو گیا تو ایسا لگتا تھا کہ یہ زیادہ بااثر نہیں ہوگا یا مغربی اتحاد، خاص کر ناٹو کو چیلنج نہیں کر پائے گا جبکہ اس گروپ سے روس کے ساتھ ہندوستان، چین، برازیل، جنوبی افریقہ وابستہ تھے لیکن دنیا کے حالات بدل گئے۔ یوکرین جنگ کی مثال اگر چھوڑ دیجیے تو کوئی ملک کسی ملک سے براہ راست جنگ کرنا نہیں چاہتا، نہ امریکہ چین سے لڑنا چاہتا ہے اور نہ کوئی اور ملک کسی اور ملک سے، البتہ تمام ملکوں کی دلچسپی خود کو اقتصادی طور پر مستحکم بنانے میں ہے اور اگر انہیں کہیں لگتا ہے کہ کسی ملک سے انہیں جنگ لڑنی ہے تو وہ اس سے اقتصادی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اہم گروپوں سے ملکوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے، بڑے گروپوں سے نئے ممالک وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ برکس کے حالیہ سربراہ اجلاس میں یہ دیکھنے کو ملا۔ برکس 5 ملکوں کا گروپ تھا مگر جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں منعقدہ اس کے سربراہ اجلاس میں 6 نئے ملکوں، سعودی عرب، ایرن، متحدہ عرب امارات، مصر، ایتھوپیا، ارجنٹینا کو اس کی رکنیت دی گئی، 14 ممالک اورہیں جنہوں نے رکنیت کے حصول کے لیے عرضی دے رکھی ہے جبکہ برکس سے وابستگی کے خواہشمند اور بھی ممالک ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ ایک لمبی قطار ہے۔ اسی طرح کئی ملکوں اور گروپوں کی جی-20 سے بھی وابستہ ہونے کی خواہش ہے اور اس سلسلے میں افریقی یونین کو بڑی کامیابی ملی ہے۔‘
قربان علی کے مطابق، ’افریقی یونین کے چیئرپرسن نے وزیراعظم نریند مودی سے یہ درخواست کی تھی کہ ان کے یونین کو جی-20 میں شامل کرائیں۔ مودی نے شامل کرانے کا وعدہ کر لیا تھا اور نئی دہلی میں منعقدہ جی-20 کے سربراہ اجلاس میں ہندوستان نے افریقی یونین کو شامل کراکر ہوا کا رخ پلٹ دیا۔ اس سے ہندوستان کا دائرۂ اثر بڑھ جائے گا اور اس کا فائدہ ہندوستان کو ہوگا۔۔۔۔جی-20 میں اب تک 19 ممالک اور یوروپی یونین تھے۔ یوروپی یونین میں 27 ممالک ہیں۔ اب افریقی یونین بھی اس گروپ میں شامل ہو گیا ہے۔ افریقی یونین میں 55 ممالک ہیں۔ اس طرح اس گروپ میں اب راست طور پر 19 ممالک ہیں اور اپنے گروپوں کے ذریعے بالواسطہ طور پر 82 ممالک یعنی راست اور بالواسطہ طور پر اس گروپ میں 101 ممالک ہو گئے ہیں۔ اس سے اس گروپ کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ جی-20 کی اہمیت میں اضافہ کرنے میں ہندوستان نے نہایت اہم رول ادا کیا ہے،کیونکہ اس کی کوششوں سے ہی افریقی یونین کو اس کی رکنیت دی گئی ہے۔ افریقی یونین کے 55 ملکوں میں دنیا کی تقریباً 18 فیصد آبادی رہتی ہے۔ ان ملکوں کے پاس دنیا کی 20 فیصد زمین ہے اور 2020 تک ان کی اقتصادیات ساڑھے سات ٹریلین ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس طرح افریقی یونین کی شمولیت سے جی-20 اور زیادہ طاقتور گروپ بن گیا ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں اس کی حصہ داری 85 فیصد ہے جبکہ عالمی تجارت میں اس کی حصہ داری 75 فیصد۔ پوری دنیا کے لیے یہ کافی بڑا گروپ بن گیا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے ممبر ملکوں کے لیے اپنے دائرۂ اثر کو بڑھانا اور اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ ان کے لیے چیلنج بڑھے گا اور یہ چیلنج اس گروپ کی اہمیت میں اوراضافہ کرے گا۔‘
قربان علی کے مطابق، ’جی-20 سے افریقی یونین کی وابستگی کا فائدہ ہندوستان کو ہوگا- دائرۂ اثر بڑھانے میں بھی، تجارت میں بھی اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے میں بھی، کیونکہ یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ چین کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلانے میں افریقی ملکوں نے بڑی مدد کی تھی۔ وہ مدد نہیں کرتے تو شاید اسے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہیں مل پاتی۔ امید کی جانی چاہیے کہ افریقی یونین کے ممالک یہ سوچتے ہوئے ہندوستان کو بھی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے میں معاون بنیں گے کہ ہندوستان کا مستقل رکن بننا ان کے حق میں ہوگا۔ ‘
قربان علی کا کہنا ہے کہ ’جی-20 کے حالیہ سربراہ اجلاس میں کئی اور ایشوز پر گفتگو ہوئی۔ ان میں موسمیاتی تبدیلی ، مستحکم ترقی، ہند-مشرق وسطیٰ-یوروپی اقتصادی کاریڈور اہم ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور مستحکم ترقی پر 2000 میں میلینیم سمٹ منعقد ہوئی تھی۔ اس میں بڑے اہداف طے کیے گئے تھے۔ 2015 میں ان پر نظر ثانی کی گئی تھی اوراہداف کی مکمل کامیابی کے لیے مزید زور دیا گیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ یہ ہے کہ کاربن کے اخراج کا غریب ممالک کا جو کوٹا ہوتا ہے، وہ امیر ممالگ خرید لیتے ہیں۔ خاص کرامریکہ کا رول اس سلسلے میں قابل تعریف نہیں ہے۔ رہی بات مستحکم ترقی کی تو اس کے لیے پہلے سے ہندوستان، جاپان اور افریقی یونین مل کر کام کر رہے ہیں۔ جی-20 کے حالیہ سربراہ اجلاس کے بعد اس میں دو گروپ اور جڑ گئے ہیں۔ وہ ہیں: ہند-امریکی-افریقی اتحاد اور ہند-سعودی عرب-افریقی اتحاد۔ سفارتکاری کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ ہندوستان نے جی-20 کے حالیہ سربراہ اجلاس کا مثبت استعمال تو اپنے لیے خوب کیا مگر اس کی وجہ سے اس کے رشتے کسی ملک سے خراب نہیں ہوئے۔ اعلامیہ میں جس طرح یوکرین جنگ کا ذکر کیا گیا، زمین پر قبضے کے لیے حملہ کرنے اورطاقت کے استعمال کی مذمت کی گئی اور روس کا نام بھی نہیں لیا گیا، ہند-روس تعلقات کے زاویۂ نظر سے یہ بے حد اہم ہے۔ ‘
سینئر صحافی قربان علی کے مطابق، ’ اگر مختصراً اہم حصولیابیوں کی بات کی جائے تو ان کی تعداد 4 ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی حصولیابی یہ ہے کہ روس کی مذمت کیے بغیر یوکرین میں امن قائم کرنے پر زور دیا گیا اور علاقائی اتحاد و سالمیت کو برقرار رکھنے کی بات کہی گئی۔ دوسری بڑی حصولیابی چین کو ناراض کیے بغیر امریکہ اوریوروپی یونین کی بات اعلامیے میں شامل کی گئی۔ تیسری حصولیابی ہند-مشرق وسطیٰ-یوروپی اقتصادی کاریڈور کا اعلان ہے جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیئٹیو کا متبادل ہوگا۔ چوتھی بڑی حصولیابی جی-20 میں افریقی یونین کی شمولیت ہے۔ اب برازیل میں اگلا سربراہ اجلاس ہوگا تو یہ گروپ جی-21ہوگا۔ سربراہ اجلاس سے الگ ہندوستان کی ایک اور بڑی حصولیابی امریکہ کے تعاون سے متعلق ہے۔ امریکہ سے دفاعی اور تکنیکی تعاون کی بات چل رہی تھی۔ جو بائیڈن کے اس دورے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ بس دستخط ہونا باقی ہے۔ یہ بھی ایک بڑی حصولیابی ہے۔‘n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS