عبدالماجد نظامی
چندریان-3 کی کامیابی ہندوستان اور پوری دنیا کے انسانوں کو ایک عظیم پیغام دے رہی ہے کہ ہماری مادی قدرت خواہ کتنی ہی محدود کیوں نہ ہو اور ہمارے مسائل کی سنگینی جتنی بھی ہو اگر ہم ایک بلند مقصد کا تعین اپنے لیے کرلیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے مخلصانہ کوشش کریں تو کامیابی ایک دن قدم ضرور چومتی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ستمبر2019میں اسرو نے چندریان-2کو چاند کے جنوبی قطب کے لیے روانہ کیا تھا لیکن اس میں ناکامی ملی تھی۔ اس وقت اسرو کے سربراہ کے سیون اپنی مایوسی کے احساس کو روک نہیں پائے تھے اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تھے۔ چاند کی بلندی کو سر کرنے والے اعلیٰ دماغوں کی قیادت کرنے والی شخصیت کا اس طرح جذباتی ہوجانا بظاہر بڑا عجیب معلوم ہوا تھا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اتنے عظیم سائنس داں بھی ایک انسان ہیں جن کے جذبات ہیں۔ کے سیون سمجھ رہے تھے کہ چندریان-2کی کامیابی کا انتظار پورا ملک کر رہا ہے۔ ایک ارب چالیس کروڑ ہندوستانیوں کے خوابوں کا بوجھ اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائے اور رو پڑے تھے۔ وزیراعظم نریندر مودی جو اس وقت وہاں موجود تھے، ایک قائد کے طور پر انہوں نے اپنا فرض نبھایا تھا اور انہیں گلے لگا کر تسلی دی تھی کہ کامیابیوں کے راستے ہمیشہ ناکامیوں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ آج جبکہ محض چار برسوں کی مدت میںISROنے اپنے نئے سربراہ ایس سومناتھ کی قیادت میں وہ کامیابی حاصل کرلی ہے جو اب تک دنیا کے کسی ملک کا حصہ نہیں بنی تھی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مشن کو کامیاب بنانے والے ہر سائنس داں اور چھوٹے بڑے معاونین کا سینہ فخر سے کس قدر چوڑا ہوگیا ہوگا۔ اس کامیابی کی خوشی کا اندازہ ہر ہندوستانی کے دمکتے چہرے اور چمکتی آنکھوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ نئی نسل جو ابھی اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہے اور اپنے قابل اساتذہ کی نگرانی میں محنت و جفاکشی کے ایام گزار رہی ہے تاکہ مستقبل میں ہندوستان کو عالمی منظرنامہ پر سرخیل کے طور پر پیش کرسکے، اسے چندریان-3 کی کامیابی سے کس قدر حوصلہ اور مہمیز مل رہا ہوگا، اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ عالمی پیمانہ پر اگر دیکھا جائے تو یہ کامیابی ایسے وقت میں ہندوستان کو ملی ہے جبکہ وزیراعظم برکس کی چوٹی کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کے لیے جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں موجود ہیں۔ وہاں عالمی لیڈران کا ایک بڑا جتھہ موجود ہے۔ اس کامیابی پر ہندوستان کو جو مبارکبادیاں دنیا کے لیڈران سے ملی ہوں گی اور ہندوستانی قیادت اور عوام کا سر کس قدر بلند ہوا ہوگا، اس کو محسوس کرنا یا سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے ۔ وزیراعظم نے چندریان-3کی کامیابی کے بعد جنوبی افریقہ سے سائنس دانوں اور عوام کو جو خطاب کیا ہے، اس سے بھی تمام ہندوستانیوں کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آج کا دن یہ ثابت کرتا ہے کہ ناکامیوں سے سبق سیکھ کر کامیابیاں کیسے حاصل کی جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے خطاب میں مغربی دنیا کے علمی اور سائنسی غرور پر بھی تیکھا حملہ کیا اور کہا کہ ’’میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کے تمام ممالک جن میں گلوبل ساؤتھ کے ممالک بھی شامل ہیں، سب میں اس کی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایسی کامیابیوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ چاند آخری منزل نہیں ہے بلکہ ہم چاند سے آگے کی فضاء میں پرواز کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں تمام ہندوستانی سائنس دانوں اور ہر طبقہ کے جذبات کی عکاسی ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی جس وقت اور جس پس منظر میں ہندوستان نے یہ کامیابی حاصل کی ہے، وہ بے مثال ہے۔ ابھی چند دنوں قبل کی بات ہے کہ روس نے جو اپنا مشن چاند پر Lunar-25کے نام سے بھیجا تھا، وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔ اس چاند مشن کا مقصد پوتن کے پیش نظر یقینا یہ رہا ہوگا کہ وہ دنیا کو اور خاص طور سے امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ملکوں کو یہ پیغام دے سکیں کہ یوکرین پر مسلط جنگ کے نتیجہ میں روس پر جو پابندیاں مغربی ممالک نے عائد کی ہیں، ان کا اثر اس کے مادی اور علمی مقام پر بالکل نہیں پڑا ہے۔ لیکن پوتن اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوپائے اور اسی کے ساتھ خلائی سائنس کے میدان میں روس کا قد لگاتار گھٹتا چلا گیا جس کا اندازہ روسی میڈیا سے ہوتا ہے جو اس معاملہ کو بہت معمولی کوریج دے کر خاموش ہوگیا کیونکہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں تھا۔ چندریان-3کی کامیابی سے چین کا نظریہ بھی ہندوستان کے تئیں بدلے گا۔ اب تک چونکہ دنیا کے صرف چار ممالک یعنی امریکہ، روس، چین اور ہندوستان ہی نے چاند مشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ فرق یہ ہے کہ چین ہندوستان کو اب تک اپنی برابری کا نہیں سمجھتا رہا ہے کیونکہ چینی قیادت کے مطابق ہندوستان کے پاس ابھی وہ اقتصادی اور سائنسی قوت نہیں ہے کہ چین اس کو برابری کا درجہ دے۔ لیکن اب چین کو اپنے اس نظریہ کو بدلنا ہوگا ورنہ یہ محض غرور کے زمرہ میں ہی آئے گا۔ ہندوستان نے چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے، وہ صرف اس پہلو سے قابلِ تعریف نہیں ہے کہ چاند کے سب سے مشکل حصہ پر فتح حاصل کی ہے بلکہ اس اعتبار سے بھی حیرت انگیز ہے کہ یہ کام اسرو کی ٹیم نے محض615کروڑ میں کر دکھایا ہے۔ جبکہ روس نے Lunar-25 پر1700 کروڑ اور چین نے اپنے آخری چاند مشن پر1600 کروڑ کا خرچہ کیا تھا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوستانی سائنس داں اپنی قابلیت اور حسنِ انتظام میں دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ آج ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور ان کے پہلے وزیرتعلیم مولانا آزاد کی روحیں بھی بہت خوش ہوں گی جنہوں نے مل کر ہندوستان کے بہتر مستقبل کے لیے تعلیم و ترقی کا پلان تیار کیا تھا اور اسی کے تحت جہاں ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے آئی آئی ٹی جیسے ادارے قائم کیے تھے، وہیں دوسری طرف1948میں دی اٹومک انرجی کمیشن نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا تاکہ نیوکلیئر ڈیولپمنٹ کے موضوع پر کام کرے۔ نہرو جی اس ادارہ کے پہلے چیئرمین تھے۔ اسی ادارہ کے تحت1961میں عظیم سائنس داں وکرم سارابھائی کی قیادت میں خلائی تحقیق کا ادارہ قائم کیا گیا تھا جس کا نام انڈین نیشنل کمیٹی فار اسپیس ریسرچ رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد1972میں انڈین اسپیس ریسرچ(ISRO) قائم کیا گیا۔ انڈین انرجی کمیشن کی طرز پر ہی انڈین اسپیس کمیشن کو قائم کیا گیا تھا جس کی سربراہی بھی پہلے وزیراعظم نہرو کرتے تھے۔ یہ دونوں ادارے ہندوستان کی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔ ان اداروں کو فنڈ بھرپور دیے جاتے تھے تاکہ ہندوستان کی ترقی کی بنیاد مضبوط بنے۔ آج ہندوستان نے وہ کر دکھایا ہے جس کا خواب نہرو اور ان کے دوستوں نے دیکھا تھا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی روح بھی خوش ہوگی جنہوں نے نہ صرف سائنس و ٹیکنالوجی میں بھارت کو عالمی صف میں کھڑا کرنے میں اہم کلیدی کردار ادا کیا تھا بلکہ چندریان-1 کے ڈیزائن میں اہم تبدیلی کروا کر اس مشن کو نئی شکل دی تھی۔ہم تمام ہندوستانی اب پرامید ہیں کہ چاند آخری منزل نہیں بلکہ تحقیق و انکشافات کا پہلا زینہ ہے اور ہندوستان کا قدم اس سفر میں سب سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اب یہ قد مزید بڑا ہوگا اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بجائے ہندوستان علم و تحقیق کے میدان میں دنیا کی قیادت کا مشن پورا کرے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]