یوکرین جنگ ختم کرانے کی جدوجہد!

0

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب کی تشہیر کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ صدر امریکہ بن جانے کے بعد وہ یوکرین جنگ اور غزہ جنگ ختم کرائیں گے اور کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے۔ ان کے غزہ پلان سے تو ایسا نہیں لگتا کہ غزہ جنگ وہ ختم کرانے میں کامیاب رہے ہیں، اس خطے میں جنگ کی آگ پھر نہیں بھڑکے گی، البتہ یوکرین جنگ ختم کرانے کے سلسلے میں وہ سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ یوکرین جنگ ختم کرانے کے لیے سعودی عرب کے بھی رول ادا کرنے کی خبر ہے۔ ٹرمپ نے روسی سربراہ پوتن سے گزشتہ ہفتے ہی بات کی تھی اور 17 فروری، 2025 کو امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو سعودی عرب پہنچ گئے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بھی ریاض کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ روبیو اور لاوروف کے ساتھ مذاکرات میں کیا یوکرینی صدر زیلنسکی کو بھی شامل کیا جائے گا؟ زیلنسکی یہ کہہ چکے ہیں کہ جنگ ختم کرنے کے سلسلے میں یوکرین اس طرح کے کسی بھی معاہدے کو نہیں مانے گا جس میں اسے شامل نہ کیا گیا ہو جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے، ’ہمارے ساتھ یوکرین ہوگا، اور ہمارے ساتھ روس ہے، اور ہمارے ساتھ دوسرے بہت سے لوگ شامل ہوں گے۔‘ مگر یہ جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ کیا ایسا ہوگا؟

یوکرین جنگ اچانک نہیں شروع ہوئی تھی۔ اس سے قبل جنگ ہونے کے حالات بن گئے تھے۔ بحث کا یہ الگ موضوع ہے کہ یوکرینی سربراہ زیلنسکی حالات کو سمجھ نہیں سکے یا اس خوش فہمی میں رہے کہ روس، یوکرین پر حملہ نہیں کرے گامگر بظاہر ان کے خوش فہمی میں رہنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ اس کی وجہ یوکرین اور روس کے مابین گزشتہ ایک دہائی کے تعلقات بھی ہیں۔ 2014 میں روس نے کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا، کوئی ملک یوکرین کی مدد نہیں کر سکا تھا، امریکہ بھی کچھ نہیں کرسکا تھا، تو پھر یہ بات زیلنسکی کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی کہ حملے کی صورت میں یوکرین کے لیے کوئی بھی ملک براہ راست روس سے لڑنے کے لیے نہیں آئے گا۔ جنگ میں یوکرین کی مدد کئی ملکوں نے کی لیکن لڑائی یوکرین کو خود ہی لڑنی پڑی۔ اس کا نتیجہ اسے بھگتنا پڑا۔ اس کے کافی علاقوں پر روس کا قبضہ ہو گیا اور ایسا لگتا نہیں کہ جنگ ختم کرنے کے لیے کوئی معاہدہ ایسا ہو پائے گا یا اس طرح کے کسی معاہدے کے لیے روس تیار ہو جائے گا کہ اسے یوکرین کا علاقہ واپس کرنا پڑے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں یوکرین کو جنگ کرکے کیا ملا؟

یوکرین جنگ میں یوروپی ممالک کی وہی پالیسی رہی جو امریکہ کی رہی، اس لیے اس سوال کی اہمیت بھی کم نہیں کہ یوروپی ممالک کو کیا ملا؟ یوکرین جنگ کی وجہ سے ان یوروپی ممالک کی روس سے دوری بڑھ گئی جو اس سے کسی حد تک قریب تھے، اس سے امریکہ پر ان کا انحصار بڑھا ہے۔ اسی لیے جنگ کی وجہ سے امریکہ فائدے میں ہے۔ جنگ کی وجہ سے روس بھی خسارے میں نہیں ہے۔ وہ یہ دکھانے میں کامیاب رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ بیشتر یوروپی ممالک مل کر بھی اسے شکست نہیں دے سکتے۔ اس جنگ کی وجہ سے روس اور چین بھی قریب آئے ہیں۔ ان کے اپنی کرنسی-روبل اور یوآن- میں 90فیصد سے زیادہ تجارت کرنے سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر نہیں رہ گئی ہوگی کہ روس کی پوزیشن ز یادہ مستحکم بنانے کے لیے روبل کو زیادہ مستحکم کرنا ضروری ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یوکرین جنگ اور زیادہ وقت تک چلتی رہی، پابندیوں سے پریشان روس نے جوابی کارروائی کے طور پر چین کے ساتھ ڈالر کو کمزور کرنے کی مہم جاری رکھی تو یہ ان کے اقتصادی منصوبوں پر بھاری پڑے گا۔ پھر یہ کہ یوکرین جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ پوری توجہ مشرق وسطیٰ پر نہیں دے پائے گا۔ غالباً اسی لیے یوکرین جنگ ختم کرانے سے ان کی اتنی دلچسپی ہے۔ اگر یہ جنگ واقعی ختم ہوگئی تو پھر امریکہ غزہ پلان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گا مگر اس سے مشرق وسطیٰ کے حالات بگڑیں گے اور اس بار شاید یوروپی ممالک اپنا مفاد پہلے دیکھیں۔ دعویٰ سے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ چین اور روس جیسے ممالک حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ فی الوقت یہی لگتا ہے کہ آنے والے دن یوروپ کے لیے ہی نہیں، مشرق وسطیٰ کے لیے بھی اہم ہوں گے۔ نئے حالات سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسی امریکہ کے لیے کتنی کارگر ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS