پروفیسر عتیق احمدفاروقی
پارلیمان کی نئی عمارت کا تنازعوں کے درمیان ہوا افتتاح نئے سیاسی صف بندی کا اشارہ بھی دے گیا۔ بیشک بائیکاٹ کرنے والی بیس جماعتوں کی تعداد کم نہیں ہوتی، پر اس سے زیادہ جماعتیں افتتاحی تقریب میں شامل ہوئی تھیں۔ بائیکاٹ کرنے والی جماعتیں وہی تھیں جو اکثر وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت اوربی جے پی کی تنقید کرتی رہی ہیں لیکن شامل ہونے والی جماعتوں میں وہ بھی تھیں جو غیرجانبدار پالیسی اپناتی رہی ہیں۔ ہردانشمند اس بات کو تسلیم کرے گاکہ افتتاحی پروگرام میں خامیاں تو تھیں۔ جو جماعتیں اس پروگرام میں شامل ہوئیں ان کااپنا الگ حساب ہوگااورجونہیں شامل ہوئیں ان کا الگ ہدف ہوگا۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ سبھی جماعتیںسیاسی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دیتی ہیں۔ حزب مخالف کے اتحاد کے پیامبر کے طور پر بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پورے ملک کا دورہ کررہے ہیں۔ اب آنے والے 23جون کو پٹنہ میں مخالف جماعتوں کا ایک جلسہ ہونے جارہاہے جس میںاُن سبھی جماعتوں کے شامل ہونے کی امید ہے جو اگلے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ایک نظریاتی جماعتوں کے اتحاد پر زوردیتے رہے ہیں۔ حالانکہ اتحاد کامظاہرہ کرنے کا موقع گذشتہ دنوں کرناٹک کے وزیراعلیٰ کی حلف براداری کی تقریب کے دوران بھی ملاتھا لیکن اس وقت حزب مخالف کے اتحاد کی مشکلات کچھ زیادہ تھیں ۔ مثلاً عام آدمی پارٹی کے سربراہ اوردہلی کے وزیراعلیٰ اروندکیجریوال اورتلنگانہ کے وزیراعلیٰ اور بی آر ایس کے صدر کے چندر شیکھر راؤ کو اس تقریب میں مدعونہیں کیاگیا تو بنگال کی وزیراعلیٰ ترنمول کانگریس سربراہ ممتابنرجی نہیں گئیں ۔
بیجوجنتادل،جنتادل سیکولر ، بی ایس پی ، شرومنی اکالی دل ، تلکو دیشم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس کے نئی پارلیمانی عمارت کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے کا یہ مطلب سمجھنا غلط ہے کہ وہ بی جے پی مخالف محاذ میں شامل نہیں ہوں گے۔ دراصل یہ پارٹیاں انتخابات سے متعلق اپنے حساب لگانے میں مصروف ہیں۔ جب وہ اپنا حساب مکمل کرلیں گے تب وہ اپنے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ابھی انہیں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اورتلنگانہ کے انتخابات جو پارلیمانی انتخابات سے پہلے ہونے والے ہیں، کے نتائج کا انتظار ہے۔ یہ بات بی جی پی بخوبی سمجھتی ہے کہ اگروہ ان اسمبلی انتخابات کو جیتنے میں کامیاب نہیں ہوتی ہے تو این ڈی اے اورتیزی سے سمٹ جائے گی۔
جہاں تک کانگریس اورعام آدمی پارٹی کے تعلقات کا سوال ہے ان کے بیچ کے فاصلے سبھی نے دیکھے ہیں۔ سونیا گاندھی اورراہل گاندھی سے سی بی آئی کی پوچھ تاچھ پر عام آدمی پارٹی کے لیڈران کا موقف کسی سے چھپانہیں ہے لیکن شراب گھٹالوں سے لیکر دہلی حکومت کے اختیارات تک کے مدعوں پر اب جب یہ پارٹی خود مصیبت میں ہے تو انہیں کانگریس کی حمایت چاہیے۔ تمام حزب مخالف سے حمایت مانگ رہے اروندکیجریوال نے کانگریس صدر ملیکارجن کھرگے اورراہل گاندھی سے ملاقات کرنے کا وقت مانگاہے لیکن اس معاملے میں کانگریس کسی جلدی میں نہیں لگتی۔ جماعتی سیاست کی ایسی ہی پیچیدگیوں کا ایک دوسرا اشارہ یہ ہے کہ نتیش ،ممتابنرجی اورشردپوار جیسے بڑے لیڈران چاہتے ہیں کہ تلنگانہ ،آندھرا پردیش،کیرل اوردہلی کو چھوڑ کر کانگریس اپنا کردار گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں جیتی اوردوسرے نمبرپر رہی سیٹوں تک ہی محدود رکھتے ہوئے دیگر علاقائی پارٹیوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دے۔ یہ حکمت عملی لوک سبھا کی کل 543میں سے 474نشستوںپر بی جے پی کے خلاف ایک ہی مشترک مخالف امیدوار اتارنے پر زوردیتی ہے لیکن اس حساب سے کانگریس کے حصے میں محض 244سیٹیں ہی آئیں گی۔ ان میں سے کانگریس کتنی جیت پائے گی اورباقی نشستوں پر اس کی تنظیم ،لیڈران اورکارکنان کا کیاہوگا؟ سیدھی سی بات ہے کہ کرناٹک کی فتح کے بعد توکانگریس اس فارمولے کو قطعی نہیں مانیں گی لیکن اس سے علاقائی جماعتوں کا کانگریس کے تئیں نظریہ کا اشارہ تو مل ہی جاتاہے۔ یہ پارٹیاں بی جے پی سے تو لڑناچاہتی ہیں، کانگریس کی حمایت کی اہمیت کا احساس بھی ان میں ہے پر اس طریقہ عمل میں کانگریس کو اس کی کھوئی ہوائی عوامی حمایت واپس پاتے نہیں دیکھناچاہتی کیونکہ ان کا سیاسی مستقبل کانگریس کی کمزوری پر ٹکاہواہے لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیاجاچکاہے کہ اگرکانگریس پارلیمانی الیکشن سے قبل ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو سارے غیرکانگریسی قدآور لیڈران اورعلاقائی پارٹیوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ بی جے پی بھی سیاسی ہواؤں میں تبدیلی دیکھ رہی ہے ۔ اب وہ بھی این ڈی اے کی توسیع کو ضروری سمجھ رہی ہے کیونکہ مودی کا کرشمہ اوررام مندر کی تعمیر کا اثر اب گھٹ رہاہے۔ گذشتہ دولوک سبھا چناؤوںمیں اپنے دم پر اکثریت حاصل کرنے والی بی جے پی این ڈی اے کو توسیع دینے کی تیاری شروع کرچکی ہے۔
نئی پارلیمانی عمارت کے افتتاح میں کچھ ایسی بھی سیاسی جماعتیں شامل ہوئیں جو ماضی میں این ڈی اے کا حصہ رہ چکی ہیں اورمستقبل میں دوبارہ اس کا حصہ بن سکتی ہیں۔ شرومنی اکالی دل سے بی جے پی کا رشتہ زراعتی قانونوں پر ٹوٹاتھا جو حتمی طور پر واپس بھی ہوچکے ہیں۔ الگ الگ چناؤ لڑکر دونوں ہی جماعتوں کو اپنی حد کا احساس ہوچکاہے ۔ اس لئے اگلے لوک سبھا چناؤ سے قبل ان کی دوستی کے امکانات مضبوط ہیں۔ جنتادل سیکولر سپریمو اورسابق وزیراعظم ایچ ڈی دیو گوڑا نے وزیراعظم مودی کی جیسی تعریف کی ہے ، وہ بہت کچھ کہہ دیتی ہے۔ پھر بھی ایک سیکولر لیڈرہونے کے ناطے ان کی مستقبل میں این ڈی اے کی حمایت کا امکان چالیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ چندر بابونائیڈو نے اپنی قومی حیثیت بنانے کی خاطر این ڈی اے کو چھوڑ کر مودی کے خلاف محاذ کھولا تھا پر نوجوان جگن موہن ریڈی کے ہاتھوں آندھرا کا اقتدار بھی گنوابیٹھے۔ حال میں ان کی امت شاہ اورجے پی نڈہ سے ملاقات دوبارہ دوستی کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ جگن کی وائی ایس آر کانگریس وقت ضرورت مودی حکومت کی حمایت کرتی رہی ہے، لیکن چناوی سیاست کے ان دوباہمی مخالف قطبوں کا ایک ساتھ این ڈی اے میں ہوپانا توممکن نہیں لگتا۔ وقت بتائے گا کہ جگن موہن ریڈی کا اگلا قدم کیاہوتاہے ؟ پانچویں بار وزیراعلیٰ بنے نوین پٹنایک کو اڈیسہ کی سیاست میں کسی اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں ملکی سیاست میں ان کی ضرورت دونوں ہی خیموں کو ہوگی۔ ایس پی کا توعظیم اتحاد میں شامل ہونا اتنا مشکل نہیں ہے لیکن بی ایس پی تنہا پارٹی ہے جس کے بارے میں ابھی سے کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ گزشتہ لوک سبھا چناؤ وہ اپنی کٹرمخالف پارٹی ایس پی سے ملکر لڑی تھی ، اگلے چناؤ میں کیاہوگا ،یہ بتانا مشکل ہے۔ بہر حال درحقیقت لوک سبھا سے قبل ریاستی اسمبلیوں کے ہونے والے انتخابات پر بہت کچھ منحصر ہے۔
[email protected]
سیاسی جماعتوں میں اقتدار پانے کی ہوڑ : پروفیسر عتیق احمد فاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS