جامعہ ہمدرد نے چند دہائیوں میں ہی ملک کے ایک بڑے ادارے کی حیثیت سے شناخت بنا لی ہے۔ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا سمیت متعدد ملکوں میں برسرروزگار ہیں اور صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں، چنانچہ جامعہ ہمدرد کا وائس چانسلر بننا کسی اعزاز سے کم نہیں، یہ اعزاز پروفیسر محمد افشار عالم کو حاصل ہوا ہے۔ وہ جامعہ کے پہلے ایسے وائس چانسلر ہیں جو اسی ادارے کے شعبۂ کمپیوٹر سائنس سے وابستہ رہے ہیں یعنی باہر سے نہیں آئے ہیں۔ اس سے پروفیسر محمد افشار عالم کی صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور مقبولیت کا بھی۔ جامعہ ہمدرد کے وی سی پروفیسر محمد افشار عالم کی نمائندہ ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘خاور حسن سے گفتگو پیش خدمت ہے:
آپ کا وژن کیا ہے اور یہ بھی بتائیے کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟
میرا وژن وہی ہے جو حکیم صاحب کا وژن تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ طلبا و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے، انہیں سہولتیں فراہم کرنا چاہتے تھے۔ حکیم صاحب کے وژن کو عملی جامہ پہنانا ہی میری ترجیح ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ حکیم صاحب کے وژن کو آگے بڑھاؤں۔ نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک میں جامعہ کا فارمیسی شعبہ ملک میں نمبر وَن ہے۔ شعبۂ میڈیکل 22 ویں اور انجینئرنگ 201 ویں نمبر پر ہے۔ یونیورسٹیوں کے زمرے میں ہندوستان کی ٹاپ 21 یونیورسٹیوں میں جامعہ ہمدرد 18 ویں نمبر پر ہے اور ہم اسے ٹاپ 10 میں لانا چاہتے ہیں۔ پچھلے وائس چانسلر صاحب نے جو کورسز شروع کیے تھے، ہم ان میں مزید سہولتیں دینا چاہتے ہیں۔ کچھ نئے کورسز شروع کرنے کا ارادہ ہے، نئے ہوسٹل قائم کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ یہاں پڑھنے والے 100 فیصد طلبا و طالبات کو ہوسٹل کی سہولت میسر ہو۔
جامعہ ہمدرد سے وابستگی کے بعد پہلا کام آپ نے کیا کیا؟
ہم نے پہلی توجہ فنڈ یکجا کرنے پر دی ہے۔ یو جی سی سے جو رقم لے سکتے ہیں، لیں۔ وزارت اقلیتی امور سے جو بجٹ حاصل کر سکتے ہیں، کریں۔ 1984 میں دہلی سرکار یونانی کالج کو 75 فیصد کی گرانٹ دیا کرتی تھی، ہماری کوشش ہے کہ وہ پھر سے یہ گرانٹ دے۔ وزارت آیوش یونانی کے فنڈ میں اضافہ کرے۔ رقم میں اضافہ ہوگا تو انفرااسٹرکچر مضبوط کریں گے، نئے شعبے کھولیں گے، شعبوں میں سیٹیں بڑھائیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ جامعہ ہمدرد طلبا و طالبات کو زیادہ سستی اور زیادہ معیاری تعلیم فراہم کرائے۔
کن شعبوں میں سیٹوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں؟
ایک سے زیادہ شعبے ہیں جن میں سیٹوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ فی الوقت یونانی میں 50 سیٹیں ہیں، اسے بڑھاکر 100 کرنا چاہتے ہیں۔ بی-فارم میں 120 سیٹیں ہیں۔ اس میں 20 فیصد سیٹوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ نرسنگ میں بھی سیٹیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ 1983 میں جامعہ ہمدرد نے نرسنگ کی تعلیم کے لیے رفیدہ اسکول آف نرسنگ جب قائم کیا تھا تو اس وقت شمالی ہند کی 0.5 فیصد طالبہ بھی نرسنگ میں نہیں آتی تھیں، اس خطے کی مسلم طالبہ کی اس شعبے میں موجودگی تو تقریباً صفر تھی۔ آج یہ رفیدہ کالج آف نرسنگ نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سے فارغ طالبات دنیا بھر کے اسپتالوں سے وابستہ ہیں۔ کورونا کے دور میں انہوں نے اپنی اہمیت اور ملک کے لیے جامعہ ہمدرد کی خدمات کا احساس دلایا ہے۔
اور نیا کیا کرنا چاہتے ہیں؟
ویکسین سے متعلق کورس وائرولوجی میں پی جی پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں۔ جامعہ ہمدرد ملک کی پہلی یونیورسٹی ہوگی جہاں یہ پروگرام شروع ہوگا۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹائل انجینئرنگ اور ٹیکسٹائل کیمسٹری پڑھنے کی سہولتیں فراہم کرائیں گے۔ ہم یونانی کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں یعنی بدلتے وقت اور نئے حالات کی ضرورتوں کے مطابق اسے دیگر طریقۂ طب سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس میں ریسرچ کی راہیں ہموار ہوں، اس کی اہمیت میں اضافہ ہو اور ہم ادویہ کے میدان میں بھی اپنی اہمیت کا احساس دلا سکیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اسلامک اسٹڈیز اینڈ سوشل سائنسز کے تحت ہم عصر مذاہب بھی پڑھائے جائیں۔ کونسلنگ کے لیے مینٹل ہیلتھ سینٹر قائم کرنے کا ارادہ ہے، کریئر کونسلنگ سینٹر بھی ہم قائم کریں گے۔
آپ نے بڑا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ کیا ہمدرد کے پاس اتنی رقم ہے؟
جامعہ ہمدرد کے شعبۂ فنانس میں میں نے 7 مہینے تک کام کیا ہے۔ درس و تدریس کے ساتھ یہ اندازہ اچھی طرح ہے کہ جامعہ کو اقتصادی طور پر مستحکم بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ہم پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بڑے کام کرنا چاہتے ہیں۔
طاقتور ملکوں نے اسپیس سائنس پر بڑا زور دے رکھا ہے، اس میں اسکوپ بہت ہے، اسپیس سائنس کے میدان میں جامعہ ہمدرد کہاں ہے؟
اسپیس سائنس کا شعبہ قائم کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے موٹی رقم کی ضرورت ہے مگر اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم آرٹی فیشیل انٹلی جنس میں روبوٹک سائنس پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس کے لیے دو روبوٹ بھی منگوا رہے ہیں۔ روبوٹک سائنس پڑھانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلبا و طالبات روبوٹ کے بارے میں جان سکیں گے، روبوٹ بنانا سیکھ سکیں گے۔ اس سلسلے کی تیاری آرٹی فیشیل انٹلی جنس کے میدان میں ان کی بہتر کارکردگی میں معاون بنے گی تو اسپیس سائنس میں روبوٹ کے استعمال پر بھی وہ صلاحیتیں صرف کر سکیں گے۔ ان کے لیے اِسرو اور ناسا تک رسائی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ حالات کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے کم بجٹ میں طلبا کو زیادہ کارآمد ٹیکنالوجی دینے کے مدنظر ہی ہم آرٹی فیشیل انٹلی جنس میں روبوٹک سائنس کا شعبہ شروع کر رہے ہیں۔
جامعہ ہمدرد ہندوستان کا ایک اہم ادارہ ہے لیکن یہ اہم کیوں ہے؟
جامعہ ہمدرد میں 95 فیصد پروفیشنل کورسز ہیں۔ شروع سے ہی اس ادارے نے نئی ضرورتوں کے مطابق کورسز متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے معیاری تعلیم فراہم کرانے پر توجہ دی ہے۔ کیمپس سلیکشن کے معاملے میں بھی جامعہ ہمدرد کی اپنی شناخت ہے۔
کورونا کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی اقتصادی حالت خستہ ہوئی ہے۔ ضرورتمند طلبا و طالبات کی مدد کے لیے جامعہ نے کیا پہل کی ہے؟
ضرورتمند طلبا و طالبات کی مدد کے لیے ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن نے 30 لاکھ روپے دیے ہیں تو جامعہ ہمدرد کے اساتذہ نے 20 لاکھ روپے دیے ہیں۔ وہ طلبا و طالبات جن کے والدین کی سالانہ تنخواہ 3 لاکھ روپے نہ ہو اور گھر میں کورونا کی وجہ سے کسی کی موت ہوئی ہو تو انہیں فیس میں 25 سے 50 فیصد تک کی چھوٹ دی گئی ہے۔
جامعہ ہمدرد کے حوالے سے ایک لائن میں اگر آپ سے اپنا منصوبہ بتانے کے لیے کہا جائے تو کیا کہیں گے؟
منصوبہ یہ ہے کہ کسی لون میں نہ پڑیں، حکومت سے زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کریں، فنڈ بڑھائیں، جامعہ ہمدرد کو مزید مستحکم بنائیں، جہاں ممکن ہو وہاں فیس کم کریں اور غریب طلبا و طالبات کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائیں۔