امریکہ ایران اور اسرائیل کے مابین بھڑکتی جنگی آگ میں اب صرف بارود ہی نہیں جل رہا بلکہ ایندھن کے تیل کے ذخائر بھی بھسم ہونے لگے ہیں اور اس کی لپیٹ میں عوام الناس کی جیبیں اور معیشتیں بھی آچکی ہیں۔گزشتہ روز دہشت گرد ریاست اسرئیل کی انسانیت دشمن پالیسی کا ساتھ دیتے ہوئے امریکی افواج نے اپنے امن دشمن صدرڈونالڈ ٹرمپ کے حکم پر بلاجواز جارحیت کا ارتکاب کیا اور ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے نہ صرف خطے کے سیاسی توازن کو چیلنج کیا بلکہ دنیا کو ایک نئے بحران کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔
ایران نے گو بظاہر بڑے نقصان سے انکار کیاہے مگر تہران کا غیظ و غضب آشکار ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ کی جانب سے بجاطور پر آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی منظوری اور سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کی حتمی مہر کے منتظر اقدام نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ ایشیا، یوروپ اور دنیا کے دیگر خطوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ آبنائے ہرمز کی تنگ مگر فیصلہ کن گزرگاہ جو دنیا کے بیس فیصد سے زائد تیل کی نقل و حمل کی شاہراہ ہے،کے بند ہونے کا مطلب صرف بندرگاہوں پر جہازوں کا رک جانا نہیں بلکہ عالمی معیشت کی شہ رگ کا کٹ جانا ہے۔ آبنائے ہرمز ایک ایسا تنگ سمندری راستہ ہے جس کے ذریعے ہر روز تقریباً 20 ملین بیرل تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ یعنی دنیا کے کل سمندری تیل کے بہائو کا تقریباً ایک چوتھائی اور تیل و گیس کی کھپت کا پانچواں حصہ اسی راستے سے گزرتا ہے۔ یہاں سے گزرنے والے زیادہ تر جہاز سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، عراق اور کویت کا تیل لے کر ایشیا، یوروپ اور امریکہ کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ راستہ بند ہوا تو صرف مشرق وسطیٰ نہیں پوری دنیا کی معیشت ہانپنے لگے گی۔
آبنائے ہرمز کو بند کرنے یا اس میں خلل ڈالنے کے اقدامات میں سمندر میں بارودی سرنگیں بچھانا، گزرنے والے جہازوں پر میزائل یا فضائی حملے کرنا، بحری جہازوں کو روکنا یا ان پر سائبر حملے کرنا شامل ہوتا ہے۔ تاہم، ایران نے کبھی کسی جنگ یا تنازع کے دوران اس آبنائے کو مکمل طور پر بند نہیں کیا۔ 1980 کی دہائی میں ایران – عراق جنگ کے دوران دونوں ملکوں نے آبنائے سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر حملے ضرور کیے مگر بحری گزرگاہ کو بند کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
تاہم اس بار ابھی ایران نے صرف عندیہ دیا ہے اور عالمی منڈی کانپ گئی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اچانک 2 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ امریکی خام تیل 2.8 فیصد کی جست کے ساتھ 75.98 ڈالر فی بیرل ہوچکا ہے، جبکہ برینٹ 79.12 ڈالر فی بیرل پر پہنچ چکا ہے۔ اس کا اثر ایشیائی یوروپی اور امریکی اسٹاک مارکیٹس پر برق رفتاری سے پڑا ہے۔ نکی (Nikkei) انڈیکس 0.6فیصد نیچے، سیول 1.4فیصد منفی، ہندوستان کا سینسیکس 751 پوائنٹس گر چکا ہے اور نفٹی بھی 223 پوائنٹس نیچے آ چکی ہے۔ سرمایہ داروں کیلئے یہ گراف کی حرکت ہے لیکن عام لوگوں کیلئے یہ ان کے ماہانہ بجٹ کا جنازہ ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندوستان اس بحران میں کہاں کھڑا ہے؟ تو اس کا جواب نہایت پریشان کن ہے۔ ہندوستان دنیا کے سب سے بڑے تیل درآمد کنندہ ممالک میں شامل ہے اور اس کی تیل کی کھپت کا بڑا حصہ آبنائے ہرمز کے راستے آتا ہے۔ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (EIA) کے مطابق 2024 میں آبنائے ہرمز سے گزرنے والے خام تیل کا 69 فیصد حصہ چین، ہندوستان، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ایشیائی ممالک کو گیا ہے اور ان میں ہندوستان ایک بڑا صارف ہے۔
ہندوستان توویسے روس، امریکہ، افریقہ اور لاطینی امریکہ سے بھی تیل خریدتا ہے لیکن ان متبادل ذرائع کی ترسیل، قیمت اور بھروسہ وہ نہیں جو خلیجی خطے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور جب ایک طرف تیل مہنگا ہو اور دوسری طرف روپے کی قدر کمزور ہو تو مہنگائی کا طوفان ہر دروازے پر دستک دینے لگتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا، بسوں، ٹرینوں، ہوائی جہازوں کے کرایے، بجلی کے بل، صنعتی پیداوارسب پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
ہندوستان کو اب دوہرے چیلنج کا سامنا ہے، ایک طرف عالمی سیاست کا بھنور ہے، دوسری طرف عوام کی روزمرہ زندگی کا بحران ہے۔ ایسے میں حکومت ہند کو محض مذمت یا تشویش کے اظہار سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ توانائی کی پالیسی پر ازسرنو غور، اسٹرٹیجک آئل ذخائر کی توسیع، متبادل تجارتی راستوں کی تلاش اور خلیجی ممالک کے ساتھ متوازن سفارت کاری یہ سب اقدامات وقت کی پکار ہیں۔
کیونکہ اگر یہ بحران مزید شدت اختیار کرتا ہے تو صرف بیلنس شیٹس نہیں گریں گی، بلکہ ہندوستانی معیشت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ یہ صرف ایک تاجر، ایک سرمایہ دار یا ایک حکومت کا مسئلہ نہیں ہو گا، یہ ہر اس شخص کا المیہ ہوگا جو صبح کی پہلی روشنی میں روزگار کی تلاش میں نکلتا ہے اور شام کو بچوں کیلئے دودھ خریدنے کی تگ و دو میں اپنی عزت نفس گروی رکھ دیتا ہے۔
لہٰذااگر آبنائے ہرمز بند ہوئی تو صرف تیل کے جہاز نہیں رکیں گے، انسانیت کی روانی بھی تھم جائے گی اور یہ رکائو انسانیت کا سب سے بڑا سانحہ بن سکتا ہے۔
edit2sahara@gmail.com