اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کساد بازاری کا اشارہ نہیں: ستیش سنگھ

0

ستیش سنگھ

بجٹ ہفتہ کے پہلے دن یعنی27جنوری کو اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کو9.5لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ گزشتہ چند دنوں سے سرمایہ کاروں کو اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل نقصان ہورہا ہے۔ تاہم، اس وجہ سے ملک میں کساد بازاری کی آہٹ قطعی نہیں ہے۔ اس کی اہم وجوہات امریکی سینٹرل بینک کی جانب سے ہندوستان میں بجٹ پیش کرنے سے قبل پالیسی فیصلوں کا اعلان کرنے کا امکان، چین کے آرٹی فیشیل انٹلیجنس اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک ماڈل کی مقبولیت میں اضافہ، ہندوستانی کمپنیوں کے دسمبر سہ ماہی کے نتائج توقعات کے مطابق نہ ہونا وغیرہ ہیں۔ درحقیقت جیو پولیٹیکل بحران، بحیرہ احمر میں حوثی باغیوں کی موجودگی وغیرہ کی وجہ سے ہندوستان کی امپورٹ، ایکسپورٹ اور سپلائی چین منفی طور پر متاثر ہورہی ہیں اور اقتصادی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے کمپنیوں کے سہ ماہی منافع میں کمی ہو رہی ہے۔

قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) نے 7جنوری 2025کو مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کا مالی سال 2024-25کے لیے پہلا پیشگی تخمینہ جاری کیا اور اس مدت کے دوران حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو6.4فیصد رہنے کے اندازہ کا اظہار کیا گیا ہے، جوگزشتہ مالی سال کے دوران 8.2فیصد تھا۔ وہیں، ریزرو بینک آف انڈیا نے مالی سال 2024-25 کے دوران حقیقی جی ڈی پی کے6.6فیصد کی شرح سے آگے بڑھنے کا تخمینہ لگایا ہے۔این ایس اوکے مطابق، مالی سال 2024-25 کے دوران برائے نام جی ڈی پی9.7فیصد کی شرح سے آگے بڑھ سکتی ہے، لیکن ہندوستان میں جی ڈی پی کیلکولیشن اور اکاؤنٹنگ حقیقی جی ڈی پی کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ ہندوستان کی معیشت بنیادی طور پر کھپت پر مبنی ہے، لیکن گزشتہ چند مہینوں میں کھپت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ کسی کی قوت خرید کا تعین کرنے میں افراط زراہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بڑھنے پر اشیا اور خدمات دونوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے،جس کی وجہ سے انسان کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور اشیا اور خدمات کی مانگ کم ہو جاتی ہے۔ پھر ان کی فروخت کم ہوتی ہے، ان کی پیداوار میں کمی آتی ہے، کمپنی کو نقصان ہوتا ہے، کارکنوں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے، روزگار میں کمی آتی ہے وغیرہ۔

ریپو ریٹ فروری 2023 سے 6.5 فیصد کی سطح پر برقرار ہے، جس کی وجہ سے قرض کی شرح بھی بلند ہے۔ 15نومبر2024تک قرض کی وصولی کم ہو کر11.1فیصد رہ گئی، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں20.6فیصد تھی۔ اس عرصہ کے دوران ڈپازٹ کی شرح نمو میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور اس کی اوسط شرح نمو مارچ سے محض6.7فیصد ہے۔

بینک ڈپازٹس میں آئی کمی کی تلافی کے لیے بینک سرکاری بانڈس کو میچورٹی تاریخ سے پہلے کیش کررہے ہیں۔ سرمائے کی کمی کی وجہ سے قرض لینے میں بھی نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ بینکوں کو سرمائے کی کمی کی وجہ سے قرض دینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ بینکوں کے قرض کی شرح بلند سطح پر برقرار ہے اورمہنگی شرح پر قرض ملنے کی وجہ سے قرضوں کا حصول کم ہے۔ کمپنیوں کے پاس سرمائے کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ پوری صلاحیت سے پیداوار نہیں کر پا رہی ہیں۔ اس وقت مہنگائی کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی درج کی گئی ہے۔ اگرچہ مالی سال 2025 اور مالی سال 2026 میں افراط زرکی ریزرو بینک آف انڈیا کی طرف سے متعین کردہ برداشت کی حد کے اندر رہنے کی توقع ہے، لیکن اس کے بہت سے منفی اثرات کے پیش نظر مانیٹری پالیسی کمیٹی(MPC) اور سینٹرل بینک،ریپو ریٹ میں کمی کرنے سے گریزاں ہیں۔
اگر ہم عالمی معیشت کی شرح نمو سے ہندوستانی معیشت کاموازنہ کریں تو ہماری معیشت عالمی سطح سے بہت اوپر ہے۔ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کے مطابق 2024میں عالمی جی ڈی پی کی شرح نمو3.2فیصد رہی اور 2025 میں 3.3فیصد رہنے کی توقع ہے، جب کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے مطابق عالمی معیشت 2024 میں3.1فیصد اور2025 میں3.2فیصدکی شرح سے آگے بڑھ سکتی ہے۔رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں چین کی جی ڈی پی کی شرح نمو 4.6فیصد رہی جب کہ جاپان میں یہ شرح نمو 0.9 فیصد رہی۔ آئی ایم ایف کے مطابق انگلینڈ میں شرح نمو مالی سال 2024 میں 1.1 فیصد اور مالی سال 2025 میں 1.5فیصد رہنے کا اندازہ ہے، وہیں جرمنی میں مالی سال 2024 میں شرح نمو کے منفی0.1فیصد اور مالی سال 2025میں 0.7فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ سے بھی ہندوستانی معیشت بہتر حالت میں ہے اور آنے والے سالوں میں بھی اس کے مضبوط رہنے کی امید ہے۔ مالی سال 2024 کے دوران امریکہ میں شرح نمو 2.7 فیصد اور مالی سال 2025 میں 2.0فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔

مالی سال 2024-25 کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو6.7فیصد رہنے اور دوسری سہ ماہی میں5.4 فیصد رہنے کے بعد، کچھ ماہرین اقتصادیات اور کچھ ملکی اور عالمی ایجنسیاں ہندوستانی معیشت کے کساد بازاری کی گرفت میں آنے کی بات کر رہے ہیں، لیکن کساد بازاری کی تعریف کے مطابق جب کسی ملک کی شرح نمو سست ہونے لگتی ہے، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور مہنگائی کی شرح بلند رہتی ہے تو وہ ملک کساد بازاری کی گرفت میں آجاتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کی جی ڈی پی میں اگر دو سہ ماہیوں میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جاتی ہے تو بھی وہ ملک کساد بازاری کی زد میں آجاتا ہے۔
اس تناظر میں کساد بازاری کے آثارہندوستان معیشت میں نظر آرہے ہیں یا نہیں کی گہرائی سے چھان بین کرنے کی ضرورت ہے۔ جلدبازی میں یہ کہنا کہ ہندوستانی معیشت کساد بازاری کا شکار ہونے والی ہے، غلط ہوگا۔ آن لائن پورٹل ٹریڈنگ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں نومبر 2024 میںبے روزگاری کی شرح گھٹ کر 8 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی، جو اکتوبر کے مہینے میں8.70فیصد کی سطح پر تھی۔

سال 2018 سے2024تک بے روزگاری کی اوسط شرح8.17فیصد رہی۔ تاہم کورونا وبا کے دوران اپریل 2020میں بے روزگاری کی شرح23.50فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی اور سب سے کم ستمبر2022 میں 6.40فیصد کی سطح پر رہی تھی۔ اس وقت مہنگائی کی وجہ سے نہ کوئی کمپنی بند ہوئی ہے اور نہ ہی ورکرس کی چھٹنی کی گئی ہے۔ بلاشبہ، رواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہوکر 6.4 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے، لیکن گزشتہ2سہ ماہیوں میں جی ڈی پی میں کوئی گراوٹ درج نہیں ہوئی ہے۔ مالی سال 2024-25 کی پہلی سہ ماہی میں یہ 6.7 فیصد اور دوسری سہ ماہی میں5.4فیصد رہی ہے، لیکن مالی سال2023-24 کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو 8.2 فیصد رہی تھی۔

اس وقت معاشی سرگرمیوں میں سست روی کی ایک بڑی وجہ مہنگائی ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے پیسے ڈوبنے کی دوسری وجوہات ہیں۔ریپو ریٹ میں ایک طویل عرصے سے کمی نہیں کی گئی ہے لیکن ریزرو بینک کے گورنر کی تبدیلی کے بعد آئندہ مالیاتی جائزے میں ریپو ریٹ میں کمی کا امکان ہے۔ اس کے بعد قرض لینے اور معاشی سرگرمیاں دونوں میں تیزی آئے گی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی جی ڈی پی شرح نمو دنیا کے بڑے ممالک اور اوسط عالمی شرح نمو سے زیادہ ہے۔ اس لیے یہ کہنا منطقی نہیں ہو گا کہ ہندوستانی معیشت کساد بازاری کی زد میں آنے والی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS