ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی تیسری بار مغربی بنگال کی کمان سنبھالتے ہی ایکشن میں آگئی ہیں۔ اپنی اس تیسری مدت کار کاآغاز انہوں نے تین اہم فیصلوں سے کیا ہے۔مغربی بنگال پر ان فیصلوں کے دوررس اثرات پڑنے ہیں۔ حلف برداری کے فوراً بعد انہوں نے لاء اینڈآرڈر کی بہتری کیلئے اپنی پرانی ٹیم کو پھر سے بحال کر دیا ہے۔الیکشن کمیشن نے انتخاب کے دوران ریاستی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل برندر اور لاء اینڈ آرڈر کے ڈائریکٹر جنرل جاوید شمیم کو بھی ان کے عہدہ سے ہٹاکر بوجوہ مختلف غیر اہم جگہوں پرتعینات کردیا تھا۔
دوسرا اہم فیصلہ کورونا گائیڈ لائن کے تحت پابندیوں کو مزید سخت کرنا ہے۔ اس فیصلے کے تحت جہاں ریاست بھر میں لوکل ٹرینوں پر پابندی لگادی ہے، وہیں کاروباری اوقات اور ٹرانسپورٹ خدمات کو بھی انتہائی محدود کرکے کورونا انفیکشن کے دائرہ کو توڑنے کی سمت سخت قدم اٹھایا ہے۔ تیسرا فیصلہ ریاست میں تشدد کے بڑھتے واقعات پر قابو پانے کیلئے سخت ترین اقدامات کاہے۔
ممتابنرجی کے یہ فیصلے بظاہر معمول کے انتظامی امور سے متعلق ہیں لیکن مغربی بنگال کے موجودہ پس منظر میں دیکھا جائے توان فیصلوں کے دور رس اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔ ترنمول کانگریس کی تاریخی کامیابی کے بعد جس طرح سے ریاست میں تشدد کے واقعات کے الزامات لگنے لگے ہیں، اس میں یہ ضروری تھا کہ ممتابنرجی ان سے نمٹنے کیلئے قابل اعتما د افسران کو اس کی ذمہ داری دیتیں۔ ریاست میں لاء اینڈآرڈر کو بہتر رکھنے کیلئے ریاستی حکومت نے جن افسران پر اعتماد کیاتھا، ان افسران کو الیکشن کمیشن نے انتخاب کے دوران ان کے عہدوں سے ہٹاکرا ن کی جگہ غیر تجربہ کارا فسران کو مامور کردیا۔ یہ افسران ریاست میں تشدد اور مار پیٹ کے واقعات سے نمٹنے میں نااہل ثابت ہوئے اور انتخابی نتائج آنے کے بعد بھی تشدد کا یہ سلسلہ تھما نہیں اور کئی سیاسی کارکن ہلاک ہوگئے۔
حالانکہ ان واقعات کیلئے کسی ایک پارٹی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے کیوں کہ اس تشدد میں بی جے پی اور ترنمول دونوں ہی پارٹیوں کے کارکنوں کی اموات ہوئیںاور ناتجربہ کار افسران کی نااہلی کاخمیازہ ممتابنرجی کو ریاست کی بدنامی کی شکل میں جھیلنا پڑرہاہے۔ یہ صحیح ہے کہ سیاسی تشدد کیلئے سیاسی پارٹیاں ذمہ دارہوتی ہیں۔ترنمول کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کو بھی سیاسی تشدد کے خلاف اپنے کارکنوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی تب ہی اس پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ مگراس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ ہونے کی حیثیت سے ریاست میں تشدد کے اس دور کو روکنے کی بنیادی ذمہ داری ممتابنرجی پر عائد ہوتی ہے۔ ممتابنرجی نے اس ذمہ داری سے نمٹنے کیلئے قابل افسران کو نازک ذمہ داریاں دے کراپنا کام بھی شروع کردیا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں سخت پیغام دیا ہے کہ تشدد کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیاجائے گا۔
عہدہ سنبھالتے ہی کورونا انفیکشن روکنے کا بھاری چیلنج بھی ممتابنرجی کے سامنے ہے۔فروری میں جب اسمبلی انتخاب کا اعلان ہواتھا تو اس وقت ریاست میں روزانہ200ہی کیس آرہے تھے مگراسمبلی انتخاب کے بعد سے مغربی بنگال میں کورونا کا انفیکشن کافی تیزی سے پھیلا ہے اور روزانہ 17-18ہزار نئے معاملات سامنے آرہے ہیں، اسی طرح روزانہ100سے زائد ہلاکتیں ہورہی ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مغربی بنگال میں کورونا انفیکشن پھیلانے میں انتخاب کے دوران باہر سے آنے والے لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کی فوج کا بڑا ہاتھ ہے۔اب اس انفیکشن کا دائرہ توڑنا اور لوگوں کو اس کے شر سے بچانا ممتابنرجی کابنیادی کام بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حلف برداری کے فوراً بعد ممتابنرجی نے جہاں کورونا سے متعلق پابندیاں سخت کی ہیں، وہیں وزیراعظم کو خط لکھ کر کورونا کے علاج میں کام آنے والی لازمی ادویات ، آکسیجن ا ور خاطر خواہ تعداد میں ویکسین کا مطالبہ کیا ہے۔بنگال میں کورو نا مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے آکسیجن کی کھپت بھی 220 میگا ٹن سے بڑھ کر500میگاٹن ہوگئی ہے، اس لیے ریاست کو اس کی ضرورت کے مطابق آکسیجن فراہم ہونا لازمی ہوگیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ممتابنرجی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضرورت کی تکمیل کیلئے متعلقہ مرکزی حکام سے بات کریں اور انہوں نے بلاشبہ پہلے دن سے ہی اس پر کام شروع کردیا ہے۔ مغربی بنگال میں تشدد روکنے اور انفیکشن کا دائرہ توڑنے میں ممتا بنرجی اگر کامیاب ہوجاتی ہیں تو ایک بار پھر پورے ملک میں ان کی انتظامی اہلیت کا ڈنکا بج جائے گا۔امید ہے کہ ممتابنرجی کے یہ فیصلے بارآور ہوں گے اورمغربی بنگال کو تشدد اور کورونا انفیکشن کے عذاب سے جلد ہی نجات مل جائے گی۔
[email protected]
ممتابنرجی کے اقدامات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS