نئی قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کی صورتحال : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

مرکزی حکومت نے 29جولائی 2020 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے کئی ساری اصلاحات اسکولی تعلیم، اعلیٰ تعلیم اور تکنیکی تعلیم کیلئے پیش کی گئیں اور اس کے ذریعے مختلف ایکشن پلان کو نافذ کرنے کیلئے تجاویز بھی پیش کی گئیں۔ نئی تعلیمی پالیسی کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ اسکولی تعلیم کو یعنی پری پرائمری سے لے کر 12ویں درجہ تک ہر کسی کو اس کی رسائی کو یقینی بنانا تھا۔ مزید نئی تعلیمی پالیسی نے اس بات پر زور دیا کہ ابتدائی بچپن کی دیکھ بھال کے معیار کو یقینی بنایا جائے اور 3-6سال کے تمام بچوں کو معیاری تعلیم مہیا کرائی جائے۔ اس کے علاوہ قومی تعلیمی پالیسی نے یہ سفارش کی تھی کہ تدریس کے ڈھانچے میں اصلاح کی ضرورت ہے اور اب تدریس کے ڈھانچے میں درجات کو5+3+3+4 کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ5تک کی تعلیم کو بنیادی اسٹیج کے تحت رکھا جائے گا جس میں پری اسکول، آنگن واڑی یا بال واٹیکا کلاسز جو کہ درجہ1-2تک آتے ہیں، شامل کیا گیا ہے ،اسی طرح سے درجہ3-5تک کی تعلیم کو تیاری کی اسٹیج کے تحت رکھا گیا ہے۔ درجہ6-8تک کی تعلیم کو مڈل اسٹیج کے تحت رکھا جائے گا اور درجہ9-12تک کی تعلیم کو سیکنڈری اسٹیج کے تحت رکھا گیا ہے۔

اس پالیسی کے تحت ایک اور خاص بات کی تجویز کی گئی ہے کہ اب تعلیم کے شعبے میں سائنس اور آرٹس کے موضوعات کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں رکھا جائے گا اور اسی طرح سے پیشہ ورانہ اور اکیڈمک موضوعات کے درمیان غیر نصابی سرگرمیوں کے درمیان زیادہ تفریق نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک ادارہ کا قیام کیا جائے گا جس کے تحت بنیادی خواندگی اور اعدادوشمار یا ریاضی سے متعلق ایک مشن کام کرے گا۔ قومی تعلیمی پالیسی نے علاقائی زبانوں اور کثیر لسانی تعلیم کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے اور تعلیم درجہ8تک اور اس سے آگے علاقائی اور مادری زبان میں دی جائے گی۔ امتحانات کو منعقد کرنے کیلئے بھی کچھ اصلاحات پیش کی گئی ہیں جیسے کہ بورڈ کے امتحانات اب دو بار منعقد کرائے جائیں گے، پہلا امتحان جو کہ اہم امتحان (Main Examination) کے طور پر سمجھا جائے گا، وہیں دوسرے امتحان کو بہتری (Improvement) کا امتحان مانا جائے گا۔ تعلیم کے معیار کا جائزہ لینے کیلئے ایک قومی جائزہ مرکز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ اس جائزہ کا نام پرکھ(Performance Assessment, Review And Analysis of Knowledge for Holistic Development)ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی میں سماجی اور معاشی طور پر محروم طبقات کے لوگوں کی تعلیم میں شمولیت اور یکساں مواقع فراہم کرنے پر زور دیا ہے۔ اسی طرح سے لڑکیوں کی تعلیم میں شمولیت کیلئے ایک اسپیشل تعلیمی زون کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس زون میں محروم طبقات کے لوگ بھی شامل ہوں گے۔

اعلیٰ تعلیم کے تحت مختلف طرح کی اصلاحات کی بات کی گئی ہیں جس میں اعلیٰ تعلیم میں بچوں کے داخلے کی شرح کو مزید بڑھایا جائے گا اور2035تک یہ شرح50فیصد ہوگی۔ گریجویشن کی تعلیم کی میعاد کو3سال سے بڑھا کر 4سال کردیا گیا ہے۔ نوجوانوں اور بالغ لوگوں میں خواندگی کی شرح کو 100 فیصد حاصل کیا جائے گا۔ قومی ریسرچ سینٹر کا قیام اور اس کے علاوہ تعلیم کو بین الاقوامی سطح کے معیار پر لایا جائے گا یا بیرون ممالک کی یونیورسٹیز ہندوستان میں اپنا کیمپس کھولیں گی۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے شعبے میں عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے مل کر کام کریں گی اور جلد ازجلد اس کو جی ڈی پی کے6فیصد تک حاصل کیا جائے گا۔

آئین کے مطابق تعلیم کو متوازی لسٹ (Concurrent List) کے تحت رکھا گیا ہے جہاں مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر تعلیم کو فروغ دینے کی مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کچھ صوبائی حکومتیں جیسے کہ کیرالہ، تمل ناڈو اور مغربی بنگال نے نئی تعلیمی پالیسی کو پوری طرح سے نافذ کرنے سے انکارکردیا ہے، اس سلسلے میں مرکز کے ذریعے نافذ کی جارہی اسکیم پی ایم شری اسکول کا معاہدہ ان صوبوں کے ساتھ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے کیونکہ اس اسکیم کو حاصل کرنے کیلئے نئی تعلیمی پالیسی کی ہر تجویز کو عمل میں لانا ہوگا۔ تمل ناڈو نے سہ لسانی فارمولا اور گریجویشن کے چار سال کے کورس کو نافذ کرنے سے منع کردیا ہے۔ مرکزی حکومت نے سمگر شکشا ابھیان کے فنڈز کو ان صوبائی حکومتوں کو ابھی تک جاری نہیں کیا ہے۔ مرکزی حکومت کے مطابق سمگر شکشا کا فنڈ تبھی جاری کیا جائے گا جب یہ حکومتیں نئی تعلیمی پالیسی کو اپنے یہاں پوری طرح سے نافذ کریں گی۔

اس مسئلے کو لے کر تمل ناڈو حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے کہ مرکزی حکومت نے سمگر شکشا کے تحت بجٹ کو ابھی تک جاری کیوں نہیں کیا ہے۔ کرناٹک حکومت نے صوبائی سطح پر خود ہی ایک تعلیمی پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے اور یہ کام تیزی سے چل رہا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق تمام اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کے علاوہ ناشتہ بھی مہیا کرانا تھا لیکن وزارت خزانہ نے اس سفارش کو2021میں ٹھکرا دیا تھا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ڈھانچے میں بدلاؤ کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ اساتذہ کی تعلیم سے متعلق اصلاح اور بہتری کی تجویز پر عمل نہیں کیا جاسکا ہے جبکہ اس تجویز کا نفاذ 2021 میں ہوجانا چاہیے تھا۔ جہاں تک اسکولوں میں سہ لسانی فارمولے کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پیش رفت ضرور ہوئی ہے لیکن کئی ساری علاقائی حکومتوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے یہاں ہندی کا نفاذ نہیں کریں گی۔ بورڈ امتحانات سے متعلق تجاویز، مادری زبان میں تعلیم، چار سالہ گریجویشن کی ڈگری اور تعلیم کے تجزیہ سے متعلق سفارشات کو نافذ کرنے کی سمت میں ابھی کوششیں جاری ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بین الاقوامی یونیورسٹیز کے کیمپس اندرونی اور بیرون ملک کھولنے کے بارے میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے جیسے کہ آئی آئی ٹی مدراس، آئی آئی ٹی دہلی اور آئی ایم احمد آباد نے زنجبار، ابوظہبی اور دبئی میں اپنے بین الاقوامی کیمپس کھو لنے کی شروعات کی ہے۔ اسی طرح سے گجرات میں یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کا کیمپس کھولا گیا ہے اور حکومت کے مطابق 12 اور بین الاقوامی یونیورسٹیاں ہندوستان میں اپنا کیمپس کھولنے کی تیاری کررہی ہیں۔ یونیورسٹی داخلے کے معاملے میں قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق سی یو ای ٹی کی شروعات کی جاچکی ہے اور تمام مرکزی یونیورسٹیوں کے لیے مشترکہ طور پر ٹیسٹ منعقد کئے جارہے ہیں۔ نپن بھارت کے ذریعے 2021 سے بنیادی صلاحیت سے متعلق تعلیم کے معاملے میں کچھ کوششیں کی گئی ہیں اور اس کے تحت ہر ایک بچے کے اندر پڑھنے اور ریاضی کو درجہ3تک عمل کرنے کے بارے میں زور دیا گیا ہے، اس کے لیے زبان سمجھنے کے معاملے میں 64فیصد اور ریاضی سمجھنے کے معاملے میں60فیصد اسکور حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے حالانکہ حکومت ابھی بھی اس ہدف کو حاصل کرنے میں بہت پیچھے ہے۔

بچوں کی ابتدائی تعلیم کو فروغ دینے سے متعلق کوششوں میں این سی آر ٹی کے ذریعے تیار کیا گیا جادوئی پٹارہ لرننگ کٹ کا استعمال کیا جارہا ہے لیکن ابتدائی تعلیم کے ہدف کو حاصل کرنے میں حکومت ابھی بھی کافی پیچھے ہے کیونکہ آنگن واڑی سینٹر میں موجودہ وقت بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ اس وقت مرکزی حکومت کا زیادہ زور اسکولوں کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کرنا ہے جس سے کہ تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات اور اقتصادیات کے نصاب تعلیم کو پوری طرح سے بدل دیا جائے اور یہ نصابِ تعلیم پوری طرح سے آر ایس ایس کے آئیڈیولوجی کے مطابق ہو۔ نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کیلئے جی ڈی پی کا6فیصد بجٹ مہیا کرانا تھا مگر حکومت ابھی تک3فیصد بجٹ ہی مہیا کراسکی ہے اور اعلیٰ تعلیم میں داخلے کی شرح کو بھی ہدف کے مطابق حاصل نہیں کیا جاسکا ہے۔ اوپر کے تجزیہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تعلیم حکومت کی پالیسی ترجیحات میں سب سے پیچھے ہے۔

(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کے ڈائریکٹر ہیں )
jawedalamk@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS