محمد فاروق اعظمی
نظام عدل کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف قانون کی حکمرانی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ نظام کسی بھی ملک کی بنیادی عمارت کی مانند ہے، جو اس کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کا اہم حصہ ہوتا ہے۔نظام عدل ہی عوامی حقوق کی حفاظت، انصاف کی فراہمی اور معاشرتی امن کی ضمانت دیتا ہے۔ ایک مؤثر اور بے عیب نظام عدل نہ صرف افراد کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے بلکہ معاشرتی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کا بھی باعث بنتا ہے، لیکن یہ مؤثر نظام عدل اس وقت ہی کام کرتا ہے جب اس میں شفافیت،غیر جانبداری اور رسائی جیسے بنیادی عناصر شامل ہوں۔ لیکن ہندوستان کی بدقسمتی ہے کہ نظام عدل کے یہ بنیادی عناصر دھیرے دھیرے کھوکھلے ہورہے ہیں۔ اب عدلیہ سیاست کا ایک حصہ بن چکی ہے۔تیز رفتار انصاف تو خیر سے عنقا ہوچکا ہے، اب تو منصفان کرام کے نہ صرف فیصلوں میں شفافیت اور غیر جانبداری کا فقدان محسوس ہونے لگا ہے بلکہ کھلی جانبداری اورسیاسی دبائو کا عمل دخل ہوگیا ہے۔اس سے بڑھ کر یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلے سیدھے سیدھے سیاسی حکمرانوں کے قول کا مسودہ بن چکے ہیں۔ عدلیہ کے مقدس قلم سے وہی فیصلے نکلتے ہیں جس کی جانب سیاسی حکمراں اشارے کرتے ہیںاورسائل یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:
قاضی شہر کا ماتھا چوموں
جس کے قلم میں ہے زہر ہلاہل
اس کے عوض عدلیہ کو تو طوق رسوائی ملتی ہے لیکن منصفان عظام مسند نشیں ہوجاتے ہیں۔ عدلیہ کے قباپوش جج صاحبان کے سینہ کا بند اس حد تک کھل چکا ہے اور اب وہ سیاست کے مختلف کھیلوں کو بھی حصار عدل میں لے رہے ہیں۔
ان دنوں ہندوستان کی سیاست کو علامتوں کا کھیل کافی مرغوب ہے۔ کہیں علامتیں مٹائی جارہی ہیںتو کہیں نئی علامتیں نقش کی جارہی ہیں۔اس نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوستان کی مقدس عدلیہ نے گزشہ دنوں انصاف کی دیوی کے مجسمے میں کئی تبدیلیاں کرڈالی ہیں۔ پرانے مجسمہ کو نئی تجسیم عطا کی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی لائبریری میں گزشتہ دنوں انصاف کی دیوی کا نیا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ یہ نیا مجسمہ منصف اعظم کے حکم پر بنایا گیا ہے جس میں کئی تبدیلیاں ہیں۔اس میں پرانے مجسمے سے مختلف ملبوسات اور علامتیں ہیں۔پرانے سفید مجسمے کی آنکھوں پر لگی پٹی ہٹا دی گئی ہے اوراس کا لباس ہندوستانی بنا دیا گیا ہے۔ہاتھ میں تلوار کے بجائے آئین کی کتاب تھمائی گئی ہے،اس کا فائدہ یہ بتایاگیا ہے کہ اس تبدیلی کے ذریعے لوگوں میں یہ پیغام پہنچے گا کہ قانون اندھا نہیں ہوتا۔اس سے نظام عدل بے عیب اور مکمل طور پر منظم ہوجائے گا۔
یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، ممکن ہے بعضوں کے نزدیک یہ مثبت ہو لیکن یہ اپنے آپ میں اس تبدیلی کا تسلسل ہے جو حکومت اور سیاست کی سطح پر گزشتہ دس برسوں سے ہورہا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بابری مسجد کو شہید کرکے رام مندر بنادیاگیا، الٰہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کردیاگیا، جموں وکشمیر کو سہ لخت کرکے وہاں سے دفعہ370 کو ختم کردیاگیا، ریاست کی حیثیت تبدیل کرکے مرکز کے زیرا نتظام علاقہ بنادیاگیا، انڈیا گیٹ پر نیتا جی کا مجسمہ لگایاگیا، نہرو میوزیم کو پی ایم میوزیم میں تبدیل کردیاگیا،درجنوں قوانین بدل ڈالے گئے، تعزیرات ہند اور فوجداری قانون کو ہٹاکر جسٹس کوڈ و دیگر لائے گئے، نئی پارلیمنٹ میں سینگولی یعنی ’راجہ کا ڈنڈا‘ نصب کیاگیا، وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک عدل و انصاف کا تعلق ہے یہ مسلمہ ہے کہ اس کا اصول سب کیلئے یکساں ہوناچاہیے اور ’انصاف کی دیوی ‘ کو اس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ صدیوں سے انصاف کی دیوی کو مختلف عدالتوں میں ترازو، تلوار اور آنکھوں پر پٹی کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ یہ علامت انصاف کی منصفانہ اور مساوی تقسیم کی نمائندگی کرتی ہے، جہاں بغیر کسی امتیاز کے سب برابر ہیں۔انصاف کی دیوی کا یہ مجسمہ دراصل دنیا کو قدیم یونانی تہذیب کی دین ہے۔کہاجاتا ہے کہ اس مجسمہ کی شباہت یونانی دیوی’ جسٹیسیا‘(Justitia)سے ملتا جلتا ہے۔ اس کا ذکرتاریخ کی کتابوں میں رومی دیوی کے طور پربھی آتا ہے۔ انگریزی کا لفظJusticeیعنی انصاف بھی اسی سے وضع کیاگیا ہے۔ انصاف کی دیوی، مجسمہ میں عموماً ایک آنکھ بند کیے ہوئے اور ایک ہاتھ میں ترازو اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے ہوتی ہے۔بعض ممالک جن میں ہندوستان بھی شامل ہے، میں اس مجسمہ کی ایک آنکھ بند نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ہے۔اب تک اس کا مطلب دنیا یہی سمجھتی آئی تھی کہ قانون کسی کی حیثیت، مذہب یا ذات کا خیال کیے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔یہ علامتیں انصاف کی نیکی، توازن اور طاقت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انصاف کے اصولوں اور انسانی قوانین کے ساتھ اس کا گہراتعلق ہے نیزاسے سماجی انصاف کیلئے دنیا بھر میں اہم سمجھا جاتا ہے۔نئے مجسمہ میں تشدد کی علامت کے طور پر جس تلوار کو ہٹایا گیا ہے، دراصل اس کے ذریعے یہ بات بتائی گئی کہ قانون میں طاقت ہے اور وہ ظالموں کو سزا دے سکتا ہے۔ پرانے بت میں دیوی کے ایک ہاتھ میں ترازو بھی تھا جسے نئے مجسمہ میں برقرار رکھا گیا ہے۔ پتہ نہیں عدلیہ نے اس ترازو کو کیوں بخش دیا حالانکہ ہمارے پاس انصاف کو تولنے اور ناپنے کے کئی اور ذرائع بھی رائج ہیں۔ آئین کی جو کتاب انصاف کی دیوی کے ہاتھ میں تھمائی گئی ہے اس میں ایک شق سیکولرازم کی بھی ہے لیکن کرناٹک ہائی کورٹ کا جج یہ فیصلہ دیتا ہے کہ مسجد میں بھگوان رام کی تعریف میں نعرے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نظام عدل ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اس کی بے عیبی کے لیے شفافیت، غیرجانبداری، رسائی اور تیز رفتار انصاف جیسے عناصر کی موجودگی ضروری ہے۔ ان تمام عناصر کا ایک جامع نظام میں شامل ہونا ہی نظام عدل کو مؤثر اور عوامی اعتماد حاصل کرنے کی صلاحیت فراہم کرے گا۔ جب لوگ محسوس کریں گے کہ انہیں عدل مل رہا ہے تو ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ہوگی اور وہی دراصل حقیقی تبدیلی کہلائے گی۔ملک کا نظام عدل مجسمہ کی تبدیلی سے بہتر، بے عیب، منظم اور نفع رساں نہیں ہو سکتا ہے جب تک غیر جانبدار اورہر قسم کے سیاسی، اقتصادی یا سماجی دباؤ سے آزاد رہے۔ عادلان عظام کوصرف قانون کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی آزادی ہو، عدلیہ کی تقرری کا عمل شفاف اور آزادانہ ہو،منصفان کرام کو ان کی سیاسی وابستگی کے بجائے ان کی قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا جائے، انصاف کی فوری فراہمی ہو، مقدمات کے فیصلے میں تاخیر نہ ہو، مختلف قسم کے مقدمات جیسے مالیاتی، جرائم یا خاندانی تنازعات کیلئے الگ الگ خصوصی عدالتیں قائم ہوں۔ قانون سازی مقننہ کرے لیکن اس کی تشریح، تفہیم اور ان کے اطلاق و عمل درآمد میں عدلیہ کی بنیادی حیثیت ہو نیز مقننہ اور عدلیہ کے درمیان توازن قائم ہو،ہر شہری کو چاہے وہ کسی بھی معاشرتی یا اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھتا ہو، عدلیہ تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ غریب اور کمزور طبقات کیلئے قانونی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ بھی اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کر سکیں۔ اعظم خان اور عمر خالدکو بھی وہی انصاف ملے جو دیونگنا کلیتا اور نتاشانروال کو ملتا ہے،ہر فرد کو یکساں انصاف ملے۔
[email protected]