ڈاکٹر محمد فاروق اعظمی
ریاست تمل ناڈو نے حالیہ برسوں میں جو طرزعمل اپنایا ہے، وہ ہندوستانی وفاقیت کے خاکے میں ایک تازہ روح کی مانند ہے۔ آئینی خودمختاری اور ریاستی حقوق کے باب میں اس کی کوششیں نہ صرف ریاست کے سیاسی شعور کی علامت ہیں بلکہ مرکز و ریاست کے تعلقات کے توازن پر ایک نیا سوالیہ نشان بھی ہیں۔ ان کوششوں میں سب سے اہم قدم 28مارچ 2024 کو ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام ہے، جو ریاستی خودمختاری کو مستحکم کرنے کیلئے آئین،قوانین اور پالیسیوں کا ہمہ گیر جائزہ لے رہی ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس کورین جوزف کے سپرد ہے،جب کہ دیگر اراکین میں ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر اشوک وردھن شیٹی اور سابق نائب صدر ریاستی منصوبہ بندی کمیشن ایم ناگ ناتھن شامل ہیں۔
یہ کمیٹی مرکز-ریاست تعلقات میں آئینی توازن کی تلاش، ریاستی فہرست سے کنکرنٹ لسٹ میں منتقل کیے گئے مضامین کی واپسی اور وفاقی ساخت کی روح کو زندہ رکھنے کی غرض سے ایک فکری و عملی خاکہ تیار کر رہی ہے۔ تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ریاستی اسمبلی میں اس کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملک کی ترقی کی کلید ریاستوں کو خود اختیاری دینے میں مضمر ہے،نہ کہ مرکز کے زیر سایہ انہیں محدود کرنے میں۔
اس کمیٹی کے قیام کا مقصد وفاقی اصولوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستوں کی خودمختاری کو مضبوط کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ اسٹالن نے اسمبلی میں اس کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تمل ناڈو کے عوام اور حکومت کی جانب سے وفاقی نظام میں ریاستی حقوق کے تحفظ کیلئے مسلسل کی جانے والی کوششوں کا یہ ایک منطقی تسلسل ہے۔ کمیٹی کی تشکیل دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تمل ناڈو اپنی خودمختاری کے معاملے میں کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیںاور اس نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ وفاقی حکومتی ڈھانچے میں توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ کوشش کسی اچانک ابھرے ہوئے جذبے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل تاریخی تسلسل کی کڑی ہے۔ 1969 میں بھی ایسی ہی ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی تھی جس کی قیادت جسٹس پی وی راجامنّرنے کی تھی۔ اس کمیٹی نے 1974 میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی تھی جو ریاستی خودمختاری کے باب میں ایک مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رپورٹ کی اہم سفارشات تمل ناڈو اسمبلی نے منظور کی تھیںاور اس کے بعد مرکز اور ریاست کے تعلقات پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ ان کوششوں کا تسلسل اس وقت تک جاری رہا جب 1983 میں سرکاریہ کمیشن اور 2004 میں پنچھی کمیشن قائم کیے گئے تاکہ مرکز-ریاست تعلقات کا بغور جائزہ لیا جا سکے۔
اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے،موجودہ کمیٹی کی تشکیل وفاقی ڈھانچے کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کرنے کیلئے ایک مدبرانہ قدم ہے۔ تمل ناڈو نے بارہاNEET جیسے امتحانات، قومی تعلیمی پالیسی میں سہ لسانی فارمولے کی جبری شمولیت اور جی ایس ٹی نظام کے ذریعے ریاستی مالیاتی خودمختاری کے خاتمے پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ اب جب کہ مرکز کے ساتھ ریاست کا تعلق مسلسل کشمکش کا شکار ہے تو ایسے میں اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل گویا وفاقی اصولوں کی ازسر نو توثیق ہے۔
اسی تناظر میں سپریم کورٹ کا وہ غیرمعمولی فیصلہ بھی قابل ذکر ہے جس میںتمل ناڈو حکومت کو گورنر کی منظوری کے بغیر 10 اہم بلوں کو نوٹیفائی کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ واقعہ ہندوستانی قانون سازی کی تاریخ میں ایک بے مثال نظیر ہے۔ عدالت نے گورنر کی طرف سے ان بلوں کو صدر کے پاس بھیجنے کے عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب اسمبلی نے دوبارہ ان بلوں کو منظور کیا تھا تو گورنر کو ان پر دستخط کرنے تھے۔ اس عدالتی فیصلے کی بنیاد پر 18 نومبر 2023 سے ان بلوں کو نافذ تصور کیا گیا اور ریاستی حکومت نے انہیں 8 اپریل 2025 کو گزٹ میں شائع کر دیا۔
ان 10 بلوں میں سے بیشتر بل ریاستی تعلیمی اداروں کے وائس چانسلرز کی تقرری کے عمل میں گورنر کے کردار کو کم کرتے ہیں،جس سے ریاستی حکومت کو تعلیم کے میدان میں مزید خودمختاری حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ تمل ناڈو یونیورسٹی لاز (ترمیمی) ایکٹ 2022 اور تمل ناڈو ڈاکٹر امبیڈکر لا یونیورسٹی (ترمیمی) ایکٹ 2022 جیسے اہم بلوں کے ذریعے ریاستی حکومت کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مزید کنٹرول ملے گا۔ یہ بل ریاست کی خودمختاری کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے اور ریاستی حکومت کی طاقت کو مضبوط کریں گے۔
یہ تمام اقدامات نہ صرف تمل ناڈو کی آئینی خودمختاری کے تحفظ کی غمازی کرتے ہیں بلکہ دیگر ریاستوں، خصوصاً ان ریاستوں کیلئے جو وفاقی حقوق پر یقین رکھتی ہیں، ایک مثال بھی قائم کرتے ہیں۔ البتہ، اٹارنی جنرل اور مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے اس عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی تیاری اس پیچیدہ مسئلے کو آئندہ مزید گرما سکتی ہے۔ اس صورت حال میں یہ واضح ہے کہ وفاقیت محض آئینی صفحہ پر لکھی گئی ایک اصطلاح نہیں، بلکہ اس کے تحفظ اور بقا کیلئے مسلسل فکری، سیاسی اور عدالتی جدوجہد درکار ہے۔
تمل ناڈو کی موجودہ قیادت نے اپنی ریاستی خودمختاری کو صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک آئینی عہد سمجھا ہے اور اس کی بنیاد پر ملک بھر میں ایک نئی وفاقی بیداری کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ریاستی خودمختاری کی بازیافت ہے بلکہ ہندوستانی وفاقیت کی بقا کی شرط بھی ہے۔