جاسوس غبارہ:ہندوستان نمٹنے کیلئے کتنا تیار؟

0

صبیح احمد

امریکی فوج کی طرف سے حالیہ دنوں ایک چینی ’جاسوس غبارہ‘ کو مار گرانے کی کارروائی دنیا کی 2 بڑی طاقتوں کے درمیان گہرے عدم اعتماد کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ یہ غبارہ ایک ہفتہ تک امریکی حدود میں تھا۔ امریکہ نے اسے جنوبی کیرولینا کے ساحل پر مار گرایا۔مونٹانا میں پچھلے ہفتہ غبارہ کا پتہ لگنے سے سفارتی بحران پیدا ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے 6 فروری سے چین کا طویل مدت سے متوقع دورہ منسوخ کردیا۔ یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں روزافزوں انحطاط کو روکنے کے لیے مہینوں کی طویل کوششوں کا نتیجہ تھا جو نومبر میں بالی میں جی-20 سربراہ اجلاس میں بائیڈن اور ژی جن پنگ کی میٹنگ کے بعد طے ہوا تھا۔ ان تمام کوششوں کو غبارہ تنازع نے ضائع کر کے رکھ دیا ہے جس سے تعلقات میں استحکام کی بحالی کا عمل تھم سا گیا ہے۔ اس واقعہ کو چین-امریکہ تعلقات میں ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بلنکن چین جا رہے تھے، اس میں پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ موسم کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے یہ ایک عام قسم کا غبارہ تھا۔ بیجنگ نے غبارہ کو ’سویلین‘ (موسمیات کے مقصد کیلئے) بتاتے ہوئے ا قرار کیا ہے کہ وہ (غبارہ) اتفاق سے اپنے متعینہ دائرے سے باہر نکل گیا تھا۔ لیکن اس نے حد سے زیادہ رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے غبارے کو مار گرانے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔ امریکہ نے بلنکن کے دورے کے موقع پر اپنی فضائی حدود کے کافی اندر ’جاسوس غبارے‘ کی تعیناتی کو شدید اشتعال انگیز قرار دیا ہے اور اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ خود بیجنگ بھی اس طرح کی حرکت کو برداشت نہیں کرے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین کے دعویٰ پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے، یہ اتفاق ایک یا دو بار ہو سکتا ہے لیکن جیسا کہ امریکہ کا دعویٰ ہے، اس طرح کے چینی غبارے ملک میں کئی بار دیکھے گئے ہیں۔ ہندوستان اور جاپان سمیت کئی دیگر ملکوں میں بھی اس طرح کے غبارے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جاپان، تائیوان اور فلپائن کی فضائی حدود میں بھی گھس چکا ہے جسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں چینی جاسوس غبارے لاطینی امریکہ، جنوبی امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور یوروپ میں بھی دیکھے گئے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں بھی امریکہ میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مونٹانا میں نمودار ہونے سے قبل یہ غبارہ الاسکا کے ایلیوشن آئی لینڈ اور کینیڈا سے بھی گزرا تھا۔ 2020 اور 2021 کے دوران جاپان میں اور پچھلے سال ہندوستان کے انڈمان جزائر کے اوپر بھی غبارے دیکھے گئے تھے۔ تینوں حکومتوں نے اس وقت غباروں کو گرانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا، غالباً یہ سوچ کر کہ جدید مصنوعی سیاروں سے لیس انٹلیجنس کے دور میں یہ غبارے اتنے اہم نہیں ہیں کہ جنہیں مار گرایا جائے۔ جنوری 2022 میں چین نے بحرہند میں ہندوستان کے تزویراتی لحاظ سے اہم جزائر انڈمان نکوبار پر جاسوسی غبارہ اڑایا تھا۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس چینی جاسوس غبارے کی تصویر بھی لی گئی تھی۔ پنٹاگون کی رپورٹ پر یقین کیا جائے تو چین نے ہندوستان کے فوجی اڈوں کی جاسوسی کے لیے اونچائی والے جاسوس غباروں کا بھی استعمال کیا ہے۔ جاسوس غبارہ ہندوستان کے انتہائی اہم بحری اڈہ انڈمان نکوبار جزائر کے اوپر سے اڑا تھا۔ ہندوستان کا یہ جزیرہ آبنائے ملاکا کے قریب ہے جہاں سے چین کی گردن مروڑی جاسکتی ہے۔ چین کی زیادہ تر تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی کبھی کبھی چین نے مشرقی لداخ کے پینگونگ علاقے پر غبارے اڑائے ہیں لیکن یہ ان کے علاقے پر ہوتا رہا تو ہندوستان کچھ نہیں کر سکا۔ نئی دہلی اور ٹوکیو کو اب اس بات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت پڑسکتی ہے کہ وہ مستقبل میں اس طرح کی مداخلتوں سے کیسے نمٹیں۔ بیجنگ کے لیے بھی انٹلیجنس معلومات اکٹھا کرنے کے اپنے ایک نئے اور اشتعال انگیز ’آلہ‘ کے فوائد اور اخراجات پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے غبارے کو خاموشی سے بہہ کر کہیں چلے جانے کی اجازت دے دی ہوتی اگر اسے مونٹانا میں نہیں دیکھا گیا ہوتا۔ بائیڈن انتظامیہ کوغبارے کو پہلے گولی مار کر نہ گرانے پر داخلی طور پر شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اس کا ردعمل بشمول بلنکن کے دورہ کی منسوخی، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح چین امریکی سیاست میں ایک ’ہاٹ بٹن ایشو‘ بن گیا ہے۔ اس پیش رفت نے کلیدی تعلقات کو سنبھالنے کے امکانات کو محدود کر دیا ہے۔ 2001 میں چین کے ہینان جزیرے پر امریکی جاسوس طیارہ اور ایک چینی جنگی طیارہ کے درمیان تصادم کے بعد امریکہ اور چین کشیدگی کو کم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اگر اب اسی طرح کا بحران پیدا ہو جائے، خاص طور پر بڑھتی دشمنی، تائیوان کے معاملے پر طاقت کے مظاہرے اور گھریلو سطح پر گرما گرم بحث کے نازک پس منظر میںکوئی راستہ تلاش کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اگر رونالڈ ریگن کے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب سے کچھ دن قبل کسی چینی فوجی جاسوس طیارے نے امریکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی ہوتی تو ریگن نہ صرف فوج کو امریکی حدود میں داخل ہونے سے پہلے اسے مار گرانے کا حکم دیتے بلکہ اس پائلٹ کو بھی ایوان کے چیمبر میں اپنا مہمان بنانے کی دعوت دیتے، لیکن جو بائیڈن رونالڈ ریگن نہیں ہیں۔ اس ہفتہ اپنے سالانہ خطاب کے دوران چینی جاسوس غبارہ کی حالیہ دراندازی کے بارے میں امریکی عوام کو رپورٹ کرنے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر بات کرنے کے بجائے بائیڈن نے صرف ایک بیضوی حوالہ دیا کہ ’اگر چین ہماری خود مختاری کے لیے خطرہ پیدا کرتا ہے تو ہم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے کام کریں گے۔‘ مجموعی طور پر انہوں نے چین پر 10 جملے سے زیادہ کچھ نہیں بولا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ایسے غباروں پر حیاتیاتی یا کیمیائی جنگی اشیا کے استعمال کا شبہ ہوتاہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس لیے بائیڈن انتظامیہ نے اسے مار گرانے میں احتیاط برتی۔ 28 جنوری کو یہ چینی غبارہ امریکی فضائی حدود میں ایلوٹیئل جزیرہ کے قریب آسمان میں دیکھا گیا۔ یہ سب سے پہلے الاسکا اور کینیڈا کے راستے ایڈاہو (امریکی فضائی حدود) میں داخل ہوا۔ جب غبارہ سمندر میں پہنچا تو امریکی جنگی طیاروں نے اسے تباہ کرنے کے لیے اڑان بھری اور 58 ہزار فٹ کی بلندی سے 60 سے 65 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والے غبارہ کو نشانہ بنایا۔ میزائل کی زد میں آنے کے بعد غبارہ ساحل سے 6 میل دور 47 فٹ گہرے سمندر میں جا گرا۔
اس واقعہ سے اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا چین نے ہندوستان کے ساتھ بھی ایسی حرکت کی ہے یا یہ کہ مستقبل میں بھی اس کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کیونکہ مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر چین اور ہندوستان کے درمیان تقریباً 32 ماہ سے کشیدگی ہے اور ہندوستان کے ساتھ چین کی طویل سرحد ہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS