اسپین: فلسطینیوں کا حامی اور ہم نوا

0

مغربی ایشیا کے بحران میں زبردست جانی ومالی نقصان ہوا ہے اور مرنے والوں کی تعداد لگاتار بڑھتی جارہی ہے مگر اس بحران نے کئی ایسے ملکوں اور عام لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں جو اسرائیل کی اندھی حمایت کررہے تھے۔ ان میں یوروپی ممالک میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ شامل ہیں۔ ان تینوں ممالک کا مسئلہ فلسطین کے تصفیہ کی کوششوں میں زبردست تعاون ہے۔ ناروے کی1992-96کے اسرائیل عرب امن سمجھوتے کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ ناروے کے پی ایل او اور یاسرعرفات کی قیادت والے مجاہدین آزادی گروپ کو مذاکرات کی ٹیبل تک لانے میں کامیابی حاصل کی اور یہ ناروے کے ارباب اقتدار اور سفارت کار ہی تھے جنھوں نے اس مشکل وقت میں جب انتفاضہ شباب پرتھی، یہ کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح آئرلینڈ کا معاملہ ہے۔ آئرلینڈ نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی اور ان کے کرب والم کو اپنے کرب والم سے جوڑ کر دیکھا ۔اس بات کا اعتراف آئرلینڈ کے لیڈر کھلے عام کرتے ہیں۔ مگر گزشتہ 11ماہ سے چلی آرہی بربریت آمیز اسرائیلی فوجی کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے میں بے خوف رہے ہیں مگر آج اور دو ریاستی فارمولے کی حمایت میں بولنے والوں میں سب سے بلند آواز اسپین کی ہے۔ اسپین کی قیادت نے اہل فلسطین کی حمایت میں ہرفورم اورہرمقام پر حمایت دی ہے۔ اسپین مذکورہ بالا تینوں ممالک میں اسرائیل کی حمایت میں بولنے والا سب سے طاقتور ملک ہے جس نے اسرائیل کی ایک نہیں سنی۔ یہ ان ممالک میں شامل ہے جس نے سفارتی طورپر فلسطین کو ایک آزاد اورخودمختار ملک کادرجہ دیا ہے۔
آج جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں، اسپین کی راجدھانی میڈرڈ میں مسئلہ فلسطین پر مذکورہ تینوں یوروپی ممالک اور رابطہ گروپ برائے غزہ کا ایک اجلاس ہورہا ہے۔ یہ تینوں ممالک مختلف سطحوں اور ادوار میں یوروپی یونین اور دیگرفورم میں دوریاستی فارمولوں کا ایشو اٹھاتے رہے ہیں۔ اسپین کے وزیراعظم پیڈرو سنیچیز (Pedro Sancherz)کی دانشمندی، انصاف پسندی اور مظلوم پروری کی اس سے بڑی مثال کیاہوگی کہ دوملکوں ناروے اور آئرلینڈ کے ساتھ انھوں نے فلسطین کو ایک مکمل اورخودمختار ملک کا درجہ دے دیاہے۔ ان تینوں ملکوں غزہ اور مغربی کنارے (غرب اردن) کو آزاد اورخودمختار فلسطین کاحصہ تسلیم کیا ہے اور مشرقی یروشلم کو اس کی راجدھانی تسلیم کیا ہے۔ یہ تینوں ممالک مشرقی یروشلم فلسطین کی راجدھانی تسلیم کرتے ہیں جبکہ امریکہ نے ڈونالڈٹرمپ کے دور صدارت میں مشرقی یروشلم کو صہیونی ریاست کی راجدھانی تسلیم کرچکا ہے۔ اس طرح امریکہ کی اس اشتعال انگیزی، انصاف دشمنی اوربین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پرمبنی ہے۔
بہرکیف، اسپین کئی فلسطین حامی اور ملکوں کے ساتھ مل کر انفرادی اوراجتماعی دونوںسطحوں پرقائدانہ رول ادا کررہا ہے۔ اسپین دیگر آزاد اورخودمختار ملکوں کی طرح فلسطین کے ساتھ دوطرفہ طورپر اعلیٰ سطحی کانفرنس کا اعلان کرچکا ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی سمجھوتوں پر دستخط ہوں گے۔ اسپین اور ناروے دیگر کئی مغربی ممالک سے زیادہ اس تنازع کوحل کیے جانے میں مصروف ہے۔ مذاکرات کی ابتدا 1991میں میڈرڈسمجھوتہ اور بعدازاں 1993-95میں اوسلوسمجھوتہ کے نام سے ہوئی تھی۔ اس سمجھوتے کو پٹری سے اتارنے میں نتن یاہو کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ نتن یاہو اور ان کی قماش کے لیڈروں کے سمجھوتے کو سبوتاژ کرنے کی شرپسندانہ فطرت کی وجہ سے ان سمجھوتوں پر بالکل ہی عمل نہیں ہوسکا۔ اسرائیل نے فلسطین کو وہ مراعات اور سہولیات نہیں دیں، جس کو دینے کے لیے یہ سمجھوتے ان کو مجبورکرتے تھے اور ان پر عمل آوری عین اخلاقی اور قانونی فرض ہے۔ سمجھوتے کی خلاف ورزی کے باوجود اسرائیل نے عالمی سیاست میں اپناعمل دخل بڑھالیا۔
غاصب اسرائیل نہیں چاہتا کہ مشرقی یروشلم اس کے ہاتھ سے نکلے جبکہ مغربی کنارہ یہ اسرائیل نے 1967کے چھ دنوں کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور اس کو یہ علاقہ بہرحال خالی کرنا ہے، جس کے لیے صہیونی ریاست تیار نہیں ہے۔
اسرائیل اپنی فطرت کے مطابق ہرحق پرست ملک ،طاقت اورادارے سے چڑتا،جواس کوغلط موقف کو غلط کہتا ہے، اسرائیل اپنی غیرمنصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے مسئلہ فلسطین ہرحق بات کہنے والوں کو اپنا اوریہودیوں کا دشمن قرار دے دیتا ہے۔ اقوام متحدہ،اس کے کئی ذیلی اداروں، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، انٹونیوگوئتریس وغیرہ سمیت— کئی یوروپی ممالک بشمول مذکورہ بالا تینوں ممالک کو قہر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یوروپ کے دیگرممالک مالٹا اورسلوینیا بھی اسپین کے نقش قدم پرچل رہے ہیں۔ ان ناٹو ممالک کے اعلانات سے اسرائیل کی قیادت پریشان ہے۔
اسرائیل کو لگتا ہے کہ وہ بازورِبازو سے جنگ ہی اپنی من مانی کراسکتا ہے اور ’امن‘ قائم کرسکتا ہے۔ اسرائیل کی دانست میں امن وہی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ہو، وہ جو چاہے کرے اور کوئی اُف تک نہ کہے۔وہ لگاتار غزہ میں جنگ بندی کو ٹال رہا ہے۔ یہ بات خود اسرائیل کے وزیردفاع، اپوزیشن اور روشن خیال لوگ کہتے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے اسرائیل کی حکومت کے اعلیٰ ترین قیادت میں سرپھٹول نظرآرہاہے، جواس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلیوں کی بڑی تعداد کی سوچ کیا ہے اورآپسی اختلافات کس نوعیت اور شدت کے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ امریکہ صہیونی طاقت اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست اورہم نوا ہے۔ وہ ایک متوازن مصالحت کار کی طرح غیرجانبدار رہنے کی کوشش کررہاہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ اوسلومعاہدہ کے تحت فلسطینی علاقوںمیں آزاد اور خود مختار نظام قائم ہوا ہے، موجودہ تسلط برقرار رہے اور آج کے حالات کا فائدہ اٹھا کر غزہ میں اپنا نظام تھوپے اور وہاں کی فلسطینی آبادی کی روزمرہ کی ضروریات کو بھی وہی پورا کرے۔ فلسطینیوں کے ہاتھ میں کاسۂ گدائی ہے۔ غزہ میں اس سے قبل بھی فلسطینیوں یا فلسطینی اتھارٹی کا اقتدار اعلیٰ نہیں تھا ار یہ علاقہ مغربی کنارے کی طرح ہی اسرائیل کے اقتدار اعلیٰ میں ہے۔ اسرائیل امریکہ کے اس نظریہ سے خوش نہیں ہے کہ غزہ میں فلسطین اپنا نظام چلائے۔یہ ایشو دونوں ملکوں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کا سبب بناہوا ہے۔ امریکہ کی موجودہ قیادت اور حکومت صدارتی انتخابات میں مصروف ہے اور اسرائیل سے متعلق تمام امور پر کوئی فیصلہ کن موقف اختیار کرنے والا لیڈرنہیں ہے۔ امریکی وزیرخارجہ جو کہ مختلف ملکوں میں گھوم گھوم کر حالات کو بدترین رخ اختیار کرنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں اورخود کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔امریکہ کو اندازہ ہے کہ یہ آتش فشاں پھوٹا تو اس کی زد میں اسرائیل بھی آئے گا اور اس کی مفادات بھی——!n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS