جنوبی ہندوستان پرمرکوز ہے نئے سیاسی محاذ کی توجہ

0

18؍جولائی کو دہلی اور بنگلورو میں جو صف بندی دکھائی دی ہے اس کے مبصرین الگ الگ معنی اور مطالب اخذ کر رہے ہیں اور مختلف محاذوںکی سیاسی حکمت عملی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طبقہ کی رائے ہے کہ کانگریس کی قیادت والا محاذ جنوبی ہندوستان پر زیادہ فوکس کر رہا ہے اور حکمراں محاذ شمال کے ہندی بولنے والے علاقوں اوراس کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ این ڈی اے نے جو نئے ساتھی بنانے کی کوشش کی ہے ان میں جنوبی ہند کے کچھ ایسے بظاہر غیراہم سیاسی طاقتیں ہیں جن کی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں کوئی خاص موجودگی نہیں ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی نے ان کو ساتھ لینے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ شمالی ہندوستان میں بی جے پی اپنے پرانے حلیفوںکو بھی ٹٹولنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس میں لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان کا نام قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی عوامی مورچہ کے لیڈر جیتن رام مانجھی کو اپنے ساتھ ملاکر بی جے پی نے اپنے حلیفوںکی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ اضافہ کس حد تک برقرار رہے گا یہ تو لوک سبھا انتخابات کے وقت ہی بتایا جاسکتا ہے مگر سیاست میں نہ تو کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے نہ کوئی دوست ہوتا ہے۔ یہ محاذ ہوسکتا ہے کہ کئی دفعہ بنے اور کئی دفعہ ٹوٹے مگر موٹے طورپر بی جے پی کو کنٹرول کرنے کے لئے نئے محاذ انڈیا نے منفرد حکمت عملی وضع کی ہے۔ اس کے آثار راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں ظاہرہوچکے تھے جب انہوںنے اپنی شروعات کنیاکماری سے کی تھی۔ راہل گاندھی کو اس کا کافی فائدہ ملا تھا اورجنوب سے شمال کی طرف آتے آتے ملک میں وہ ماحول بنا تھا جس کی پذیرائی تمام لیڈروںنے کی تھی۔ اس کا اثر بنگلورو میں ہونے والی نئے محاذ کی میٹنگ میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔ راہل گاندھی تمام سینئر لیڈروں کے منظور نظربنے ہوئے تھے۔ شردپوار، ممتابنرجی کے ساتھ ان کی قربتوںکی تصویریں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی ریاستوںمیں بہتر پوزیشن کے باوجود بھی کانگریس پارٹی کی کوشش رہے گی کہ جنوب پر زیادہ فوکس کیا جائے۔ تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالہ ، مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھراپردیش میں کانگریس پارٹی الگ انداز سے کام کر رہی ہے اس کا اثر دکھائی بھی دے رہا ہے۔ کرناٹک کی جیت نے کانگریس کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ کرناٹک میں انتخابات کے بعد بی جے پی نے دیوگوڑا کے خاندان کی پارٹی جنتادل ایس کے ساتھ 2024کے الیکشن میں مفاہمت کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ جنتادل ایس کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ ایچ ڈی کماراسوامی نے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ جائیںگے اور این ڈی اے کا حصہ بنیںگے۔ انہوں نے 18؍جولائی کی میٹنگ سے قبل یہ واضح کردیا تھا کہ ان کے منصوبے کیا ہیں۔ باپ بیٹے کی پارٹی کو اسمبلی الیکشن میں زبردست شکست ہوئی تھی۔ کرناٹک سے 28ممبران پارلیمنٹ آتے ہیں۔ ظاہر ہے بی جے پی چاہے گی کہ جنتادل ایس کے ساتھ جاکر وہ اسمبلی الیکشن میں ہونے والے نقصان کا ازالہ 2024کے لوک سبھا الیکشن میں کرلے۔ اسی طرح کیرالہ میں سیاسی صف بندی کس طرح کی ہوگی اوراس میں بی جے پی کی کیا حکمت عملی ہوگی اس کے بارے میں کچھ امیدافزا بات نہیں ہے کیونکہ وہاں کانگریس کی قیادت والا محاذ اور کمیونسٹ محاذ کسی دوسرے مکتب فکر کے لئے بہت ہی محدود میدان چھوڑتا ہے۔ بی جے پی کیرالہ میں گھس پیٹھ بنانے کے کئی ہتھکنڈے اپنا چکی ہے۔ مگر وہاں کمیونسٹ اور کانگریس قیادت والے محاذ میں اس قدر گہری صف بندی ہے کہ حالات بدلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ کیرالہ سے 20ممبران پارلیمنٹ آتے ہیں۔ کانگریس اور انڈین یونین مسلم لیگ کا اتحاد ہے۔ اس معاملہ میں ایک اہم ریاست تمل ناڈو ہے جہاں پر اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد ہے۔ مگر اے آئی اے ڈی ایم کے کے اندر اس قدر شدید اختلافات ہیں کہ ان سے ابھرپانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی کو بھی اس صورت حال کا اندازہ ہے۔ تمل ناڈو میں بی جے پی نے اے آئی اے ڈی ایم کے کے علاوہ پی ایم کے اور آنجہانی موپنار کی تمل منیلا کانگریس کو ساتھ لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ کہ وینیار طبقے کی پارٹی ہونے کے باوجود پی ایم کے بی جے پی کے کلیدی انتخابی ایجنڈے یونیفارم سول کوڈ سے متفق نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نارتھ ایسٹ کے علاوہ دیگر خطوں میں یونیفارم سول کوڈ کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کس حد تک بی جے پی ٹھنڈا کرتی ہے۔ 2024کے الیکشن میں بی جے پی یونیفارم سول کوڈ کو اہم ایشوبنانے کے فراق میں ہے۔ بہرکیف تمل ناڈو میں لوک سبھا کے انتخابات کو لے کر بی جے پی کا راستہ اتنا آسان نہیںہے چونکہ لوک سبھا کی کل 39سیٹوں میں سے ڈی ایم کے کے پاس 23سیٹیں ہیں۔ کانگریس کے پاس 8، سی پی ایم کے پاس دو اور سی پی آئی کے پاس دو سیٹیں ہیں۔ جبکہ وی کے اور آئی یو ایم ایل کے پاس ایک ایک سیٹ ہے۔ یہ صورت حال پریشان کن ہے۔ ڈی ایم کے اور کانگریس کے درمیان جو گرمجوشی دکھائی دی ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہاں پر اس کی دال گلنے والی نہیں ہے۔

اگلے چند مہینوں میں جن ریاستوںمیں الیکشن ہونے والے ہیں ان میں تلنگانہ اور تمل ناڈو بھی شامل ہیں۔ تلنگانہ میں بی جے پی فی الحال خاموش ہے اور کانگریس پارٹی ہنکار بھر رہی ہے۔ آندھرا پردیش میں بی جے پی جن سینا پارٹی (جے ایس پی) کے لیڈر پون کلیان کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ پون کلیان ریاست میں وائی ایس آر کی حکومت کے خلاف چندربابونائیڈو کے ساتھ محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وائی ایس آر نے ابھی کسی بھی محاذ کے ساتھ جانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے مگر کانگریس کے ساتھ اس کے تعلقات یا اتحاد بننے کے امکانات اس لئے نہیں ہیں کیونکہ تلنگانہ میں کانگریس پارٹی بہت سرگرم ہے اور بی جے پی کے ساتھ وزیراعلیٰ کے مراسم کا اندازہ اس وقت ہوگیا تھا جب پچھلے دنوں مہاراشٹر میں انہوں نے اپنی پارٹی کی ایک ریلی کی تھی۔ اس وقت کانگریس شیوسینا وغیرہ نے تلنگا نہ کے وزیراعلیٰ پر سخت نکتہ چینی کی تھی اوریہ بتایا تھا کہ وہ بی جے پی کے اشارے پر مہاراشٹر میں اپنی پارٹی کو سرگرم کرکے ووٹروں کو متاثرکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تلنگانہ میں حکمراں بی آر ایس جس کا پہلا نام ٹی آر ایس کی 9سیٹیں تھیں بی آر کے پاس چار اور کانگریس کے پاس تین سیٹیں ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS