نیچر تیور دکھانے پر آجائے تو اس سے مقابلہ کرنا ناممکن سا ہوتا ہے۔ اسی لیے بہتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیچر کا خیال رکھتے ہوئے زندگی بسر کی جائے لیکن کیا ایسا کیا جاتا ہے؟ اور اگر کیا جاتا ہے تو گلوبل وارمنگ ایشو کیوں بنتی رہتی ہے؟ وقتاً فوقتاً اس کی سنگینی کا احساس کیوں دلایا جاتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں وہ لیڈران بھی نہیں جو انسانیت کی باتیں کرتے رہتے ہیں، خود کو انسانوں کا بہی خواہ ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام بغیر سنجیدہ اقدامات کیے نہیں ہوگی اور اس کے لیے قربانیاں دینی ہوں گی، یہ احساس کرنا بھی ہوگا اور کرانا بھی ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ ان ملکوں کے حق میں بھی نہیں جو اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اس کی روک تھام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور ان ملکوں کے لیے بھی نہیں جو اس کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچتے، اس کی روک تھام کے لیے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے۔ یہ لاپروائی کا بھی نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے حالات بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کہیں گرمی کے دنوں میں اضافہ ہو رہا ہے، کہیں شدید گرمی پڑ رہی ہے، کہیں کے لوگ سیلاب سے بے حال ہیں اور کہیں کے لوگوں کو خدشہ اس بات کا ہے کہ گلیشیروں کے پگھلنے کا سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا اور اس میں شدت آگئی تو پھر ان کے ملک اور شہروں کا کیا ہوگا؟ کہیں سمندر ان کے ملک اور شہروں کو نگل تو نہ جائیں گے؟ انہیں قصۂ پارینہ تو نہ بنا دیں گے؟
انسانوں کے گرمی برداشت کرنے کی ایک حد ہے۔ اس حد سے زیادہ اس کے لیے گرمی برداشت کرنا ممکن نہیں جبکہ گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ پنکھے، کولر، اے سی وغیرہ بھی شدید گرمی میں ناکام ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھتی گرمی لوگوں کے لیے باعث تشویش بننے لگی ہے۔ ان ملکوں میں بھی زیادہ گرمی پڑنے لگی ہے جہاں کے لوگ معتدل موسم کے عادی رہے ہیں یا وہاں سال بھر ٹھنڈ کا موسم رہا کرتا تھا۔ حالت یہ ہے کہ جنوبی یوروپ کے لوگ شدید گرمی برداشت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آپا رہی ہے کہ بدلے ہوئے موسم کا مقابلہ کیسے کریں، اپنے لیے راحت کا سامان کیسے کریں۔ شدید گرمی کی وجہ سے جنگلوں میں آگ لگتی ہے اور یہ آگ عام لوگوں کے لیے ہی نہیں، متعلقہ علاقے کے حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی مضر ثابت ہوتی ہے۔ حالات کے مدنظر پرتگال، اسپین اور اٹلی جیسے ملکوں میں ہنگامی اقدامات کرنے پڑے ہیں تاکہ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے اثرات اور جنگل کی آگ کی وجہ سے پیدا خطرات سے نمٹا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق، اٹلی، اسپین اور پرتگال کے علاوہ بھی دیگر یوروپی ملکوں-مثلاً: یونان اور فرانس میں- درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے پار چلا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان ملکوں کے لوگ بے حال ہیں جبکہ حکومتوں کو توجہ جنگلوں پر بھی دینی ہے، کیونکہ اس موسم میں جنگلوں میں آگ لگنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے جنگل میں رہنے والے جانداروں کے جانی نقصان کا خدشہ رہتا ہے۔ 29 جون، 2025 کو لزبن میں درجۂ حرارت 42 ڈگری سیلسیئس تک ہوجانے کی پیش گوئی کے بعد پرتگال کے بیشتر حصوں میں جنگل کی آگ کے خطرے کا انتباہ دے دیا گیا ہے۔ اسپین کے کچھ حصوں میں بھی درجۂ حرارت 42 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے طبی نظام سے وابستہ حکام نے لوگوں کو وافر مقدار میں پانی پینے کی صلاح دی ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ وہ دھوپ سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔ اٹلی میں بھی گرمی نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔ فرانس میں بھی گرمی سے نمٹنے کی تیاریوں کی خبریں ہیں۔ یونان میں 26 جون کو ایتھنز کے جنوبی حصے میں جنگل کی آگ پر قابو پایا گیا ہے لیکن شدید گرمی کو دیکھتے ہوئے حالات قابل اطمینان نہیں ہیں۔ ابھی یکم جون کو ہمارے ملک کے شمال مشرقی حصے میں شدید بارش کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال بن گئی تھی، لینڈ سلائیڈ کے واقعات بھی ہوئے تھے۔ ان میں کم از کم 30 لوگوں کی جانوں کے اتلاف کی خبریں آئی تھیں۔ دیگر ملکوں کو بھی سیلاب کے مسئلے سے نمٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ موقع ہے کہ نیچر کی اہمیت کو سمجھا جائے، یہ بھی سمجھا جائے کہ نیچر کا خیال رکھے بغیر اس سرزمین پر انسان کے لیے پرسکون جینا ممکن نہیں ہے۔