پروفیسر اخترالواسع
ایک بات جگ ظاہر ہے کہ مسلمان اس ملک میں تعلیمی اعتبار سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ خود موجودہ حکومت بھی اس کی قائل ہے۔ آزادی کے بعد کچھ تو تقسیم وطن کے بداثرات اور کچھ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نے مسلم قیادتوں اور جماعتوں کو اپنے وطن میں ہی بے وطن ہو جانے والوں کی بازآبادکاری پر اپنی ساری توانائیاں صرف کرنی پڑیں اور یا پھر فسادات کی آگ کو بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کا کام کرناپڑا۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا آزاد کو فکر تھی تو یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی محفوظ رہے اور اس لیے وہاں ڈاکٹر ذاکر حسین کو بھیجا گیا۔ دوسری طرف انہیں یہ پریشانی بھی تھی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ پر کوئی آنچ نہ آئے اور ان قومی رہنماؤں نے اپنی ساری توجہ اسی پر صرف کر دی۔ ایک غضب یہ بھی ہوا کہ ریاستی سطح پر بھی اکثر سرکاروں نے مسلمانوں کے محلوں میں اسکول اور اسپتال کھولنے کے بجائے تھانے کھولے۔ وقت گزرتا گیااور اکیسویں صدی کے اوائل میں جب یو پی اے کی سرکار بنی تو بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں سے اس وقت تک مسلمانوں کے تشٹی کرن(منہ بھرائی) کا بڑے زور شور سے غلغلہ بلند تھا۔ وہ تو بھلا ہو ڈاکٹر منموہن سنگھ اور مسز سونیا گاندھی کا، جنہوں نے مسلمانوں کی اقتصادی، سماجی اور تعلیمی حالت کو جاننے کے لیے سچر کمیٹی تشکیل دی۔ سچر نے جو سچ پیش کیا، اس نے نہ صرف تشٹی کرن کے غبارے سے جھوٹ کی ساری ہوا نکال دی بلکہ مسلمانوں کو بھی آئینہ دکھایا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ سچر کمیٹی پر کتنا عمل درآمد ہوا یہ الگ مسئلہ ہے لیکن مسلمانوں میں جو مضطرب روحیں تھیں، انہوں نے اس سلسلے میں غور و خوض کے بعد ایک نئی حکمت عملی وضع کی اور وہ یہ تھی کہ ہم کب تک دوسروں کا منہ تکتے رہیں اور انہوں نے مسلمانوں سے کچھ یوں کہا کہ:
اپنے پیدا کیے سورج کی دعائیں مانگو
بھیک مانگی ہوئی کرنوں کا بھروسہ کیا ہے
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مغربی ہندوستان میں انجمن اسلام اور بعدازاں انجمن خیر الاسلام، میمن ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، اعظم ایجوکیشنل ٹرسٹ پونے، جنوبی ہندوستان میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی، الامین ایجوکیشن ٹرسٹ، انوارالعلوم کالج حیدرآباد، مدینہ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز اور وزارت رسول خاں اور سلطان صلاح الدین اویسی صاحب کے قائم کردہ تعلیمی ادارے حیدرآباد میں پہلے سے اس میدان میں سرگرمِ عمل تھے لیکن سرکار نے جب پرائیویٹ یونیورسٹیاں قائم ہونے کی اجازت دینا شروع کی تو اس کے نتیجے میں انٹیگرل یونیورسٹی لکھنؤ، الفلاح یونیورسٹی دھوج، گلوکل یونیورسٹی سہارنپور، مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور اور الکریم یونیورسٹی کٹیہار جیسے ادارے وجود میں آئے۔
ایسا ہی ایک خواب اترپردیش کے ایک انتہائی قدآور قائد نے اپنے وطن رامپور میں بھی دیکھا اور جس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے انہوں نے ہر ممکنہ کوشش کر ڈالی۔ وہ قائد محمداعظم خاں تھے۔ جو دس دفعہ رامپور دارالسرور سے ایم ایل اے منتخب ہوئے، اترپردیش کی ہر اس وزارت میں جس کے سربراہ ملائم سنگھ یادو رہے ہوں یا پھر اکھلیش یادو، اس میں وہ نامی گرامی وزیر با تدبیر رہے اور جو جو محکمے ان کے چارج میں آئے، ان کو انہوں نے اپنے کھرے پن سے نئی پہچان عطا کی۔ اعظم خاں ایک بار راجیہ سبھا اور ایک بار رامپور ہی سے لوک سبھا کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ رئیس الاحرار محمد علی جوہر کے نام پر رامپور میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے۔ ان کی نظر میں رامپور میں پیدا ہوئے مولانا محمد علی جوہر کو یہ سچا اور اچھا خراجِ عقیدت بھی ہوگا اور ساتھ میں رامپور اور آس پاس کے علاقوں میں مسلمان بچے اور بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرکے ایک بامعنی اور مہذب شہری بنانے کا بھی موقع مل جائے۔ اعظم خاں سچے پٹھان ہیں اور جب جس چیز کا تہیہ کر لیتے ہیں تو پھر کوئی چیز ان کے جذبے کو کند نہیں کر پاتی۔ انہوں نے اپنے سارے وسائل اور بلاشبہ اثر و رسوخ کو مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی بنانے میں لگا دیا۔ زمینیں خریدیں، بلڈنگوں کی تعمیر کرائی اور باوجود ہر طرح کی سرکاری مخالفتوں اور بعض اپنوں میں سے ہی کی منافقت کے باوجود انہوں نے یونیورسٹی بناکر ہی دم لیا لیکن عمارتیں بن گئیں مگر ان کے سیاسی مخالفین نے یونیورسٹی کو سرکاری منظوری ملنے نہیں دی۔ وہ تو خدا بھلا کرے کہ اتراکھنڈ کے اس وقت کے گورنر جناب عزت مآب عزیز قریشی صاحب کو کچھ دنوں کے لیے یوپی کا بھی اضافی چارج مل گیا اور جب ان کے علم میں یہ بات آئی کہ صرف سیاسی مخاصمت کی بناپر اعظم خاں کی قائم کردہ یونیورسٹی کو سرکاری منظوری نہیں دی جا رہی ہے تو انہوں نے بے خوف و خطر ہوکر اپنے چند دن کے اترپردیش کی گورنری کے اضافی چارج کے زمانے میں جو ایک بڑا کام کیا وہ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی رامپور کو سرکار کی طرف سے منظوری دی۔ ایسا ہوتے ہی اعظم خاں نے یونیورسٹی کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی ایک طرف کوششیں شروع کیں تو دوسری طرف ان کے مخالفین، معاندین اور حاسدین نے اس کے خلاف ہر ممکن کوششیں شروع کردیں۔ وہ لوگ جنہوں نے یونیورسٹی کے لیے اپنی زمینوں کو اپنی مرضی سے مناسب داموں پر بیچا تھا، ان میں سے بھی کچھ لوگوں کو نہ جانے کون سا لالچ دکھا کر اعظم خاں کے خلاف اتہام کا کاروبار شروع کر دیا گیا۔ ہمیں افسوس اس بات کا نہیں کہ کوئی بھی شخص کسی وجہ سے اعظم خاں سے اختلاف کرسکتا ہے، انہیں ہر طرح سے بلاوجہ بھی ناپسند کر سکتا ہے لیکن ایک بات جو ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ انہوں نے رامپور کی تصویر، اس شہر کے رہنے والوں کی تقدیر بہتر بنانے کی جو کوششیں کیں، اس کی کوئی مخالفت کیسے کر سکتا ہے؟ چلئے، اگر ایک منٹ کو ان کے ان کاموں کی اَن دیکھی کر بھی دی جائے تو مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کو اعظم خان کی دشمنی میں کس طرح داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ اعظم خاں نے اس یونیورسٹی کو اپنے خاندان والوں کے لیے نہیں بنایا تھا بلکہ اس کا قیام انہوں نے ملک و ملت کے بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیمی فلاح و صلاح کے لیے کیا۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اس یونیورسٹی میں داخلے کے لیے مسلمان ہونا ہی شرط نہیں ہے کیوں کہ قانوناً ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ پچاس فیصد سیٹیں مسلمان اقلیت کے لیے مختص ہو سکتی ہیں اور اس میں تعلیم کے حصول کی جو آسانی رامپور والوں کے حصے میں آئے گی، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور یونیورسٹی کے کارکنان میں رامپور اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو جس طرح بھرتی کا موقع ملا ہے اور ملے گا وہ بھی اس علاقے میں کسی حد تک ہی سہی، ملازمت کے ذریعے نہ جانے کتنے خاندانوں میں معاشی فراغت کا ذریعہ بنے گا۔
اعظم خاں کو ناپسند کرنے والے ان کے ایک طویل عرصے تک جیل میں رکھے جانے پر کتنے ہی خوش کیوں نہ رہے ہوں، ان کی بیگم اور بیٹے نے جس صبر وثبات کے ساتھ جیل کی تکلیفوں کو برداشت کیا،اس پر جس طرح چاہیں اپنے کو خوش کرنے کے لیے بغلیں بجائیں لیکن وہ یہ بھول گئے کہ انصاف میں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔ آج اعظم خاں، ان کی بیوی اور بیٹا سب ضمانتوں پر باہر آ چکے ہیں لیکن داد دینی پڑتی ہے آج بھی اعظم خاں کے عزم اور حوصلے کو کہ باوجود اپنی صحت کی خرابی کے انہیں اپنی فکر نہیں، مولانا محمد جوہر یونیورسٹی کو بچانے کی زیادہ فکر لگی ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ظلم وظلمات کی تاریکیاں اب چھٹ رہی ہیں، جس طرح سپریم کورٹ نے محمد علی جوہر یونیورسٹی کی عمارت کے بعض حصوں کو بحق سرکار ضبط کرنے کے خلاف فیصلہ سنایا ہے، وہ ہماری عدلیہ کی قانون کی پاسداری کا بہترین ثبوت ہے۔
ہم سرکار کی خدمت میںبھی یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر اقلیتی طبقے سے اٹھنے والا ایک لیڈر یونیورسٹی بناتا ہے تاکہ دل و دماغ کے اندھیرے دور ہوں، روشن خیالی کا ظہور ہو تو سرکار کو اس میں اس کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے اور وہ لوگ جو فروغِ علم کے دشمن ہیں ان سے دوری بنانی چاہیے۔ اس لیے کہ علم کی جوت جگے گی، روشن خیالی آئے گی تو پھر تنگ نظری، فرسودہ خیالات اور گمراہی ختم ہوگی اور اک نئی روشنی اور نیا سویرا جنم لے گا جس سے ملک و ملت کو غیرمعمولی فائدہ ہوگا اور ہندوستان صحیح معنوں میں وشو گرو بن سکے گا۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]