معراج نبوی کے چند تابناک پہلو

0

ڈاکٹرمفتی تنظیم عالم قاسمی

تما م مسلما نو ں کا عقیدہ ہے کہ رسو ل اکر م ؐ کو بید ار ی کی حا لت میں اسی جسم و رو ح کے سا تھ سا تو ں آسما ن کا سیر کر ایا گیا ، جس کو سیر ت اور حد یث کی کتا بو ں میں اسرا ء اور معر اج کے نا م سے مو سوم کیا جا تا ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ مسجد حر ام سے مسجد اقصی اور پھر مسجد اقصی سے عر ش الہی تک یہ طو یل تر ین سفر رات کے صر ف ایک حصہ میں انجا م پا یا ہے ۔ اس میں کسی اہل ایما ن کے لیے کسی شک و شبہ کی گنجا ئش نہیں ہے ، رسو ل اکر م ؐ نے سفر اور اس میں پیش آمد ہ عجا ئب و واقعا ت کی اطلا ع دی ، جس کی تفصیل مختلف کتب احا دیث میں مذکو ر ہے ، متعد د را ویو ں کے ذر یعہ اس وا قعۂ معر اج کی خبر اور پھر قر آن کے ذر یعہ اس کی تصد یق کیا جا نا ایک مسلما ن کے دل میں یقین و اطمینا ن کی کیفیت پید ا کر نے کے لیے کا فی ہے ، ہا ں البتہ جس کی نظر مادی دنیا کے حد ود میں گھر ی ہو ئی ہے ، آخر ت پر جس کویقین نہیں اور جس کی نظر میں قر آن و سنت کی کو ئی اہمیت نہیں ہے وہ عقل و قیا س کا سہا را لے کر معر اج کے مقد س سفر کو مشکو ک بنا سکتا ہے ، زما نہ ٔ نبو ت میں بھی کفا ر مکہ نے اس کو جھٹلا کر اپنی عا قبت خرا ب کی تھی اور آج تک ہر زما نہ میں ان کے متبعین پا ئے گئے ہیں اور آئند ہ بھی رہیں گے کہ حق کے ساتھ با طل کا و جو د قیا مت تک با قی ر ہے گا ۔
معر اج نبو یؐ کی تا ریخ میں اگر چہ اختلا ف ہے تا ہم اکثر محققین کا اتفا ق ہے کہ یہ وا قعہ ہجر ت سے پہلے اور سفر طا ئف کے بعد پیش آ یا ہے اور یہ سفر آپ کی دلداری ،مکی زند گی میں بت پر ستو ں کی جا نب سے کی گئی مخا لفت اور خا ص طو ر پر سفر طا ئف میں پیش آمد ہ مصا ئب و مشکلا ت پر صبر کر نے پر اللہ تعا لی کی طر ف سے انعا م واحسا ن تھا اس لیے قد رت نے سفر طا ئف کے بعد اور مکی دور کے اختتا م کے بعد یہ سیر کر ایا جو در حقیت اس با ت کا اعلا ن تھا کہ اب تنگی اور مصیبت کے ایا م ختم ہو نے والے ہیں ہجر ت کا زما نہ قر یب ہے ، اب معر اج اور ہجر ت کے بعد کشا د گی ، فر اخی اور خو شی کے ایام شر وع ہو ں گے ، چنا نچہ ایسا ہی ہو ا ، ہجر ت کے بعد مد ینہ میں بہت جلد اسلا می ریا ست قا ئم ہو گئی ، سوائے چند لو گو ں کے تما م قو مو ں نے آپ کا بڑھ کر استقبا ل کیا ، یہا ں مسلما نو ں کو آزاد ی ملی اور کسی خو ف وہر اس کے بغیر ایک خد ا کی عبا دت کی جا نے لگی ، کچھ ہی سال گزرے تھے کہ مخا لفین زیر ہو گئے ، مکہ فتح ہو ا اور چہا ر جا نب سے و فو د آنے لگے اور اسلا م کا دا ئر ہ اتنا وسیع ہو ا کہ اہل با طل دم بخود ہوگئے ، ظا ہر ہے کہ وا قعۂ معر اج کی شکل میں ر سو ل اکر م ؐ کو یہ عظیم بشا رت اور پھر انعا م خد اوند ی کا تسلسل آپ کے اس صبر کا نتیجہ تھا جو کفار مکہ کی اذیت پر کیا گیا ، اگر آپ صبر نہ کر تے اور با لفر ض اہل مکہ یا سر دار ان طا ئف کی جا نب سے پہنچا ئی گئی غیر معمو لی تکلیف د مشقت پر شکو ہ وشکایت کے الفا ظ زبا ن مبا رک پر جاری ہو تے توشا ید یہ عظیم تحفہ آپ کوحا صل نہ ہو تا یہی و جہ ہے کہ قر آن میں اللہ تعا لی نے اپنے بند و ں کو صبر کی با ر ہا تلقین کی ہے ار شا د با ری ہے:(ترجمہ)اور صبر کر نے وا لو ں کوان کا اجر بے حساب دیا جا ئے گا‘‘۔ اس طر ح متعد د آیا ت ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ صبر کر نے وا لو ں کو دنیا وآخر ت کی بے شما ر بھلا ئیا ں اور سعا دتیں دی جا تی ہیں اور اگر رنج و پر یشا نی اور بیما ر ی کا گلہ شکو ہ کیا گیا تو اللہ تعا لی اپنی نا را ضگی کا اظہا ر کر تا ہے اور مصا ئب کا سلسلہ رکنے کے بجا ئے طویل ہو جا تا ہے اس لیے مسلما نو ں کو چا ہئے کہ زند گی کے ہر شعبہ میں صبر کی راہ اختیا ر کر یں تا کہ ایما ن بھی سلا مت رہے اور طا عت و عبا دت میں بھی اطمینا ن وسکو ن کے سا تھ مشغو ل رہ سکیں ۔
معر اج میں آپ کواتنا او پر اٹھا یا گیا جو ما دی کا ئنا ت سے ما ور اء اور عقل انسا نی کی سر حد سے با لاتر تھا ، جہا ں پہنچ کرحضرت جبر ئیل علیہ السلام کے بھی پر جلنے لگتے ہیں ، جس مقا م تک کسی مخلوق کی رسا ئی نہ ہو ئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے یعنی وہ عر ش عظیم جس کے بعد اب اور کو ئی مقا م نہیں ، اسی وجہ سے بعض عار فین اور اہل علم کا خیا ل ہے کہ رسو ل اکر م ؐ کو عر ش تک سیر کر انے میں ان کے ختم نبو ت کی طر ف اشا رہ تھا‘ کتا ب وسنت سے عر ش کے بعد کسی مخلوق کا و جو د ثا بت نہیں اسی طر ح نبوت ور سا لت کے تما م کما لا ت آپ پر ختم ہیں ۔ اب آپ کے بعد نبو ت کا کو ئی مقا م نہیں چنا نچہ تما م اہل تو حید کا یقین ہے کہ نبو ت آپ کی بعثت پر ختم ہوچکی ہے ، قیا مت تک کے لیے مذہب اسلا م کو شر یعت بنا کر نا زل کیا گیا ہے تو حید کے سا تھ جس طر ح رسا لت کا اقر ار ضر و ری ہے اسی طر ح کا مل ایما ن کے لیے ختم رسا لت کا بھی اقر ار ضر وری ہے اس کے بغیر ایما ن معتبر نہیں ۔
معتبر نصو ص سے ثا بت ہے کہ معر اج سے قبل چو تھی مر تبہ آپ کا سینہ چا ک کیا گیا اور قلب اطہر کوآب زمزم سے دھو کر پھر اسی جگہ رکھ دیا گیا تا کہ آپ کا دل مبا رک عا لم ملکو ت کا سیر ، تجلیا ت الہیہ اور آیا ت ربا نیہ کے مشا ہد ہ اور اللہ تعا لی کی منا جا ت اور کلا م کا تحمل کر سکے ، گو یا اللہ تعا لی نے اس عظیم نعمت کے لیے خو د سے انتظا م فر ما یا اور احسا ن و اکر ام کی تکمیل کے لیے قد رت کی طر ف سے اس مبا رک قلب کو قا بل بنا یا گیا ، معلو م یہ ہوا کہ جب اللہ تعا لی کسی کو بڑا بنا نا چا ہتے ہیں تو خو د ان کی جا نب سے اس کا انتظا م بھی کر دیا جا تا ہے ۔ اسی لیے ایک انسا ن کو حو صلہ بلند رکھنا چا ہیے اپنی تنگیٔ بسا ط کی طر ف نظر نہ کر ے ، اللہ سے تو فیق اور مقبو لیت کی دعا ء مانگتا رہے جب قبو لیت کی گھڑ ی آئے گی تو خود بخو د اس کا انتظا م ہو جا ئے گا گو یا شر عی احکا م کی پا بند ی ہما را کا م ہے اور اس پر بے پا یا ں ر حمتو ں اور سعا د تو ں کی با ر ش بر سا نا اللہ کے ہا تھ میں ہے ، وہ جس پر چا ہے اورجب چا ہے بے انتہا اپنا فضل کر تا ہے ، وہ کسی کا محتا ج نہیں سا ری دنیا اس کا محتا ج ہے ۔
معراج کا ایک اہم سبق اور پیغام نما زوں کا اہتمام بھی ہے ‘ روزہ ، زکوۃ، حج یقینااسلام کے بنیادی ارکان ہیں ؛ لیکن ان کی فرضیت حضرت جبرئیل امین ں کے ذریعے نازل کی گئی اور نماز ایسا فریضہ ہے جس کے لئے رسول اکرم کو آسمان پر بلایا گیا اور بڑی عزت واکرام کے ساتھ نماز کا تحفہ عطا کیا گیا جس سے اس کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، قرآن شریف میں تقریباً دو سو مقامات پر نماز کی تاکید، اس کے ادا کرنے پر خوشخبری اور نہ پڑھنے پر عذاب کی دھمکی دی گئی ہے، احادیث میں بھی مختلف پہلوؤں سے نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس کے شرائط ، ارکان اور آداب کو اس قدر اہتمام سے بیان کیا گیا ہے کہ دوسرے ارکان کے بیان میں یہ اہتمام نہیں پایا جاتا۔
رسول اکرم ا کا طریقہ تھا کہ جو شخص اسلام میں داخل ہوتا اس سے آپ توحید کے بعد نماز کا عہد لیا کرتے، وصال کے وقت جب کہ زبان مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے ، اس وقت بھی آپ نے غلاموں کے حقوق کے ساتھ نماز کی تاکید فرمائی تھی ، ایک انسان پر توحید ورسالت کے بعد جو عمل سب سے پہلے فرض ہوتا ہے وہ یہی نمازہے، خواہ مرد ہو یا عورت ، غلام ہو یا آزاد، امیر ہو یا غریب جب تک ہوش وہواس باقی ہے، شریعت نے ہر بالغ شخص کو اس کا پابند بنایا اور اس کی تاکید کی ہے، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب وکتاب ہوگا، اگر وہ اچھی اور پوری اتر آئی توباقی اعمال بھی پورے اتریں گے اور وہ خراب ہو گئی تو باقی اعمال بھی خراب نکلیں گے (الترغیب والترہیب )
گویا نماز آخرت کی کامیابی اور اللہ کی رضامندی کی کنجی ہے اور قیامت کی ہولناکیوں اور اس دن پہنچنے والے غم ، دکھ، درد سے بچنے کا ذریعہ بھی، یاد رہے کہ یہ ایسا دکھ ہے جس کی مدافعت کے لئے وہاں نہ کوئی درہم ودینار ہوگا، نہ دوستی اور محبت کام آئے گی،جس کا سلسلہ موت سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور جو زندگی کے سارے دکھوں سے بڑھا ہوا ہوگا، اس لئے ایک عقلمند انسان کو دیگر عبادات واذکار کے ساتھ خاص طور پر نماز کے ذریعے اس عظیم دکھ سے نجات کا سامان فراہم لر لینا چاہئے کہ نماز ہی دراصل آخرت کے غموں سے بچنے کی تدبیر اورراحت کا ذریعہ ہے۔
آج لو گ شب معرا ج بڑی دھوم دھام سے منا تے ہیں مگر ان کی زندگی نما ز جیسی اہم ترین عبا دت سے خا لی ہو تی ہے جس کے لئے آپؐ کو آسمان پر بلا یا گیا اور جس کے لئیاس مقدس اور با بر کت سفر کا اہتما کیا گیا ‘حا لا ںکہ شب معرا ج کے تذ کرہ کا مقصد جہاں آپ کے حیرت انگیز معجزہ کا اظہا ر ہو تا ہے و ہیں اس کا بڑا مقصد اپنی زند گی کو اس سے ملنے وا لے دروس اور پیغام سے سنوا رنا ہو تا ہے ‘صرف اس وا قعے کے تذکرہ سے ہما ری ذمہ دا ری پو ری نہیں ہو تی اور نہ یہ شریعت کا مقصد ہے بلکہ اس را ت میں ہمیں نماز جیسی اہم عبا دت کے فوت ہو نے اور اس سے غفلت اور لا پر وا ئی پر تو بہ کر نی چا ہئے اور آئندہ اس کے اہتمام کا عزم کر نا چا ہئے کہ در حقیقت یہی شب معرا ج کی حقیقی قدر دا نی اور اس کا صحیح استقبال ہے ۔

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS