انسانی زندگی کے کچھ پرپیچ پہلو

0

انسانی زندگی محاذ آرائی، تضادات کے ٹکرائو اور مخالفتوں کا جہنم بن کر رہ گئی ہے۔ انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک اور قومی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک ہر جگہ محاذ پر تضادات اور اختلافات کے نام پر بروئے کار آنے والی مخالفتوں کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ اربوں انسان اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ مذہب جو انسانوں کو باہم مربوط کرنے والی بسیط ترین حقیقت اور سب سے بڑی قوت ہے اسے بھی انسانوں نے محاذ آرائی کا ذریعہ اور مخالفتوں کا آلہ بنا لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر انسان خود کو درست اور دوسروں کو غلط قرار دیتے ہوئے اس ہمہ گیر فساد کی ذمے داری قبول کرنے سے شعوری طور پر گریزاں ہے۔
معاشرے کا بنیادی یونٹ خاندان ہے۔ وسیع اور ہمہ جہت سماجی زندگی کے دائرے میں خاندان کا ادارہ انسان کی سب سے بڑی متاع اور میراث ہے، مگر یہ متاع اور میراث بیش تر صورتوں میں محاذ آرائی اور تضادات کی نذر ہوچکی ہے۔ (معروف معنوں میں) شعوری زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی اولاد اپنے والدین سے گریزاں ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال کو اکثر جنریشن گیپ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اولاد اور والدین کی پسند و ناپسند کے دائرے مختلف ہیں، تھوڑا بہت فلسفہ بگھارنا ہو تو اسے حسیّت(sensibility) کا فرق قرار دے دیا جاتا ہے۔ خاندان کے دوسرے اراکین کے باہمی تعلقات بھی عام طور پر خوشگوار نہیں رہ پاتے اور ان میں ابتدا ہی سے رخنے پڑنے لگتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی خلیج بن جاتے ہیں۔ دوستی یاری کے معاملات بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے اور اس دائرے میں بھی کھلی یا ڈھکی چھپی رقابت اور خاموش محاذ آرائی کی کیفیت عام طور پر جاری رہتی ہے۔ قومی زندگی کے دائرے میں دیکھا جائے تو کہیں صوبوں کی آویزش کی آگ بھڑک رہی ہے اور کہیں لسانی امتیازات شدید اختلافات کی صورت میں طوفان بنے دکھائی دیتے ہیں۔ بین الاقوامی زندگی کے دائرے میں قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں اور ریاستیں ریاستوں سے نبرد آزما ہیں، یہاں تک کہ بات تہذیبوں کے تصادم تک آپہنچی ہے۔
لفظ محبت انسان کا بہت بڑا سہارا اور انسان پر انسان کے اعتبار کو قائم رکھنے والا ایک بہت بڑا ذریعہ رہا ہے،لیکن عصری دنیا کے مجموعی منظرنامے کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید محبت کا دور بھی لد چکا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت کا تجربہ تیزی کے ساتھ زندگی سے منہا ہورہا ہے اور دوسرے جذبات اس کی جگہ لے رہے ہیں۔ محبت کی شادیوں کے بارے میں آپ خواہ کوئی رائے رکھتے ہوں، لیکن خاندانی زندگی کے دائرے میں اس قسم کی شادیوں پر عرصے تک رومانیت اور ایک طرح کے تقدس کی ایسی دھند چھائی رہی ہے جس نے اس رشتے کو ہمیشہ قابل قدر بنائے رکھا، لیکن عام مشاہدہ ہے کہ محبت کی شادیاں چند ماہ بعد ہی نفرت کی شادیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ مغرب میں تو خیر شادی کا تصور ہی ختم ہورہا ہے لیکن ہمارے یہاں بھی محبت کی شادیاں بڑے پیمانے پر ناکام ہونے لگی ہیں اور بات بہت جلد طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک دل دہلا دینے والا منظرنامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے کی تشکیل کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟
اس سوال پر دنیا بھر کے ماہرین نفسیات و سماجیات عرصے سے غور کررہے ہیں اور انہوں نے اس غور کے نتیجے میں ایسے ہزاروں اسباب گنوا ڈالے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان سے انسانی زندگی میں در آنے والی محاذ آرائی آویزش اور تخریب پر روشنی پڑتی ہے اور اس روشنی سے نہ صرف یہ کہ مسئلے کا تعین ہوجاتا ہے بلکہ مسئلے کے حل کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن اگر ایسا ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر انسان کی حالت وہ کیوں ہے جو نہیں ہونی چاہیے اور وہ کیوں نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ اگر انسانوں کے مابین محاذ آرائی اور آویزش کے اسباب کی نشاندہی ہوگئی ہے اور مسئلے کی نشاندہی کی جاچکی ہے تو انسانوں کی بہت بڑی تعداد کو نہ سہی تھوڑے بہت انسانوں ہی کو سہی، مذکورہ تجزیے اور مذکورہ حل سے استفادہ کرنا چاہیے تھا اور کچھ انسانوں کی زندگی میں اس کے نتیجے میں کوئی مثبت تبدیلی آنی چاہیے تھی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہورہا ہے، جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ کہ صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں اس سوال کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ابھی تک مسئلے کا درست تجزیہ ہی نہ ہوسکا اور مسئلے کے درست حل کی نشاندہی ہی نہ ہوسکی ہو؟ شاید ایسا ہی ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ مسئلے کا درست تجزیہ اور مسئلے کا درست حل کیا ہے؟
دراصل انسانی زندگی شخصی اور غیر شخصی عنصر کا مرکب ہے، سوال یہ ہے کہ شخصی اور غیر شخصی عنصر سے مراد کیا ہے؟ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ بحث ہے اور اس بحث میں بعض خیالات اور تصورات ایسے ہیں جنہیں عام فہم بنانے کی کوشش سے یہ خیالات اور تصورات کسی یا بڑی حد تک مسخ ہوسکتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے۔ یہ بات کہی گئی ہے کہ تمام دنیا کے انسان ایک جیسے ہیں اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ تمام انسان ایک جیسے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان سے کوئی انسان بھی دوسرے کے جیسا نہیں۔ یہ دونوں خیالات بیک وقت درست ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی زندگی شخصی اور غیر شخصی عنصر کا مرتکب ہے، وہ چیز جو دنیا کے تمام انسانوں کو ایک جیسا بناتی ہے وہی زندگی کا غیر شخصی عنصر ہے۔ بنیادی طور پر شخصی اور غیر شخصی عنصر میں کوئی تضاد نہیں، لیکن ضروری ہے کہ انسان کا شخصی عنصر اس کے غیر شخصی عنصر سے مربوط رہے اور اس کی رہنمائی میں کام کرے؛ کیوں کہ ایسا نہیں ہوگا تو ان کے مابین تضاد اور آویزش کی صورت اْبھرے گی اور زندگی میں فساد پیدا ہوگا۔ تو کیا شخصی اور غیر شخصی عنصر کی وضاحت ہوگئی؟ شاید نہیں۔
انسان دوسرے انسانوں کی زندگی میں صرف غیر شخصی عنصر کے ذریعے ہی حقیقی معنوں میں شریک ہوسکتا ہے اور اسی کے ذریعے ایک انسان دوسرے انسان میں کشش محسوس کرتا ہے۔ انسان شخصی عنصر کے ذریعے بھی دوسرے انسانوں کی زندگی میں شریک ہوسکتا ہے لیکن یہ شرکت بامعنی اور دیرپا نہیں ہوتی، کیونکہ شخصی عنصرانا کے زیر اثر انفرادیت کے قیام کے لیے کوشاں ہوتا ہے اور اگر کسی وجہ سے شخصی عنصر غیر شخصی عنصر سے رابطہ توڑ چکا ہو تو پھر اس انفرادیت کے قیام کی جدوجہد ایک خوفناک جنگ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ جنگ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دائرے میں ایسا زہر گھولتی ہے جس کی تاب لانا محال ہے۔ شخصی عناصر کا ایک اصول تنوع اور کثرت ہے، لیکن تنوع اور کثرت اصول وحدت ہی سے تنوع اور کثرت بنتے اور قائم رہتے ہیں۔ وحدت کا اصول غائب ہوجائے تو تنوع تضاد اور کثرت انتشار کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اس پس منظر میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دائروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عصر حاضر کے انسانوں کی عظیم اکثریت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کی زندگی شخصی عنصر کے تابع ہو کر رہ گئی ہے اور شخصی عنصر یا تو غیر شخصی عنصر سے رابطہ توڑ چکا ہے یا ان کے درمیان تعلق کی نوعیت مبہم ہو کر رہ گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ افراد کے مابین کوئی حقیقی نکتہ اشتراک باقی نہیں رہ گیا ہے، اور یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ افراد کے درمیان ابلاغ ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوگیا ہے۔
ترتیب: عبدالعزیز

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS