ڈاکٹر جاوید عالم خان
بجٹ حکومت کے سالانہ اخراجات اور آمدنی سے متعلق اعدادوشمار کی ایک تفصیل ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے اقتصادی فریم ورک ہے جو ملک کے تمام اقتصادی شعبوں کے اگلے سال کیلئے ترقیاتی پالیسیوںکی سمت کو طے کرتا ہے۔ بجٹ گزشتہ سالوں میں ملک کے ہر شعبہ میں ترقی کا جائزہ اور آئندہ سال کیلئے حکومت کے ذریعے عوام کی ترقی کے منصوبہ کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور ملک کی مجموعی ترقی کیلئے بجٹ کافی اہم ہے۔
اس وقت ملک اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قوت صرف میں گراوٹ کی وجہ سے اقتصادی کسادبازاری کے خدشات ہیں۔ مزید اقتصادی نمو کی شرح میں بھی تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ فلسطین، روس اور یوکرین میں جنگ کی وجہ سے توانائی اور خوراک کے سیکٹر میں زیادہ تر ممالک غیر یقینی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے کورونا کی وجہ سے تمام اقتصادی سیکٹرز میں مندی کے حالات پیدا ہوچکے تھے۔ ملک کے اقتصادی چیلنجز میں سب سے اہم جی ڈی پی(Gross Domestic Product) کی نمو شرح میں گراوٹ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیداوار کے اہم سیکٹر کو جس شرح سے گروتھ کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ خدمات کے شعبہ کی گروتھ میں کچھ بہتری دیکھنے کو ضرور ملی ہے لیکن زراعت کا شعبہ عام طور سے جمود کا شکار رہا ہے مگر انڈسٹری شعبہ کی نمو میں زیادہ گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زراعت اور انڈسٹری کے شعبہ میں ایک بڑی آبادی برسر روزگار ہے اور یہ تعداد خدمات کے شعبہ میں ان دونوں کے شعبہ کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ اس لیے مرکزی بجٹ میں انڈسٹری اور زراعت کے شعبہ میں نمو کی شرح کو دوبارہ کیسے بحال کیا جائے، اس سلسلے میں حکومت کو بہتر پالیسی اور مناسب بجٹ مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں شعبوں کی بہتر کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت 5ٹریلین کی معیشت بننے کا خواب پورا نہیں کر سکے گی۔
آئندہ مرکزی بجٹ کیلئے حکومت کے ذریعے بجٹ بنانے کے عمل میں مختلف اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس وقت مشاورت کی جارہی ہے حالانکہ بجٹ بنانے کا عمل مختلف وزارتوں اور شعبوں کے ذریعے ستمبر میں ہی شروع کیا جاچکا تھا۔ مرکزی حکومت نے جن اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی ہے، اس میں صنعتوں کے گروپ سی آئی آئی اور فکی، کسانوں کی تنظیمیں، مزدوروں کی تنظیمیں، ماہر معاشیات، سماجی شعبے سے متعلق تنظیمیں اور مختلف ریاستوں کے وزیر مالیات بھی شامل ہیں۔ ملک اس وقت مہنگائی، بے روزگاری اور عدم مساوات کا سامنا کررہا ہے، ایسے حالات میں عوام کو حکومت سے یہ توقع ہے کہ حکومت بجٹ کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرے گی، مہنگائی پر قابو پائے گی اور معاشی عدم مساوات کو بھی دور کرنے کی کوشش کرے گی۔ حالانکہ اس وقت مرکزی حکومت کے ذریعے پارلیمنٹ میں ’ون نیشن ون الیکشن‘ کا بل پیش کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بجٹ سیشن میں حکومت نے وقف ترمیمی بل پیش کیا تھا اور پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتہاپسند تنظیموں کے ذریعے مختلف مساجد اور مزاروں میں سروے کرائے جانے کی بات کی جارہی ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے ایسا محسوس ہورہاہے کہ موجودہ برسراقتدار پارٹی عوام کو مذہبی اور دوسرے معاملوں میں الجھا کر بجٹ اور معاشی ترقی سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہی ہے اور حکومت یہ چاہتی ہے کہ تمام ترقیاتی مسائل پر بحث نہ کی جائے۔
2024-25 کی دوسری سہ ماہی کی جی ڈی پی سے متعلق اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی اقتصادی نمو کی شرح میں گراوٹ آئی ہے اور یہ گراوٹ8.1فیصد سے گھٹ کر 5.4ہوگئی ہے۔ اقتصادی نمو میں گراوٹ کی ایک اہم وجہ صنعتی شعبے کی پیداوار میں کمی ہے۔ وہیں زرعی اور خدمات کے شعبے کی پیداوار کی شرح میں کچھ بہتری ضرور دیکھنے کو ملی ہے۔ اقتصادی نمو میں گراوٹ کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید میں بھی کمی آئی ہے اور ساتھ ہی بے روزگاری میں بھی اضافہ ہواہے۔ مرکزی وزیر خزانہ کے مشیرکار وی اننتھا ناگیشورن کا کہنا ہے کہ عام طور سے حالیہ دنوں میں کمپنیوں نے بڑا منافع درج کیا ہے لیکن روزگار کے مواقع نہیں پیدا کیے جارہے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پیداوار کی تقسیم میں برابری نہیں ہے یا اس پیداوار سے تمام طبقات اس کا برابر فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔
آکسفیم انڈیا مساوات رپورٹ کے مطابق ملک میں ایک فیصد لوگوں کا40فیصد وسائل پر قبضہ ہے جبکہ نچلی سطح پر زندگی گزر بسر کرنے والے50فیصد لوگوں کے پاس ملک کے تمام وسائل میں3فیصد حصہ ہے۔ اسی طرح سے2020 اور2022کے دوران ملک کے کل ارب پتیوں کی تعداد 102سے بڑھ کر144ہو گئی ہے۔ نامور ماہر اقتصادیات تھامس پکیٹی کے مطابق ہندوستان میں سب بڑا چیلنج عوام کی آمدنی میں بڑھتا ہوا عدم مساوات ہے، امیر لوگ امیر ترین ہو رہے ہیں اور غریب اور بھی غریب ہوتا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے حکومت اس بجٹ میں ٹیکس پالیسی میں ضرور اصلاح کرے اور امیر ترین افراد(سپر رچ) پر اضافی ٹیکس نافذ کرے ،مزید دولت اور وراثت ٹیکس کو بھی نافذ کیا جائے اور اس آمدنی کا استعمال صحت، تعلیم اور روزگار کی اسکیموں میں اضافی بجٹ مختص کرکے غریب طبقہ کو فائدہ پہنچایا جائے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹیکس سے متعلق تمام اعدادوشمار عوام کے سامنے مہیا کرائے جانے چاہئیں۔
صرف جی ڈی پی کی نمو کی شرح کو دیکھ کر یہ فیصلہ لینا کہ ملک ترقی کر رہا ہے، ایک فریب ہے۔ قومی شماریاتی آفس (NSO) کے مطابق 2018 اور 2022 کے دوران فی کس آمدنی میں کمی آئی ہے۔ موجودہ حکومت نے 2016 میں کسانوں کی آمدنی 2022 تک دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا جبکہ آمدنی میں اضافہ کے بجائے 2022 میں کسانوں کی آمدنی میں کافی گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ5سال پہلے جہاں کسان تھے، ابھی بھی وہیں ہیں۔ لیبر فورس سروے یہی بتاتے ہیں کہ مزدوری اور تنخواہوں میں گزشتہ چھ سالوں میں گراوٹ آئی ہے اور شہروں میں کام کرنے والے لوگوں کی آمدنی کی گراوٹ کی وجہ سے یہ آبادی اور بھی تکلیف میں ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کے ہاتھوں میں خرچ کرنے کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ حکومت کے ذریعہ ہونے والے اخراجات جی ڈی پی کی شرح میں30فیصد کے آس پاس ہیں جس کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔مہنگائی بھی حکومت کے سامنے ایک اہم اقتصادی چیلنج ہے۔ اس وقت مہنگائی5فیصد سے کچھ کم ہوئی ہے جو کہ حکومت کی گائیڈ لائن کے حساب سے4فیصد ہونی چاہیے تھا۔ آر بی آئی مانیٹری پالیسی کے ذریعہ یہ کوشش کر رہی ہے کہ سود کی شرح میں اضافہ کرکے مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے مگر ابھی بھی اس معاملہ میں زیادہ کامیابی نہیں حاصل ہوئی ہے۔ خوراک سے متعلق مہنگائی میں کچھ کمی آئی ہے مگر دوسرے اہم بنیادی سیکٹر کی مہنگائی میں کمی آنے کی امید کم ہے کیونکہ پیداوار سے متعلق لاگت میں اضافہ کو قابو میں نہیں کیا جا سکا ہے، اس لیے اگر مہنگائی اسی طرح سے بڑھتی رہی تو جی ڈی پی میں اضافہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ایکسپورٹ کے سیکٹر میں گراوٹ یا سست رفتاری بھی ایک بڑا معاشی چیلنج ہے۔ عالمی تجارت میں کمی کی وجہ سے ایکسپورٹ میں گزشتہ کئی سالوں سے گراوٹ آئی ہے جبکہ امپورٹ میں اضافہ ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کے تجارتی خسارہ میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کا راست اثر زرمبادلہ پر پڑرہا ہے کیونکہ امپورٹ میں اضافہ کی وجہ سے ملک میں ڈالر کی مانگ بڑھ رہی ہے اور روپیہ کی قیمت بھی گھٹتی جا رہی ہے۔ روپیہ کی قیمت میں گراوٹ کی ایک وجہ امریکہ میں فیڈرل بینک کے ذریعے مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے شرح سود کا اضافہ بھی ہے۔ اس تناظر میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا روپیہ کی قیمت مزید نہ گرنے دینا اور ساتھ ہی شرح سود کو مناسب سطح پر رکھنا آئندہ بجٹ کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
حکومت کو موجودہ معاشی چیلنج کو دور کرنے کیلئے بجٹ خرچ میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے مگر اس کا زیادہ انحصار ٹیکس اور غیر ٹیکس کے ذریعہ اکٹھا کی گئی آمدنی کی مقدار پر ہوگا، اس کے علاوہ کچھ آمدنی سرکاری اثاثہ کو فروخت کر کے بھی حاصل کی جاتی ہے۔ تازہ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ٹیکس آمدنی(جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس) اکٹھا کرنے کیلئے جو تخمینہ گزشتہ سال لگایا گیا تھا، اس میں کچھ حد تک کامیابی حاصل ہوسکتی ہے مگر غیر ٹیکس اور اثاثوں کو فروخت کر کے آمدنی اکٹھا کرنا مشکل لگتا ہے۔ موجودہ اعدادوشمار کے حساب سے بجٹ میں کل آمدنی کا 35 فیصد قرضوں سے آتا ہے، وہیں بجٹ خرچ کا20فیصد سود کی ادائیگی پر کیا جاتا ہے۔ حکومت کے سامنے ایک اور اہم چیلنج عوامی بچت اور سرمایہ کاری کی شرح میں کمی ہے۔ عوامی بچت اور سرمایہ کاری میں کمی کی سب سے بڑی وجہ موجودہ معاشی صورتحال پر عوام اور سرمایہ کاروں کا عدم اعتماد ہے لہٰذا آئندہ بجٹ میں عوام اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]