خواجہ عبدالمنتقم
صوفیہ قریشی اکیلی نہیں ہیں۔ وہ بھارت کی لاکھوں خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کی جدوجہد صرف ایک فرد کی نہیںبلکہ ایک وسیع تر تحریک کی عکاسی کرتی ہے۔ہمیں ان کی جدوجہد کو مذہب، ذات یا طبقہ سے ماورا سمجھنا چاہیے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ ایک مساواتی اور منصفانہ معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے۔وہ اس خاندان کا حصہ ہیں جسے ہم وسودھیوکٹم بکم کہتے ہیں۔ قدیم بھارتی فلسفہ ’وسودھیوکٹم بکم‘ یعنی ’دنیا ایک خاندان‘ کے مطابق پوری دنیا ایک خاندان ہے اور پوری دنیا کو اس کی اولاد سمجھا جاتا ہے اور جس طرح ہر ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ جذبۂ فلاح نہاں رہتا ہے اور اس کے لیے خاندان کی بہبود مقدم ہوتی ہے، اسی طرح ہر ہندوستانی کے دل میں صوفیہ کے لیے پوری پوری جگہ ہونی چاہیے اور ہے بھی۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اسے اپنی ساتھی ویومیکا کے ساتھ آپریشن سندور کی بریفنگ کی ذمہ داری نہیں سونپی جاتی۔
بھارت ایک متنوع اور پیچیدہ ملک ہے، یہ مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کی بستی ہے۔ اس تنوع کے باوجود فوجی ماحول، مذہب، ذات، طبقہ یا جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ صوفیہ قریشی مذہباً ایک مسلم خاتون ہیں لیکن دراصل وہ علامت ہے اس فوجی ورثے کی جس میںصنفی امتیاز، مذہبی یا دیگر کسی بھی قسم کے امتیاز کی رتی بھر بھی گنجائش نہیں۔ صوفیہ قریشی شاہین ہیں جو وقت پڑنے پر اڑ کر کہیں بھی پہنچ سکتی ہیں۔وہ ہر حب الوطن بھائی کی بہن ہیں اور ہر اس انسان کو برا سمجھتی ہیں جس کی سوچ تخریبی ہے۔
صوفیہ کو اگر کسی سے منسوب ہی کرنا مقصود ہے تو انہیں ان تمام بہنوں اور بھائیوں سے منسوب کیا جائے جن کی حب الوطنی اور قربانیوں کی داستانوں سے ہمارا عسکری ادب بھرا پڑا ہے۔صوفیہ بھگت سنگھ ، رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ کی بہن ہیں۔ ان کی بہنوں میں ایک جانب ہماری فوج میں نمایاں کارکردگی کے لیے جانی جانے والی درج ذیل افسران ہیں تو دوسری جانب ان کی بہنوں میں غیرمعمولی بہادر ستی ساوتری،رانی پدمنی،رانی رودرما دیوی، رضیہ سلطان، رانی درگاوتی، رانی کرناوتی، اہلیا بائی، جھانسی کی رانی، رانی لکشمی با ئی بھی شامل ہیں۔ ان کی بہنوں یا بھائیوں میں کوئی تخریب کار شامل نہیں لیکن ان کی بہنوں میں سیموال ضرور شامل ہے۔پریا سیموال وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ایک فوجی جوان کی بیوہ ہونے کے باوجود بھارتی مسلح افواج میں بطور افسر شمولیت اختیار کی۔ ان کے شوہر ایک دہشت گرد مخالف مہم میں شہید ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم صوفیہ کی دیگرفوجی بہنوں کی مختصر تفصیل کو اس مضمون کا حصہ بنائیں صوفیہ کے حیاتیاتی اور فوجی سفر کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
٭صوفیہ قریشی : مارچ 2016 میں، وہ پہلی خاتون افسر بنیں جنہوں نے ایک کثیر القومی فوجی مشق میں فوجی دستے کی قیادت کی۔ لیفٹیننٹ کرنل قریشی کو ملک کے کئی امن مشن ٹرینرز میں سے منتخب کیا گیا تھا۔ وہ 2010 سے اقوام متحدہ کے امن مشنز (PKOs) سے وابستہ رہی ہیں۔ اس سے قبل بھی انہیں اس قسم کے فرائض انجام دینے کا تجربہ حاصل تھا۔ 2006 میں کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میںملٹری آبزرورکے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ 1999 میں آفیسرز ٹریننگ اکیڈمی سے کمیشن حاصل کرکے بھارتی فوج میں شامل ہوئیں۔ وہ آپریشن پرکرم میں پنجاب بارڈر پر متحرک رہیں، جس پر انہیں جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف (GOC-in-C) کی جانب سے تعریفی سند سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ، شمال مشرق میں سیلابی امدادی آپریشنز کے دوران ان کی شاندار مواصلاتی خدمات پر انہیں سگنل آفیسر ان چیف (SO-in-C) کی طرف سے بھی تعریفی سند ملی۔ 2016 میں لیفٹیننٹ کرنل قریشی کو 40 رکنی بھارتی فوجی دستے کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا۔
صوفیہ قریشی کی دیگر پیشہ ورانہ بہنیں
٭ لیفٹیننٹ جنرل پنیتا اروڑہ: لیفٹیننٹ جنرل پنیتا اروڑہ وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں مسلح افواج میںتین ستارہ رینک ملا اور پرم وششٹ سیوا میڈل (PVSM)، سیوا میڈل(SM) اور وششٹ سیوا میڈل (VSM) سے نوازا گیا۔انہوں نے Armed Forces Medical College (AFMC), Pune سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور 1968میںآرمی میڈیکل کور جوائن کی۔AFMC سے ہی Post-graduation کیا اور پونا یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
٭پدما وتی بنداپادھیائے: وہ بھارتی فضائیہ میں پہلی خاتون ایئر مارشل بنیں۔ انہیں 1971کی بھارت-پاک جنگ میں نمایاں کارکردگی کے لیے وششٹ سیوا میڈل سے نوازا گیا۔
٭بھوانا کانت بھارتی فضائیہ کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ بنیں۔
٭ میجر پریتی چودھری:فوج کی میزائل یونٹ کی پہلی خاتون کمانڈربنیں۔
٭کیپٹن تانیا شیر گل :یوم جمہوریہ پریڈ میں مردوں کی فوجی ٹکڑی کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون۔
٭ سریشا بندلا :اسپیس فلائٹ کے لیے منتخب ہوئیں۔
٭متالی مدھومتا : فروری 2011 میں لیفٹیننٹ کرنل متالی مدھومتا ’ویرتا کے لیے سینا میڈل‘ حاصل کرنے والی بھارت کی پہلی خاتون افسر بنیں۔ وہ کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملے کے دوران سب سے پہلے موقع پر پہنچنے والی افسر تھیں اور انہوں نے کئی لوگوں کی جان بچائی۔
٭پریا جھنگن : 21 ستمبر 1992 کو پریا جھنگن بھارتی فوج میں شامل ہونے والی پہلی خاتون کیڈٹ بنیں۔ انہوں نے فوج میں خواتین کی شمولیت کے لیے براہ راست آرمی چیف کو خط لکھا تھا اور 1993 میں ان کا خواب حقیقت میں بدل گیا۔
٭دوّیا اجیت کمار: 21 سال کی عمر میں کیپٹن دویا اجیت کمار نے ’سورڈ آف آنر‘کا اعزاز جیتا، جو بھارتی فوج کے بہترین کیڈٹ کو دیا جاتا ہے۔ وہ 2015 کی یوم جمہوریہ پریڈ میں خواتین افسران کی ایک مکمل ٹکڑی کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔
٭ نویدتا چودھری: فلائٹ لیفٹیننٹ نویدتا چودھری بھارتی فضائیہ کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔
٭ انجنا بھدوریا: انجنا بھدوریا بھارتی فوج میں سونے کا تمغہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔
٭ دیپیکا مشرا : دیپیکا مشرا بھارتی فضائیہ کی پہلی خاتون پائلٹ بنیں جنہوں نے ’سارنگ‘ ہیلی کاپٹر ایروبٹک ٹیم کے لیے تربیت حاصل کی۔
٭سواتی سنگھ: 2012 میں کیپٹن سواتی سنگھ کو بھارتی فوج کی 63 بریگیڈ میں تعینات کیا گیا، جو ناتھو لا پاس کے قریب واقع ہے، جو کہ بھارت کی سب سے مشکل سرحدی چوکیوں میں سے ایک ہے۔
٭ شانتی تگاّ : شانتی تگاّ بھارتی فوج میں پہلی خاتون جوان تھیں۔ وہ 35 سال کی عمر میں دو بچوں کی ماں ہوتے ہوئے فوج میں شامل ہوئیں اور فٹنس ٹیسٹ میں تمام مرد ساتھیوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
٭ گنجن سکسینہ: کارگل جنگ کے دوران فلائٹ آفیسر گنجن سکسینہ جنگی علاقے میں پرواز کرنے والی پہلی بھارتی فضائیہ کی خاتون افسر بنیں۔ انہوں نے زخمی فوجیوں کو بچانے اور رسد فراہم کرنے کے لیے متعدد جنگی پروازیں کیں۔ بعد میں انہیں ’شوریہ ویر‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بھارتی فوج میں خواتین افسران کی شمولیت اور کامیابیاں نہ صرف دفاعی شعبے کی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی علامت بھی ہیں۔ یہ خواتین نہ صرف جنگی محاذوں پر بلکہ امن مشن، سائبر دفاع اور قیادت کے شعبوں میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی کامیابیاں نوجوان لڑکیوں کے لیے روشن مثال ہیں جس سے یہ واضح سبق ملتا ہے کہ محنت اور عزم سے کوئی بھی خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]