ڈاکٹر جاوید عالم خان
اقوام متحدہ نے اپنے ڈکلیئریشن کے ذریعے 18 دسمبر 1992 کو یہ اعلان کیا تھا کہ تمام ملکوں کو مذہبی، لسانی اور ثقافتی لحاظ سے اپنے اقلیتوں کو تحفظ دینا چاہئے اور تمام شناخت کے ساتھ انکے حالات کو بہتر بنایا جائے۔ اسی طرح سے آزادی کے بعد ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے آئین نے آرٹیکل 29 اور 30 کے ذریعے اقلیتوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے تعلیمی ادارے کھولنے اور چلانے کے اختیارات پر زور دیا ہے۔ آئین نے بنیادی حقوق کے معاملے میں بھی اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے بارے میں بھی تحفظ دینے کی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے تعلیمی اور اقتصادی بہتری کیلئے پنج سالہ منصوبہ بندی، وزیراعظم کا 20 نکاتی پروگرام، وزیراعظم کا نیا 15 نکاتی پروگرام، ملٹی سیکٹورل پلان اور پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم جیسی پالیسی حکمت عملیوں کے نفاذ کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ اوپر ذکر کی گئیں تمام پالیسی تجاویز اور حکمت عملی کا تجزیہ یا اس سے متعلق تحقیق کو سنجیدگی سے سوشل سائنس ریسرچ سے جوڑا نہیں گیا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں سوشل سائنس ریسرچ کئی سارے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے جن میں خاص طور سے سیاسیات، اقتصادیات، سماجیات، نفسیات اور سوشل ورک جیسے موضوعات قابلِ ذِکر ہیں۔ ان موضوعات کے علاوہ سوشل سائنس میں دوسرے موضوعات وقتاً فوقتاً شامل ہوتے رہے ہیں سوشل سائنس ریسرچ انسانی وسائل کو فروغ دینے میں ہمیشہ سے ہی اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اس کے ذریعے ہم ملک کے سماجی اور سیاسی عروج اور زوال کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ سماجی علوم ملک اور قوموں کے مستقبل میں رہنمائی کیلئے نہایت ضروری موضوع ہے۔ اس وقت ملک کے اندر سماجی علوم کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے اور دن بدن تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے موضوعات پر والدین اور سوسائٹی زیادہ توجہ دے رہی ہے اور کم وبیش یہی رجحان مسلم سوسائٹی میں بھی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملک کے کچھ طبقات جیسے دلت، آدی واسی، اقلیتوں، عورتوں بچوں اور معذوروں کو پالیسی سطح پر اور آئین کے تحت تحفظ دینے کی بات کہی گئی ہے اور ان میں سے کچھ طبقات جیسے دلت، آدی واسی اور عورتوں سے متعلق تحقیق سوشل سائنس ریسرچ کا اہم حصہ رہے ہیں لیکن آزادی سے پہلے اور اس کے بعد اقلیتوں اور خاص طور سے مسلمانوں کے بارے میں تحقیق کو سوشل سائنس ریسرچ میں زیادہ ترجیح نہیں دی گئی ہے۔ مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ 1857 کے بعد مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورتحال پر منظم طریقے سے جانکاری اکٹھا کرنے کی کوشش شروع ہوئی تھی اس کی وجہ انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت تھی اور یہ ریسرچ اور تحقیق انگریزی حکومتوں کے ذریعے کرائی جارہی تھی جس کا خاص مقصد یہ تھا کہ انگریزی حکومت مسلمانوں کے ذریعہ حکومت کے خلاف بغاوت کو کیسے کنٹرول کرے۔ آزادی اور ملک کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کے بارے میں ریسرچ اور تحقیق پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ حالانکہ وقتاً فوقتاً کچھ ریسرچ اداروں اور غیرسرکاری تنظیموں نے اس میدان میں کچھ کام ضرور کیا ہے۔ جہاں تک مسلم سماج کے ذریعے ریسرچ اداروں کو کھولنے کا تعلق ہے اس معاملے میں ہم کافی پیچھے رہے ہیں۔
مسلمانوں کے ذریعے بنائے گئے کچھ چنندہ ریسرچ ادارے کام کررہے ہیں مگر مسلمانوں سے متعلق بہت سارے مسائل پر ان کے لئے ریسرچ کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے مالی اور انسانی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ عورتوں کے مسائل پر ریسرچ کیلئے کئی ساری یونیورسٹیوں میں جینڈر اسٹڈیز قائم کی گئی ہیں وہیں آدی واسیوں کیلئے مرکزی حکومت کے ذریعے ٹرائیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی شروعات کی گئی تھی جس کو مختلف صوبوں میں قائم کیا گیا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں 26 ٹرائیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کام کررہے ہیں۔ ان اداروں کی اہم ذمہ داری آدی واسیوں کے بارے میں مختلف میدان میں ریسرچ کے ذریعے جانکاری کو جمع کرنا ہے۔
اس ادارے کے ذریعے آدی واسیوں کیلئے مختلف موضوعات پر ریسرچ کیا جاتا ہے جن میں آدی واسیوں کے ثقافتی، ترقیاتی صورتحال، صحت اور تعلیم جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔ مرکزی وزارت برائے قبائلی امور کا یہ کہناہے کہ ریسرچ کے ذریعے حاصل کی گئی تمام جانکاری کو ان پٹ کے طور پر پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹرائیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ آدی واسیوں کیلئے کام کرنے والے افراد اور اداروں کے لوگوں کی تربیت سازی بھی کرتا ہے، اس کے ساتھ ریسرچ کے ذریعے حاصل کی گئی تمام جانکاری کو بیداری پیدا کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹرائیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کیلئے مرکزی حکومت بجٹ بھی مختص کرتی ہے، اس کے علاوہ آدی واسیوں کے بہبود پر کام کرنے کیلئے مختلف رفاہی تنظیموں کو امداد بھی دی جاتی ہے۔ 2024-25 میں مرکزی حکومت نے ٹرائیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کیلئے 111 کروڑ روپے، رفاہی تنظیموں کیلئے 160 کروڑ روپے اور اسکیموں کی مانیٹرنگ کیلئے 20 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے دلتوں کے امور کے ریسرچ کیلئے امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ سینٹر دلتوں کی توقعات کے مطابق ریسرچ کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکا ہے ویسے دلتوں کے مسائل پر ریسرچ کیلئے انڈین انسٹیٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز نے کافی بہتر کام کیا ہے لیکن موجودہ حالات میں ایف سی آر اے کے رد ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ مشکلات کے دور سے گزر رہا ہے۔
اسی طرح سے دلتوں، آدی واسیوں، اقلیتوں اور جینڈر پر کام کرنے والے کئی ریسرچ ادارے بھی ایف سی آر اے کے رد ہونے کے بعد اپنا کام ٹھیک طریقہ سے نہیں کر پا رہے ہیں، ان میں سینٹر فار پالیسی ریسرچ اور سینٹر فار بجٹ اینڈ گورننس اکاؤنٹیبلیٹی بھی شامل ہیں۔ اقلیتوں کیلئے خاص طور سے حکومت کے ذریعے کوئی ریسرچ ادارہ نہیں بنایا گیا ہے لیکن حکومت کے ذریعے مختلف کمیشن اور کمیٹیوں نے اقلیتوں کے تعلیمی اور معاشی صورتحال پر ریسرچ ضرور کی ہے، ان میں گوپال سنگھ کمیشن، سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور اور نیتی آیوگ کے ذریعے اقلیتوں کیلئے نافذ کی جارہی اسکیموں کا وقتاً فوقتاً تجزیہ بھی کرایا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کے تحت اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حالات کا مطالعہ کرنے کیلئے مختلف یونیورسٹیوں کو مالی امداد دیے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس کے تحت گرومکھی، بدھ، جین، ہمالیائی ثقافت سے متعلق سینٹر قائم کیا جائے گا لیکن حکومت مسلمانوں اور عیسائیوں کی ثقافت کو لے کر کوئی مالی امداد یا سینٹر کھولنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
اوپر کے تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر اقلیتوں کیلئے ریسرچ سے متعلق کی جارہی کوششیں ناکافی ہیں ایسی صورتحال میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ مختلف ریسرچ تنظیموں اور یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد اپنا ایک اجتماعی پلیٹ فارم یا ایجنسی بنائیں اور اس بات کی کوشش کریں کہ سماجی علوم کے تمام موضوعات میں اقلیتوں کے نظریے سے اور ان کی ضرورت کے مطابق ریسرچ کی جائے اس کے علاوہ ریسرچ پیپر شائع کرنے کیلئے میگزین، نیوز لیٹر اور جرنل بھی نکالا جانا چاہئے تاکہ مختلف موضوعات کے اندر اقلیتوں سے متعلق جانکاری کو عوامی اور حکومتی سطح پر استعمال بھی کیا جاسکے اور بیداری پیدا کی جاسکے۔ یہاں پر ایک اور بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی موضوعات کے علاوہ حکومت کے ذریعے چلائے جارہے مختلف ترقیاتی پروگراموں میں اقلیتی طبقے کی شمولیت کو لے کر ریسرچ کی جانی چاہئے۔ خاص طور سے اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی)، وزیر اعظم کا 15 نکاتی پروگرام، پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں اور خاص طور سے مسلم عورتوں کی نمائندگی، سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی، مسلمانوں کیلئے بنیادی سہولتوں اور صحت سے متعلق خدمات، قانونی انصاف تک رسائی، ٹیکنالوجی کا استعمال اور مسلمانوں کیلئے بنائے گئے اداروں کا تجزیہ جیسے موضوعات ریسرچ کیلئے نہایت اہم ہیں۔ ریسرچ ، ایڈوکیسی اور ٹریننگ کے کاموں کے لئے مالی امداد اور انسانی وسائل مہیا کرانے کے لیے مسلم قیادت، غیر سرکاری اور ملی تنظیموں کو بھی آگے آنا چاہئے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]