سید خالد حسین (سنگاپور)
ایل۔جی۔بی۔ٹی+ (+LGBT)، یعنی ہم جنس پرست عورتوں، ہم جنس پرست مردوں، ابیلنگی اور خواجہ سرا وغیرہ، کا معاملہ کچھ عرصہ سے میڈیا میں کافی چھایا ہوا ہے، خاص طور پر قطر میں 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کے بعد سے۔ فٹبال کے ان بین الاقوامی کھیلوں سے قبل قطر نے، جہاں ہم جنس پرستی قانونی جرم ہے، کہا تھا کہ ورلڈ کپ میں ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی۔ کیو۔ (LGBTQ) کے شائقین سمیت سبھی کا خیر مقدم کیا جائے گا لیکن شائقین کو اس اسلامی ملک کی ثقافت کا احترام کرنا ہوگا۔ لیکن افسوس ہم جنس پرستوں اور انکے حمایتی ملکوں اور تنظیموں نے اس چھوٹے سے عرب خلیجی ملک کو ہم جنس تعلقات پر پابندی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی شدید مذمت کی۔
ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی۔ کی اصطلاح ہر اس شخص پر چسپاں ہو سکتی ہے جو heterosexual یا cisgender نہ ہو، یعنی جنسی یا رومانوی طور پر صرف مخالف جنس کے لوگوں کی طرف راغب نہ ہوتا ہو۔ ایل۔ ج۔ بی۔ ٹی۔ کی ابتدا ایل۔جی۔بی۔ سے ہوئی ہے جس نے 1985 سے 1990 تک ہونے والی وسیع تر LGBT کمیونٹی کے حوالے سے ہم جنس پرستوں کی اصطلاح کو تبدیل کرنا شروع کیا۔ 1990 کی دہائی سے استعمال میں رہی LGBT کے ساتھ ساتھ اس کی کچھ عام قسمیں، جنسیت اور صنفی شناخت کے لیے ایک مجموعی اصطلاح (+LGBT) کے طور پر کام کرتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں +LGBT اغلام بازی، مرد اور عورتوں میں ہم جنس پرستی اور اسی طرح کے دیگر غیر فطری جنسی اعمال میں ملوث ہونے والے لوگوں کا مجموعہ ہے۔
دنیا بھر میں ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی۔ لوگ کئی سالوں سے مقننہ، عدالتوں اور عوام میں اپنے شہری حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں, اور مساوات، اپنے جنسی رجحان کے اظہار کی آزادی اور ہم جنس شادی کے قانونی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم جنسیت کا سوال مغربی ممالک اور ترقی یافتہ معاشروں میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ حقوق انسانی اور انسان کیانفرادی حقوق پر اصرار کے اس دور میں ہم جنس پرستی کی بحث اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ بیشتر یورپی ممالک اور امریکہ کی متعدد ریاستیں ہم جنس برادری کے ساتھ تفریق کا ہر عمل ختم کر رہی ہیں۔
کئی مغربی اور چند ایشیائی ممالک پہلے ہی ان کے مطالبات کو تسلیم کر چکے ہیں، یا قبول کرنے پر غور کر رہے ہیں، اور ہم جنس شادیوں کی اجازت دینے کے لیے قوانین بھی منظور کیے جا رہے ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت ہم جنسوں کے مابین شادیوں کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ میں ان کی قانونی حیثیت کے لیے دائر کردہ درخواستوں کے جواب میں حکومت نے 14 مارچ، 2023 کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو بتایا کہ ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی ہندوستانی خاندانی اکائی کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتی اور شادی کے قانون میں کسی بھی تبدیلی کو نافذ کرنے کا کام پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
یہ موقف سنگاپور کے عمل سے مطابقت رکھتا ہے جہاں پارلیمنٹ نے امسال جنوری میں ہم جنس پرستی کے قانون کو منسوخ کر دیا، اس دلیل کے ساتھ کہ شادی کے معاملات پر فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑنے کے بجائے عدالتوں کو سپرد کر دینے سے ان کا غیر آئینی ہونے کا ممکنہ خطرہ ہے اور اس طرح کی کوئی بھی تبدیلی ہمارے معاشرے پر مسلط ہو جائے گی جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پارلیمنٹ نے شادی کو قانونی چیلنجوں سے بچانے کے لئے آئین میں ترمیم کردی تاکہ شادی کی تشریع مرد اور عورت کے درمیان اتحاد کے طور پر کی جائے۔
عدالتی کاروائی :ہندوستان میں 1861 کے برطانوی دور حکومت کے ایک قانوں کے تحت ہم جنسی کا رشتہ ایک جرم ہے، اور تعزیراتِ ہند کی دفعہ 377 کے تحت دو مرد یا دو خاتون ہم جنسوں کے درمیان جنسی عمل کے لیے انھیں دس برس قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اگر چہ اس قانون کا استعمال شاذ ونادر ہی ہوا ہے لیکن اسے ہم جنس برادری کو ہراساں کرنے کے لیے اکثر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پولیس جرائم کی فہرست میں اس طرح کے جنسی رشتوں کو ‘”بد فعلی” اور “غیر فطری سیکس” جیسے نام دیتی ہے۔
2018 میں سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے والی دفعہ 377 کے ایک حصے کو منسوخ کر کے رضامندی سے ہم جنس پرستوں کو قانونی حیثیت دی تھی۔برطانوی نوآبادیاتی دور کے قانون کی اس شق کو مسترد کرتے ہوئے ایک جج نے کہا تھا کہ یہ تاریخی فیصلہ “بہتر مستقبل کی راہ ہموار کرے گا”۔ تاہم امسال مارچ میں سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے ایک حلف نامہ میں حکومت ہند نے عرض کیا ہے کہ دفعہ 377 کے تحت ہم جنسیت کو جرم نہ قرار دیے جانے کے باوجود درخواست گزار ملک کے قوانین کے تحت ہم جنس شادی کو تسلیم کیے جانے کے بنیادی حق کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ درخواست گزاروں نے اپنی طرف سے کہا ہے کہ لوگوں کے ایک طبقہ سے صرف ان کے جنسی رجحان کی بنیاد پر شادی کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ درخواست گزار 1954 کے اسپیشل میرج ایکٹ، 1955 کے ہندو میرج ایکٹ اور 1969 کے فارن میرج ایکٹ کی دفعات کو، جو ہم جنس شادیوں کو تسلیم نہیں کرتیں، چیلنج کر رہے ہیں۔
2013 میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں ہم جنس پرستی کو جرائم کے زمرے سے نکال دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مستر کردیا تھا اور دفعہ 377 برقرار رکھی تھی۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے کیوریٹیو پٹیشن (curative petition) کے تحت اپنے ہی فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے ایک پانچ رکنی آئینی بینچ قائم کردی ہے، جو چیف جسٹس کی سربراہی میں ہم جنس شادیوں کی قانونی توثیق کی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ ہم جنسوں کے جنسی رشتوں کو جرائم کے زمرے میں رکھنے یا نہ رکھنے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ 142 کروڑ آبادی والے ملک میں ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے ازدواجی اور متعلقہ حقوق کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔
اس سے قبل 2017 میں سپریم کورٹ نے ملک کی LGBT کمیونٹی کو حق رازداری کے قانون کے تحت تحفظ کے نام پر اپنے جنسی رجحان کو محفوظ طریقے سے ظاہر کرنے کی آزادی دی تھی۔ تاہم اس نے ہم جنسی کے تعلقات کو مجرم قرار دینے والے کسی بھی قانون کو براہ راست رد نہیں کیا تھا۔
تاریخی پس منظر:ہندوستان میں LGBT آبادی کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن حکومت نے 2012 میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ملک بھر میں تقریباً 25 لاکھ ہم جنس پرستوں کا ریکارڈ ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف ان افراد پر مبنی تھا جنہوں نے حکومت کو اپنے ہم جنسی رجحان کے بارے میں خود مطلع کیا تھا۔ ان افراد کی تعداد جنہوں نے اپنی شناخت چھپا رکھی ہے اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ تاہم بین الاقوامی ریسرچ ادارے Ipsos کے LGBT+ Pride 2021 کے عالمی سروے کے مطابق 3 فیصد ہندوستانیوں نے اپنی شناخت ہم جنس پرست مرد اور عورتیں، 9 فیصد نے ابیلنگی، ایک فیصد نے pansexual (یعنی مرد اور عورتوں دونوں کی طرف مائل) اور دو فیصد نے غیر جنس پرست (یعنی کسی جنس کی طرف بھی مائل نہیں) کرائی ہے۔ مجموعی طور پر 17 فیصد نے اپنی شناخت heterosexual یعنی دوسری جنس کی طرف مائل نہ ہونے کی کرائی ہے۔ عالمی سطح پر 3 فیصد لوگوں نے اپنی شناخت ہم جنس پرست مرد اور عورتیں، 4 نے فیصد نے ابیلنگی، ایک فیصد نے pansexual (یعنی مرد اور عورتوں دونوں کی طرف مائل) اور 1 فیصد نے غیر جنس پرست (یعنی کسی جنس کی طرف بھی مائل نہیں) کے طور پر کرائی ہے۔
ہم جنس پرستی ایک ہی جنس یا جنس کے ارکان کے درمیان رومانوی کشش، جنسی کشش یا جنسی رویئے کو کہتے ہیں۔ تاریخی ادبی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہم جنس پرستی برصغیر پاک و ہند میں ہمیشہ سے رائج رہی ہے، اور یہ عمل قدیم زمانے سے ہی بحث کا موضوع رہا ہے۔ ہندوستان میں ہم جنس پرستوں کو لازمی طور پر کسی بھی طرح سے کمتر نہیں سمجھا جاتا تھا جب تک کہ 1861 میں برطانوی قانون نے جنسی سرگرمیوں کو “فطرت کے حکم کے خلاف” قرار نہیں دے دیا جس کی سزا عمر قید ہے۔ اس قانون نے مغل شہنشاہ اورنگزیب کی شریعت پر مبنی فتاویٰ عالمگیری (جسے فتاوی ہندیہ بھی کہا جاتا ہے) میں زنا (مرد اور عورت کے درمیان غیر قانونی جنسی تعلق) کے لیے مختلف سزاؤں کی جگہ لے لی۔ ان سزاؤں میں غلام کے لیے 50 کوڑے، آزاد کافر کے لیے 100 کوڑے اور مسلمان کو سنگسار کر کے موت کے گھاٹ اتارنا تھا۔
ملا جلا ردعمل:بھارت کے کئی غیر سرکاری اور سرکاری تنظیموں، جیسے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن، پلاننگ کمیشن اور لاء کمیشن، نے ملک میں ہم جنس پرستی کو جرم نا قرار دینے کی حمایت کی ہے۔ لیکن ملک کے مختلف مذہبی رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے حمایت کی تھی۔ وشو ہندو پریشد نے سپریم عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جنس پرستی ہندوستانی ثقافت، فطرت اور سائنس کے خلاف ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی اسی طرح کے جذبات کی بازگشت کرتے ہوئے کہا تھا کہ “صحیفوں کے مطابق ہم جنس پرستی ایک جرم ہے اور غیر فطری ہے۔ معاشرے میں ایک خاندان ایک مرد اور ایک عورت سے بنتا ہے، نہ کہ عورت اور عورت، یا مرد اور مرد سے. اگر یہ ہم جنس جوڑے بچوں کو گود لیتے ہیں تو بچہ ایک خاندان کے بگڑے ہوئے تصور کے ساتھ پروان چڑھے گا۔ معاشرہ بکھر جائے گا۔ اگر ہم مغرب کے ان ممالک کو دیکھیں جنہوں نے ہم جنس شادیوں کی اجازت دی ہے تو آپ کو وہ ذہنی تناؤ نظر آجائے گا جس سے وہ دوچار ہیں۔”عدالت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے یہودی عالم ایزکیل آئزک مالیکر نے کہا تھا: “ہمارے یہودی صحیفے ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں دیتے۔” دہلی کے کیتھیڈرل چرچ آف دی ریڈمپشن کے پادری پال سوروپ نے کہا تھا کہ “روحانی طور پر، انسانی جنسی تعلقات کی شناخت ایک مرد اور عورت کے درمیان مشترکہ طور پر کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کا نظریہ ہمارے صحیفوں کی توثیق ہے۔ہم جنسیت زمانہ قدیم سے لے کر تہذیب کی ہر منزل پر دنیا کے ہر معاشرے میں موجود رہی ہے، لیکن تاریخ دانوں کے زیر مطالعہ صنعتی انقلاب سے پہلے کی تقریباً تمام 42 ثقافتوں میں اس عمل کو سختی سے ناپسند کیا گیا تھا۔ دنیا کے سبھی مذاہب ہم جنسیت کو ایک بڑا گناہ اور فطرت کے منافی فعل سمجھتے ہیں۔ ابراہیمی مذاہب سے متاثر ہونے والی ثقافتوں میں قانون اور چرچ نے جنسی زیادتی کو الہی قانون کے خلاف یا فطرت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ یہودی صحیفے ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں دیتے جبکہ اسلام ہم جنس پرستی کی سختی سے مذمت کرتا ہے اور سزائیں تجویز کرتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر:LGBT لوگوں کے ساتھ رویہ اور مسلم دنیا میں ان کے تجربات اس کی مذہبی، قانونی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی تاریخ سے متاثر ہوئے ہیں۔ قرآن اور حدیث دونوں ہم جنس پرستی کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۂ القمر میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی اللّٰہ کے غضب سے تباہ ہونے کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس قوم کی تباہی کی وجہ یہ تھی کہ اس کے مرد آپس میں شہوت انگیز جسمانی اعمال میں مصروف ہوتے تھے۔ قرآن نے اس بے حیائی یا فحاشی کو دنیا کی تاریخ میں بے مثال قرار دیا ہے۔ قوم لوط کے گناہ بعد میں ضرب المثل بن گئے، اور عربی زبان میں مردوں کے درمیان مقعد جنسی عمل کے لیے لواطت اور ایسے کام کرنے والے کے لیے لوطی کہا جانے لگا، حالانکہ یہ حضرت لوط علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی صریح گستاخی ہے۔
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ساتویں صدی کے عرب میں ہم جنس پرست رویہ غیر معروف نہیں تھا۔ تاہم یہ دیکھتے ہوئے کہ قرآن نے ہم جنس پرستی کی سزا کی وضاحت نہیں کی، اسلامی فقہاء نے مناسب سزا کے بارے میں رہنمائی تلاش کرنے کی کوشش میں تیزی دکھاتے ہوئے کئی “زیادہ واضح” احادیث کی طرف رجوع کیا۔ بعض احادیث میں عام طور پر مرد ہم جنس پرست یا ہم جنس پرست جماع کرنے والوں کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی ہے۔اگرچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مشہور اور مستند احادیث کے مجموعوں میں ہم جنس پرستی سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں ہے لیکن دیگر روایات کے مجموعوں میں “قوم لوط کے فعل” (مرد سے مردانہ مقعد میں جماع) کی متعدد بار مذمت کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی نے اپنی حدیث کی کتاب سنن الترمذی میں لکھا ہے کہ رسول اللہؐ نے واقعی فعال اور غیر فعال دونوں کے لیے سزائے موت تجویز کی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اگر تم کسی کو لوط علیہ السلام کی قوم کی طرح کرتے ہوئے پاؤ تو اس کے کرنے والے کو قتل کر دو اور اس کو بھی جس کے لیے کیا گیا ہے‘‘۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’اگر کوئی مرد جس کی شادی نہ ہوئی ہو ہم جنسی کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے سنگسار کر دیا جائے گا‘‘۔ (سنن ابو داؤد) ابن الجوزی نے 12ویں صدی میں تحریر میں دعویٰ کیا کہ رسول اکرم ؐ نے متعدد احادیث میں قوم لوط کے عمل میں ملوث ہونے والے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے، اور ہم جنس پرست اعمال میں فعال اور غیر فعال دونوں شراکت داروں کے لیے سزائے موت کی سفارش کی ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع الترمذی، سنن ابن ماجہ)
فقہ کے تمام بڑے مکاتب فحاشی کو قابل سزا جرم سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر مکاتب ہم جنس پرستی کو دخول کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کرتے ہیں جیسے زنا، لیکن سزا کے طریقوں کے حوالے سے ان میں اختلاف رائے ہے۔
مذاہب کے علاوہ بھارت جیسے قدامت پسند اور مذہب مائل ممالک ہم جنس پرستی کو ہمیشہ ایک غیر فطری اور مصنوعی رشتہ تصور کرتے رہے ہیں۔ ایسے رشتوں کو معاشرے میں قانونی اور اخلاقی طور پر قبولیت حاصل نہیں رہی ہے۔حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے بھی حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ازدواجی اختلاط صرف دو مخالف جنس کے لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم جنسیت اور ہم جنس شادی کا معاملہ بہت سنگین اور اہمیت کا حامل ہے اور ایک غلط فیصلہ سماج کے لیے خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ حکمت اور ذہانت سے کام لیتے ہوئے اس کو حل کرے اور ساتھ ہی ساتھ شادی کے فطری طریقے کو قانونی چیلنجوں اور الجھنوں سے بچانے کے لیے آئین میں یہ ترمیم بھی کرے کہ شادی کی تعریف مرد اور عورت کے درمیان رشتے کے طور پر ہی کی جائے گی۔
[email protected]
ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے سماجی ، مذہبی اور قانونی پہلو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS