ہرجندر
کہتے ہیں تاریخ خود کو دوہراتی ہے۔ اگر ہم ایک صدی پہلے پھیلی وبا اسپینش فلو کا موازنہ کووڈ-19سے کریں تو کئی معاملات میں سچ مچ ایسا ہی لگتا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس درمیان سائنس اور گورننس کی سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے۔ بلاشبہ 1918کے اسپینش فلو کی ٹریجڈی زیادہ بڑی تھی۔ وہ کتنی خوفناک تھی، اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد جب 1921میں ملک میں مردم شماری ہوئی تو 1911کی مردم شماری کے مقابلہ آبادی کم ہوگئی تھی۔ پوری ہندوستانی تاریخ میں اس کے پہلے یا بعد میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اسے چھوڑ دیں تو اس ٹریجڈی کے کئی سبق بہت اہم ہیں۔ ایک تو حکومت اس ٹریجڈی کی خوفناکی کا سامنا کرنے میں پوری طرح سے نااہل ثابت ہوئی تھی۔ لیکن دوسری چیز زیادہ اہم ہے کہ اس دوران بہت سی سماجی تنظیمیں ہمارے سامنے آئی تھیں اور انہوں نے تقریباً پورے ملک میں لوگوں کی حقیقی مدد کی تھی۔
ان میں سے زیادہ تر کے نام اور کام ہم نہیں جانتے، کیوں کہ وہ کہیں بھی کتابوں میں درج نہیں ہیں۔ لیکن کچھ نام جو سامنے آتے ہیں، وہ ہمارے معاشرتی شعور اور خدمت کے جذبہ کی صحیح تصویر ہمارے سامنے رکھتے ہیں۔ فی الحال ہم ایسے تین ناموں کا ذکر کریں گے، جن کی کہانی بتاتی ہے کہ بڑی ٹریجڈی کے وقت ہمارا معاشرہ اس کا مقابلہ کیسے کرتا ہے۔
ان میں سے پہلے دو نام دو بھائیوں کے ہیں- کلیان جی مہتا اور کنورجی مہتا۔ اور تیسرا نام ہے دیال جی دیسائی کا۔ یہ تینوں نام گجرات کے ہیں، لیکن جو چیز انہیں آپس میں منسلک کرتی ہے، وہ ہے گاندھی جی کے ستیہ گرہ اور عدم تشدد کے تئیں ڈیڈیکیشن۔اسی وجہ سے یہ تینوں1918کے کھیڑا ستیہ گرہ میں بھی شامل ہوئے تھے۔ تینوں کانگریس کی سورت کانفرنس میں بھی شامل ہوئے تھے۔ مہتا برادرس سرکاری افسران تھے اور دونوں نے ایک ساتھ ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنا آشرم قائم کیا جو آج بھی موجود ہے۔ انہوں نے پٹی دار یووامنڈل کا قیام کرکے نوجوانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی اور اپنے آشرم میں نوجوانوں کو قوم پرستی کی تعلیم دی۔ دوسری طرف دیال جی دیسائی نے بھی انہی کاموں کو اپنے طریقہ سے شروع کیا اور ان کے آشرم میں بھی نوجوانوں کو قوم پرست بنانے کا کام کیا گیا۔
اسپینش فلو وبا کے پھیلتے ہی یہ تینوں اپنے اپنے طریقہ سے سرگرم ہوگئے۔ ان تینوں کے پاس اچھی تعداد میں ڈیڈیکیٹڈ نوجوان تھے اور دراصل وہی ان کی طاقت بنے۔ دو کام سب سے ضروری تھے، لوگوں کو وبا کے تئیں بیدار کرنا اور ان تک دوا پہنچانا۔ اس کے لیے وہ گھر گھر گئے۔ دیال جی دیسائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سائیکل پر بیٹھ کر خود گاؤں گاؤں جاتے تھے۔ حالاں کہ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو کون سی دوا دیتے تھے؟ اسپینش فلو کی تب تک کوئی دوا نہیں تھی۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ انہوں نے کوئی آیورویدک دوا ہی لوگوں کو دی ہوگی۔ وہ دوا کتنی کارگر تھی ہم نہیں جانتے، لیکن ایک مشکل دور میں انہوں نے جس طرح سے معاشرہ کو جوڑ کر رکھنے کا کام کیا، وہ زیادہ اہم ہے۔ ان تینوں نے جو سب سے اہم کام کیا، وہ تھا وبا میں مارے گئے لوگوں کی آخری رسومات کا انتظام کرنا۔ تمام افواہوں اور نامعلوم خوف کے دوران لوگ اس وقت اپنے اہل خانہ کے مردہ جسم کو ویسے ہی چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ ان کی پہل نے آہستہ آہستہ لوگوں کے بھرم دور کیے اور پھر لوگ اپنے اہل خانہ کی آخری رسومات کے لیے خود آگے آنے لگے۔
ایک صدی بعد آج پھر سے ان چیزوں کو یاد رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اس مرتبہ بھی پورے ملک میں جس طرح سے مختلف سماجی تنظیمیں لوگوں کی مدد کے لیے سامنے آئیں، وہ بتاتا ہے کہ مشکل دور میں معاشرہ کو جوڑے رکھنے کا ہمارا جذبہ اب بھی پہلے کی طرح برقرار ہے۔ جب پورا ملک مریضوں کے لیے آکسیجن کے بحران سے نبردآزما تھا، تب جس طرح سے آکسیجن کا لنگر چلایا گیا، وہ ظاہر کرتا ہے کہ خدمت کا جذبہ ہی نہیں، بلکہ لوگوں تک خدمت پہنچانے کی ہماری عمل آوری بھی کسی سے کم نہیں ہے۔
کووڈ-19 کے بحران نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہماری حکومتیں بھلے فوری افرادی قوت، فوری کارروائی جیسی باتیں کرتی ہوں، لیکن وہ سب آخر میں نوکرشاہی کے جال میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ لوگوں کو فوری راحت دینے کا کام، محدود وسائل کے باوجود جس تیزی اور جس درستگی سے ہماری سماجی تنظیمیں کرسکتی ہیں، حکومتیں اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔
اس لیے ان کوششوں کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ لیکن ایک دوسرا سچ یہ ہے کہ اس طرح کی کوششیں چاہے جتنی بھی ہوں، وہ حکومت کے کردار کا متبادل نہیں بن سکتیں۔ ہم اکیسویں صدی کے جس دور میں ہیں، اس میں امید کی جاتی ہے کہ ریاست رفاہی ہوگی اور بحران یا کسی بھی عام وقت میں لوگوں تک کسی بھی طرح کی راحت پہنچانے کا کام آخر میں حکومتوں کو ہی کرنا ہوگا۔ بدقسمی سے، جس وقت ہم اپنی سماجی تنظیموں کو لے کر فخر محسوس کررہے ہیں، حکومتوں کے بارے میں ہمارا تصور ایسا نہیں بن پارہا۔
یہ بدقسمتی اس لیے بھی بڑی ہے کہ ایک صدی پہلے اس ملک میں جو حکومت تھی یا ریاست تھی، وبا آنے پر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ بیشک حالات اب اتنے برے نہیںہیں۔ تمام عدالتی کوششوں اور لوگوں کے دباؤ کے سبب حکومتوں کو سرگرم ہونا پڑا ہے اور راحت بھی کچھ لوگوں تک پہنچنی شروع ہوئی ہے۔ لیکن سچ یہی ہے کہ مسئلہ جتنا بڑا ہے، اس کے مقابلہ حکومت کی تیاریاں اور اس کے وسائل کافی کم ثابت ہوئے ہیں۔ کم یا زیادہ، کم و بیش یہی حالت ایک صدی پہلے بھی تھی۔ یا ہوسکتا ہے کہ اس وقت تیاریاں و وسائل اور بھی ہولناک طور پر کم رہے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک صدی میں یہ تناسب کافی حد تک بدل گیا ہو، لیکن ضرورت اس تناسب کو ہی نہیں، اس کی کوالٹی کو بدلنے کی تھی۔ صحت خدمات کے معاملہ میں ایک یہی چیز نہیں بدلی۔ اب پہلی ترجیح اسے بدلنے کی ہی ہونی چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)