امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
جب بیٹی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اسی وقت سے ماں باپ کا چین و سکون چھن جاتا ہے، نیندیں اڑ جاتی ہیں،ہر وقت اور ہر لمحہ انہیں اپنی بیٹی کی شادی کی فکر دامن گیر رہتی ہے، وہ یہی سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں میری بیٹی کا کوئی رشتہ آئےگایا نہیں، اگر رشتہ آے گا تو پتہ نہیں جہیز کی مانگ کتنی ہوگی، اور کیا ہم اس مانگ کو پورا کرسکیں گے یا نہیں، اور اگر اس منہ مانگی قیمتوں کو ادا نہیں کر پاے تو ہو سکتا ہے کہ بیٹی کا رشتہ بھی منقطع ہو جائے، اور اگر رشتہ ہو بھی گیا تو داماد اور انکے گھر والوں کے لعن و طعن کو میری بیٹی برداشت کر پاے گی یا نہیں، انکے سب وشتم سے بچ پائے گی یا نہیں، ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر میری بیٹی کو طلاق بھی دے دیی جائے، اور اسکے ساتھ وہ رویہ اپنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہی سب فکریں ماں باپ کو گھیرے رہتی ہیں اور انکا چین و سکون چھین لیتی ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہیز کے نہ ملنے یا کم ملنے کی وجہ سے ہزاروں دلہنیں موت کے آغوش میں جاچکی ہیں، اور کتنی ایسی عورتیں ہیں جو سسرال کے ظلم و تشدد کے مقابلے میں خود کشی کرنے پر مجبور ہیں، جہیز کی ڈیمانڈ پورا نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ لعن و طعن کرنے، گالی گلوج اور مار دھاڑ کرنے، نیز عورتوں کو قتل اور جلا دینے کے واقعات یا خود عورتیں اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے واقعات روزانہ ہمارے اخبار کی زینت بنتے ہیں۔
جیسا کہ حال ہی میں ایک عائشہ نامی لڑکی خود کو موت کے آغوش میں جانے کو زندگی جینے کے مقابلے زیادہ ترجیح دیا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ عائشہ کی شادی عارف خان سے ہوئی تھی، لیکن عارف خان کی جو مانگ تھی اسے پورا نہ کرنے کی وجہ سے عارف نے اسے اسکے میکے بھیج دیا تھا، علاوہ ازیں عائشہ کے والدین نے عارف خان پر مقدمہ بھی درج کرایا تھا، جسکی بنا پر دونوں فیملی میں کئی دنوں سے لڑائی جاری تھی، جوکہ عائشہ کو کافی ناگزیر تھی، اور کئی دنوں سے عائشہ ذہنی دباؤ میں مبتلا تھی۔
ایک دن وہ گھر سے نکلی اور ساحل سمندر پر جا پہنچی، اور وہاں پہنچ کر ایک ایسی ویڈیو بنائی جس نے سوشل میڈیا پر تہلکا مچا دیا، اس نے اس ویڈیو میں بڑے درد بھرے انداز میں پہلے سلام کیا اور اپنا تعارف کرایا، اسکے بعد اس نے جو قصہ سنایا وہ قصہ واقعی دل دہلا دینے والا تھا، رونگٹے کھڑے کردینے والا تھا، وہ اپنے بے بسی کا اظہار کر رہی تھی، اپنے دل کی بات کر رہی تھی، تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ، خون کے آنسوؤں کے ساتھ ایک دردانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بات رکھ رہی تھی۔
پھر وہیں کھڑے ہوکر اپنے گھر پر بھی بات کی، اسکا باپ اسے بلاتا رہا وہ انکار کرتی رہی، وہ اسے مناتا رہا، وہ منع کرتی رہی، وہ اسے اماں عائشہ کی یاد دلاتا رہا وہ تقدیر کی بات چھیڑتی رہی، وہ وہ خدا و قرآن کی قسمیں کھا کر کہتا رہا اور اسے بلاتا رہا وہ منہ موڑتی رہی، آخر میں جب اسکے باپ نے خود یہ کہہ دیا کہ میں بھی مر جاؤں گا ساتھ ہی ساتھ گھر والوں کو بھی مار دوں گا وہ فوراً سہم گئی اور گھر آنے کو تیار ہوگئی۔
لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا شاید اسے جہیز کی بات یاد آگئی،اور پھر ذہنی دباؤ کی شکار ہو گئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو ندی کے حوالے کردی۔
بہر حال ایسے واقعات تو وقتاً فوقتاً دیکھنے اور سننے کو ملتے ہی رہتے ہیں، جسکی بنیاد جہیز ہی ہوا کرتی ہے۔
ارے یہ تو وہ قبیح حرکت ہے جسے ہمارے اور آپ کے سرکا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا، یہ ایک ایسی حرکت ہے جو شریعت اسلامیہ میں بھی حرام ہے، لیکن پھر بھی آج اسکا ڈنکا بج رہا ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس جہیز کے قبیح حرکت کو ختم کیسے کیا جائے؟
ارے آج عمر بن خطاب ہوتا تو وہ جہیز کے بھکاریوں کا سر قلم کردیا ہوتا، جب تک وہ اس قبیح حرکت کو ختم نہ کرتا چین سے نہ بیٹھتا۔
آج اگر علی مرتضیٰ ہوتا تو وہ جہیز کے بھکاریوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہوتا، آج اگر ابو بکر ہوتا تو وہ جہیز کے منگتوں کا چھکا چھڑا دیا ہوتا، آج اگر عثمان ہوتا تو وہ ان بھکاریوں کا ہوا اکھاڑ دیا ہوتا۔
ان سے یہ دیکھا ہے نہیں جاتا، جب تک وہ اس قبیح حرکت کو ختم نہ کرتے چین سے نہ بیٹھتے۔
ارے جو آقا کے جانثار ہوں،جو آقا کے وفادار ہوں، اور انہیں کے سامنے شریعت محمدیہ کا مذاق اڑاے تو وہ کیسے خاموش بیٹھ سکتے ہیں۔
لیکن آج تو ہمارے درمیان ابو بکر و عمر، عثمان و علی نہیں رہے، آج ہمارے یہاں خلافت بھی نہیں رہی، کہ جس سے ان تمام مسائل کا قلع قمع کیا جاسکے جو شریعت کے خلاف ہو یا جو مسلمانوں پر بوجھ ہو۔
لیکن اس جیسی کچھ تنظیمیں ہمارے بزرگوں نے قائم کی ہے، جو ہر ایسی چیز کو جو شریعت کے خلاف ہوتی ہے یا مسلمانوں پر ناگزیر ہوتی ہے اسکا بائیکاٹ کرتی ہے۔
مثال کے طور پر جب طلاق ثلاثہ کا معاملہ آیا تو ہر وہ تنظیم جو مسلم سماج کا دیکھ بھال کرتی ہے اور ہر ایسی گھناؤنی چیز کا انکار کرتی ہے جو شریعت کے خلاف ہوتی ہے جیسے مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند، جمیعت اہلحدیث، امارات شرعیہ، ان تمام تنظیموں نے کھل کر اس قانون کا بائیکاٹ کیا، لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کا معاملہ سامنے آیا تو اسکا بھی کھل کر بائیکاٹ کیا۔
اسی طرح اکثر ان تمام مسائل کا بائیکاٹ کیا جو شریعت کے خلاف رہیں یا مسلمانوں پر بار رہیں۔
لیکن ایک ایسا معاملہ جو کہ برق رفتاری سے بڑھتا ہوا جا رہا ہے اور جسے خود مسلم سماج کے لوگ ہی کر رہے ہیں اسے روکنے کی کوی کاوش نہیں کی جارہی ہے، دن بدن جہیز جیسی گھناؤنی چیز بڑھتی ہوئی جارہی ہے، جو کہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور مسلمانوں پر بھی عار ہے، جسکی وجہ سے لاکھوں بیٹیاں اپنی موت کو زندگی پر ترجیح دیتی نظر آرہی ہیں، ہزاروں گھر اجڑے نظر آرہے ہیں، غریب ماں باپ ٹوٹے نظر آرہے ہیں، غریب کی بیٹی سہمی نظر آرہی ہے، لیکن یہ تنظیمیں اس پر کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہیں۔
اس لئے اس بات کی از حد ضرورت ہے کہ وہ تمام تنظیمیں جو خود کو مسلمانوں کا رہبر قرار دیتی ہیں خواہ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ ہو یا جمیعت علماء اہل حدیث ہو، جمیعت علماء ہند ہو یا امارات شرعیہ ہو، ان تمام تنظیموں کو چاہیے کہ وہ کھل کر جہیز کے بھکاریوں کا سماجی بائکاٹ کریں، انکی تقریبات کا بائیکاٹ کریں، انکی شادیوں میں جانے سے گریز کریں، انکے ولیمے میں جانے سے پرہیز کریں اور جم کر انکا سماجی بائکاٹ کریں تب ہی یہ بھکاری راہ راست پر آسکتے ہیں۔