محمد حنیف خان
ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے، جو ملک کی سالمیت اور اس کے بقائے امن کا ضامن ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس سیکولر اور جمہوری ریاست کے قیام سے قبل سے ہی اسے ایک مذہبی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے، جو ابھی تک اپنے مذموم مقاصد میں اگرچہ کامیاب نہیں ہوسکے ہیں مگر انہوں نے اس فکر کو ترک بھی نہیں کیا بلکہ آج بھی وہ ہر سطح پر کوشاں ہیں کہ کسی بھی صورت میں اسے مذہبی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔
18ویں لوک سبھا کے لیے عام انتخابات کے بعد ہوئی حلف برداری میں یہ منظر پورے ملک اور دنیا نے دیکھا کہ پارلیمنٹ جیسے جمہوری اور سیکولر ادارے میں طرح طرح کے نعرے گونجے۔لیکن اچھی بات یہ رہی کہ اسی پارلیمنٹ سے اس کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند ہوئی اور متنازع و غیر جمہوری نعروں کو سخت الفاظ میں مسترد بھی کردیا گیا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس آئین کی سالمیت اور اس کے نفاذ کا حلف ان ممبران پارلیمنٹ نے لیا، انہوں نے اسی لمحے اخلاقی سطح پر اس کی دھجیاں بھی اڑا دیں۔
پارلیمنٹ میں یوں تو کئی ممبران پارلیمنٹ نے حلف اٹھانے کے درمیان متنازع نعرے بازی کی مگر تین ممبران پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، ارون گوول اور چھترپال سنگھ گنگوار ایسے رہے جنہوں نے ملک کے جمہوریت پسند عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔
اسدالدین اویسی نے حلف برداری کے آخر میں جے فلسطین جوڑا، بریلی سے ممبر پارلیمنٹ چھترپال سنگھ گنگوار نے جے ہندو راشٹر کا نعرہ لگایا جبکہ میرٹھ سے پارلیمنٹ ارون گوول نے جے شری رام کے نعرے لگائے۔
حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسدالدین کے ذریعہ جے فلسطین کے نعرہ لگائے جانے کے بعد ہمیشہ کی طرح تنازع شروع ہوگیا جبکہ پارلیمنٹ میں لگائے گئے جے ہندو راشٹر اور جے شری رام کے نعروں کے پس پشت چھپی فکر اور معاشرے پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات پر گفتگو نہیں ہوئی بلکہ حکمراں پارٹی سے وابستہ ممبران پارلیمنٹ سے لے کر باہر ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا تک پر سب اویسی کے پیچھے پڑ گئے اور ان کے خلاف ایک محاذ کھول دیا۔ایک ٹی وی چینل نے تو یہاں تک اسکرولنگ چلا دی کہ کیا اویسی اب ’’سابق ممبر پارلیمنٹ ہوجائیں گے۔‘‘
اسد الدین اویسی کو بطور سابق ممبر پارلیمنٹ دیکھنے کی خواہش رکھنے والے آئین ہند کی دفعہ102کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دفعہ کی رو سے ان کی رکنیت منسوخ کردی جانی چاہیے۔ در اصل آئین ہند کی دفعہ102 ممبران کی رکنیت کی منسوخی کے تعلق سے ہے جس کی ذیلی شقوں پر19مئی1949 اور13اکتوبر1949کو دو بار بحث ہوئی جس کے بعد اسے آئین میں شامل کر لیا گیا۔ سب سے زیادہ بحث اس بات پر ہوئی کہ حکومتیں اس دفعہ کا غیر مناسب استعمال نہ کرکے اپنے مخالفین کو پارلیمنٹ سے باہر نہ کرسکیں، اس دفعہ میں دو بار ترمیم بھی ہوچکی ہے۔دفعہ 102میں پانچ شقیں ہیں، چوتھی شق(گھ) کے تحت کہا گیا ہے کہ ایسا رکن پارلیمنٹ جو ہندوستان کا شہری نہیں ہے یا اس نے اپنی مرضی سے کسی دوسرے ملک کی رکنیت حاصل کرلی ہے یا کسی دوسرے ملک کے تئیں وفاداری یا اس کے قانون پر ترجیحی بنیاد پرعمل کرتاہے تو اس کی رکنیت منسوخ ہوجائے گی۔ اس تیسری شق کے آخری جز کو ہی مد نظر رکھ کر یہ دعویٰ کیا گیا اور صدر جمہوریہ سے لے کر سپریم کورٹ تک میں عرضی دے کر مطالبہ کیا گیا کہ ان کی رکنیت کو منسوخ کردیا جائے۔
بادی النظر میں تو محسوس ہوتاہے کہ اسدالدین اویسی نے ’جے فلسطین‘ کا نعرہ لگا کر غلط کیا اور اس موقع پر ایسا کرنا غیر مناسب بھی تھا مگر اس نعرے کے ذریعہ وہ کسی دوسری ریاست کے تئیں نہ تو اپنی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے اور نہ خود پر وہاں کے قوانین کا نفاذ کر رہے تھے بلکہ اس وقت روئے زمین کے سب سے مظلوم، مقہور اور محروم ملک کے عوام کی جانب وہ حکومت اور ممبران پارلیمنٹ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کی حکومت فوری طور پر اقدام کرکے اس جنگ کو بند کرانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ فلسطین کو انسانیت کی پامالی سے بچایا جا سکے، پارلیمنٹ کے باہر انہوں نے اپنے نعرے کی یہی توضیح بھی کی اور بتایا کہ انہوں نے یہ نعرہ کیوں لگایا۔ اسدالدین اویسی چونکہ بیرسٹر ہیں اور آج تک قانونی سطح پر کبھی وہ قانونی گرفت میں نہیں آئے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ قانون کو مد نظر رکھ کر ہی بیان دیتے ہیں یا کوئی عمل کرتے ہیں، ایسے میں ان کی رکنیت پر خطرہ نہیں ہوگا البتہ دائیں بازو کی فکر کے حاملین کو موقع ضرور مل گیا اور انہیں ایک بیانیہ قائم کرنے میں کامیابی مل گئی کہ اسدالدین اویسی ملک مخالف ہیں اور پارلیمنٹ میں ایک دوسرے ملک کی جے کا نعرہ لگاکر ملک سے غداری کے وہ مرتکب ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس بیانیہ کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایک صاحب نے ٹوئٹ کیا کہ اویسی کا حلف کے بعد جے فلسطین کا نعرہ شرمناک ہے اور اس کے فوراً بعد دوسرا ٹوئٹ کیا کہ چھتر پال سنگھ گنگوار نے اسلامسٹ اویسی کو جے ہندو راشٹر کا نعرہ لگا کر جواب دیا۔ یوپی کے سبکدوش آئی اے ایس افسر سوریہ پرتاپ سنگھ اپنے بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے ٹوئٹ کیا ’’آج جے فلسطین، تو کل جے چین اور جے پاکستان کا بھی نعرہ لگایا جاسکتاہے، یہ کیسا ماحول بنانے کی کوشش ہے اس ملک میں، جہاں ’جے سنودھان‘، ’بھارت ماتا کی جے‘ بولاجانا چاہیے وہاں دوسرے ملک کی جے جے کار؟ کیا یہ سنودھان اور ملک مخالف طرز فکر نہیں ہے؟ کیا لبرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس تھالی میں کھاؤ اسی میں چھید کرو۔‘‘
آئی اے ایس افسر کو فلسطین کا نعرہ تو دکھائی اور سنائی دے گیا جس کے آئین اور ملک مخالف ہونے کا اعلان کردیا لیکن جے ہندو راشٹر اور جے شری رام کے نعرے انہیں سنائی نہیں دیے۔سیکولرازم اور جمہوریت کے ساتھ ہی امن کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جانے والے نعروں کی شناعت اور اس کے پس پردہ چھپی ہوئی فکر اور اس کے منفی اثرات سے وہ یا تو نابلد ہیں یا پھر جان بوجھ کر اس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔چونکہ ان دونوں نعروں سے متعلق ملک کے عوام بخوبی واقف ہیں اور انہیں وہ مقاصد بھی معلوم ہیں جن کے حصول کے لیے یہ نعرے لگائے جاتے ہیں، اس لیے کوئی اس پر بات نہیں کررہا لیکن پارلیمنٹ کے باہر اور پارلیمنٹ کے اندر کہی گئی باتوں کے الگ الگ مضمرات ہوتے ہیں،اسی لیے ہر اس لفظ کو ریکارڈ سے خارج کردیا جاتا ہے جو غیر پارلیمانی ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ریاست ہے جس سے انکار وہ لوگ بھی نہیں کرسکتے ہیں جو آئینی عہدوں پر ہیں، اگرچہ ان کا تعلق اس تنظیم سے ہے جس کا بنیادی مقصد اس ملک کو ہندو راشٹر بناناہے۔ان لوگوں میں یہ ہمت اس لیے نہیں ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ملک کے عوام سیکولر اسٹیٹ میں یقین رکھتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں جے ہندو راشٹر کا نعرہ کا مطلب ہے کہ ایسا شخص اسٹیٹ کی جمہوریت اور اس کے سیکولرازم میں یقین نہیں رکھتا ہے جبکہ آئین کی بنیاد ہی ان ہی دو الفاظ پر ہے کیونکہ یہی الفاظ ملک کی تکثیریت کو وحدت میں پروتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر، اس طرح کے نعروں کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی ایسا کرتاہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔لیکن حکومت نہ تو باہر ایسی ذہنیت رکھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور نہ پارلیمنٹ کے اندر ایسا کرنے پر انہیں قابل تعزیر تصور کرتی ہے، لیکن اگر کوئی خالصتانی پارلیمنٹ میں جے خالصتان یا کوئی علیحدگی پسند ایسا نعرہ لگادیتا یا اویسی ہی جے ہندو کی جگہ جے مسلم راشٹر کا نعرہ لگادیتے تو سوچئے کیا ہوتا؟ پارلیمنٹ کے ممبران اور ملک کا میڈیا ایسا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا؟
در اصل اس طرح کے نعروں کے خلاف خاموشی اختیار کرکے معاشرے میں ان نعروں کو قبول کیے جانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، اسی لیے ہندو راشٹر کے تصور کو بار بار دہرایا جارہاہے جبکہ یہ آئین مخالف ہے چونکہ ہندوستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے جس کا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لیے ہندو راشٹر یا اس طرح کے نعروں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ پارلیمنٹ میں جے ہندو راشٹر کا نعرہ لگائے جانے پر سماجوادی پارٹی کے سپریمو اکھلیش یادو نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نعرہ آئین مخالف ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس نعرے کے بعد پورے پارلیمنٹ میں ہر طرف سے یہی آواز گونجتی مگر پارٹی سسٹم چونکہ بھیڑ چال ہوتی ہے، وہاں پارٹی کی لائن پکڑ کر چلنا ہوتاہے، اس لیے وفاداری ملک اور آئین کے بجائے پارٹی سے کی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اس طرح کے نعروں کے خلاف پارلیمنٹ کے ہر کونے سے آواز آئے گی کہ یہ نعرہ آئین کے خلاف ہے۔ لیکن ممبران پارلیمنٹ کی یہ وفاداری ملک کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے جس سے یہاں کے آئین کے بنیادی مقاصد پر ہی صرف ضرب نہیں لگتی بلکہ ملک ایک ایسی سمت کی جانب جاتا ہوا دکھائی دیتاہے جہاں تنوع اور کثرت میں وحدت کے بجائے یک رنگی ہو جو اس ملک کی سالمیت، بقا، اخوت و محبت اور اس کے امن و امان کے لیے سم قاتل ہے جس کا کوئی تریاق نہیں۔
[email protected]