سر سید احمد خاںؒ : ایک عہد ساز شخصیت: ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی

0

ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی

جدید ہندوستان کے معمارِ اول سر سید احمد خاںؒ کی پیدائش کوآج یعنی 17؍ اکتوبر کو 207 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ہندوستانی تاریخ میں شاید ہی مسلمانوں میں ایسی شخصیت ہو جس کی یوم پیدائش اتنی دھوم دھام سے منائی جاتی ہو، اس دن کو ملت اسلامیہ ہند اپنے لئے قابل فخر سمجھتی ہے اور خاص کر پوری دنیا میں کثیر تعداد میں پھیلے سر سید احمد خاں کے مبارک ہاتھوں قائم کردہ ’مدرسۃ العلوم‘(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کے فارغ التحصیل طلبا برادری جو اپنے کو ’ علیگ‘ کا لقب دیتی ہے اس دن کو ’ عید علیگ‘ کے طور پر مناتی ہے اور یہ دن ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کیوں کر مسرت و شادمانی کا نہ ہو کہ اس دن پیدا ہونے والے شخص واحد نے پوری دنیا خاص کر وطن عزیز میں ایک تعلیمی انقلاب کا لائحہ عمل پیش کیا اور اس انقلاب کو عملی جامہ پہنایا۔ سر سید احمد خاںؒ نے ہندوستانی مسلمانوں کو عروج و اقبال کا ایک جدید فارمولا دیا جس کی تفصیل ذیل میں قارئین کے سامنے پیش کی گئی ہے۔
علی گڑھ تحریک کا پس منظر اور سر سید احمد خاںؒ کا جدید نظریہ تعلیم ایک تاریخی منظر نامہ ہے جس کو سامنے رکھ کر سر سید کی شخصیت کو مکمل طور پر سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ آخر سر سید جیسی ذات کیوں صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ عہد سر سید احمد کے منظر نامے پر روشنی ڈالتے ہوئے نور الحسن نقوی صاحب نے اپنی کتاب’سر سید اور ان کے کارنامے‘ میں کچھ اس انداز میں کلام کیا ہے ’ ہمارا ملک ساڑھے چھ سو برس مسلمان بادشاہوں کے زیر نگیں رہا، اس دوران علاؤ الدین خلجی، شیر شاہ سوری، اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں جیسے صاحب جاہ و چشم بادشاہ وقت گزرے جن کی سخاوت و شجاعت، عدل و انصاف اور انسان دوستی و رعایا پروری کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر نقش ہیں، مگر جب انیسویں صدی کا آغاز ہوا، حکمرانوں کی زمام حکومت کا منظر نامہ کچھ اور داستان بیان کر رہا تھا، دہلی میں بادشاہوں کے تخت و تاج کمزور، عیش و عشرت اور مستی و خوابگاہی ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی، ان کی کمزوریوں و لاپروائیوں نے بدیسی طاقتوں کے لئے موقع فراہم کیا، انگریز ہندوستان پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگے اور دھیرے دھیرے وہ خود کو اپنے مقصد حکمرانی میں کامیاب دیکھنے لگے، اور ہندوستان پر قابض ہوگئے، 1857 کا غدر ہوا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اکھاڑ پھینک دیاگیا، جو کل تک تاج و تخت کے مالک تھے اب دست سوال بن گئے اور ہندوستانی مسلمان زبوں حالی کا شکار ہوگیا، ہندوستانی مسلمانوں کی بے بسی ان کی تصویر بن گئی۔
ان نا گفتہ بہ حالات میں مسلم قوم کا درد رکھنے والا ایک درد مند شخص اس منظر نامہ کو دیکھ کر اپنی بے قراری کو روک نہ پایا، ذلت و پستی میں پڑی قوم کے لئے نسخہ کیمیا کی تلاش میں دیوانہ وار نکل پڑا اس نیک دل انسان کا نام سید احمد تھا جو آگے چل کر پوری دنیائے افق پر سر سید احمد خاں کے نام سے نمودار ہوا اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے جدید تعلیمی نظام میں ان کی ترقی کا راز سمجھایا، اس کے لئے سر سید احمد خاں نے اپنی ذات کو فنا کردیا تب کہیں جا کر اس طرح کا یہ عظیم میخانہ علم و فن تعمیر ہوا ، جسے دنیا آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانتی ہے اور اس درسگاہ کا طالب علم ہوناایک اعزاز اور باعث فخر و افتخار سمجھا جاتا ہے۔ سر سیدؒ کی شخصیت ایک انقلاب آفریں تاریخ رقم کرنے والی ذات تھی۔ ان کی ذات کو مختلف شعبہائے زندگی کے جس آئینہ میں دیکھا جاتا ہے، اس میں وہ مکمل نظر آتے ہیں۔ سر سید احمد خاں کی با کمال شخصیت کے لئے نوک قلم کو کئی زاویہ سے تراشنا ہوگا اس کے بعد ہی ذات سید کا احاطہ ممکن ہے۔
پروفیسر الطاف اعظمی مرحوم نے اپنی کتاب ’تفہیم ِسر سید‘کے دیباچے میں سر سید کو کئی زاویۂ بصارت سے دیکھنے کی جدو جہد کی ہے اور مرحوم پروفیسر اپنی اس تحریر میں صادق نظر آتے ہیں۔ وہ سر سید احمدؒ کے بارے میں لکھتے ہیں ’ سر سید احمد خاںؒ کی عظیم شخصیت پر جب غور کرتا ہوں تو ان کے علمی کاموں کے تنوع کو دیکھ کر حیران و ششدر ہو جاتا ہوں کہ وہ اپنے عہد کے علوم وفنون سے صرف واقف ہی نہیں تھے بلکہ انہیں ان پر پوری قدرت حاصل تھی، اگر ایک طرف انشاء پرداز و ادیب تھے تو دوسری طرف ایک روشن خیال اور وسیع النظر عالم دین بھی تھے اور بالغ نظر مؤرخ اور ماہر آثار قدیمہ بھی، انہوں نے تاریخ اور علم الآثار کوایک نیا علمی رنگ اور تحقیقی منہج عطا کیا، وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے اور واقف رموز سیاست بھی تھے، وہ صحافی بھی تھے، وہ خطیب بھی تھے، وہ قانون دان بھی تھے، وہ ماہر فن تعمیر بھی تھے، اگر کسی کو اس میں شک و شبہ ہو وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جا کر اس کی بلند و بالا پر شکوہ و دلفریب عمارتوں کا دیدار کرلے‘۔
سر سید احمد خاںؒ انیسویں صدی کے عظیم مصلح قوم اور ایک دانشور و مفکر تھے۔ وہ اپنی قوم کی زبوں حالی کے خودنوشت گواہ تھے اور قوم کی فارغ البالی کے لیے نسخہ حیات کے لئے متفکر بھی تھے۔ سر سید ملک میں رائج قدیم تعلیمی نظام سے مطمئن نہیں تھے۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے مسلمان قوم کے متعلق اپنے کتابچہ میں سر سید احمد کی بے چینی کا ذکر کیا جو کہ سر سید کا ہی قول ہے ’ایسے مدرسوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے، افسوس ہے کہ مسلمانان ہندوستان ڈوبے جاتے ہیں اور ان کو کوئی نکالنے والا نہیں، ہائے امرت تھوکتے ہیں اور زہر نگلتے ہیں، افسوس ہاتھ پکڑنے والے کے ہاتھ کو جھٹک دیتے ہیں اور مگر مچھ کے منھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہیں‘۔ بابائے اردو مولوی عبد الحقؒ نے سر سید کی شخصیت کے بارے میں بڑے تاریخی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ ’سر سید نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کی اصلاح کی۔ تعلیم، معاشرت، مذہب، سیاست، زبان و ادب سب پر سر سید کا احسان ہے، وہ جیسا مفکر تھا ویسے ہی میدان عمل میں مجاہد بھی تھا، ایسی جامع صفات و بے لوث و بے نفس، پر عزم و پر استقلال، سراپا خلوص و صداقت اور ہمہ تن ایثار و قربانی دینے والا مصلح اس سے پہلے نصیب نہیں ہوا اور نہ ہی دنیا نے اس کے بعد دیکھا، اس وقت ہم کو ایک ایسے ہی بڑے مفکر اور باعمل ہستی کی ضرورت ہے‘۔ (جاری)
(اسسٹنٹ پروفیسر ،فیکلٹی آف تھیولوجی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS