ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
سر سید احمد خان کی ذات ایک بے لوث مرد آہن کی تھی ان کا خواب قوم کو ترقی و بام عروج کی منازل پر پہنچانا ان کا مقصد زندگی بن گیا تھا۔ انہوں نے حالات سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا خواہ حالات کتنے بھی نا گفتہ بہ ہوں حالات کی کشیدگی کو دیکھ کرسر سیدؒ کے لئے گوشہ نشینی اختیار کرلینا ناممکنات میں سے تھا، اس مرد ِمؤمن کے تعلق سے پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم نے ان کی عظمت اور ان کی خاص شناخت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے ’اگر وہ (سر سید احمد خانؒ) چاہتے تو کسی خانقاہ میں بیٹھ جاتے اور ایک عالم کے لئے رشد و ہدایت کا ذریعہ بنتے، خالص سیاست کا راستہ اختیار کرتے ایک بڑی جماعت کے قائد ہوتے، کسی عہدے کی کوشش کرتے تو سب سے اونچے منصب پر فائز ہوتے، ادیب و شاعری کی راہ اختیار کرتے تو ایک زمانے تک داد پاتے، فلسفہ و مذہب کی وادی میں نکل جاتے تو کتنے ہی ہاتھوں کے سردار اعلیٰ بن جاتے، تعمیر عمارت میں دلچسپی رکھتے، تو عہد شاہجہانی کی باز یافت کرتے، قانون پر اکتفاء کرتے تو اپنے وقت کے سب سے بڑے مقنن(قانون ساز) قرار پاتے‘۔
سر سیدؒ کے اصلاحی مشن میں سفر ِ پنجاب کو بڑی اہمیت حاصل ہے، گورنمنٹ اسکول جالندھر کے طلبا کی دعوت پر آپؒ جب وہاں تشریف لے گئے تو ’بھگت رام‘ نامی ایک طالب علم نے نمائندگی کرتے ہوئے سر سید احمد خان ؒ کا تعارف کرایا اور آپؒ کو یوں محبت و عقیدت کے الفاظ پیش کئے۔ پروفیسر توقیر عالم فلاحی کی تصنیف ’سر سید کا اصلاحی مشن‘ میں ’بھگت رام‘کے تعارفی کلمات کچھ یوں درج ہیں ’جناب سید صاحب صرف ایک قوم یا ایک خاص فرقے کے ہی مددگار نہیں ہیں بلکہ وہ بابو کشیپ چندر سین اور شری سوامی دیانند سرسوتی کے پیروؤں کو بھی اسی نظر ِ عنایت سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ وہ خاص مسلمانوں کے ہی معاون نہیں ہیں بلکہ وہ کل ملک کے مددگار اور کل ہندوستان کے جانثار ہیں، آج کا دن جالندھر کے واسطے عموماًاور ہم طلبا کے واسطے خصوصاً ایک مبارک دن ہے جس میں ہم کو ایک حامئی قوم اور معاونِ ملک بزرگ کی زیارت نصیب ہوئی‘۔سر سید احمد خانؒ نے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک جدید فلسفہ تعلیم پیش کیا اور کہا کہ ترقی کا راز اس جدید نظام تعلیم میں محفوظ ہے اور مروجہ تعلیمی نظام کی ناقصیت نے سرسید کو رنجیدہ خاطر کر دیا تھا۔ سر سید نے کہا کہ دنیاوی فلاح و کامرانی کا راز مغربی تعلیم کے حصول میں پوشیدہ ہے۔ جولائی 1874 کو اپنی ایک تقریر میں سر سیدؒنے صاف الفاظ میں کہا ’ اگر ہم صرف یہی مقصد رکھیں کہ وہی پرانا فلسفہ، ہیئت اور منطق پڑھائیں اور ان علوم سے کچھ سروکار نہ رکھیں جو آج ترقی یافتہ قوموں میں رائج ہیں تو ہم درحقیقت اپنی قوم کے ساتھ کچھ بھلائی نہ کریں گے، جدید علوم ہماری قوم میں 700 برس پہلے تعلیم میں داخل ہوئے تھے اگر آج ہم ان پر ہی قناعت کریں گے، تو گویا ہم اپنی قوم کو حال کی ترقی سے سو برس پیچھے لے جائیں گے، توپس ہم کو مضبوطی کے ساتھ ارادہ کرنا چاہئے کہ جس قدر علوم ِدنیاوی تعلیم سے متعلق ہیں مثلا الجبرا، زولوجی، جیالوجی، لوجک، ماڈرن فلاسفی، کیمسٹری اور تمام علوم جو ترقی یافتہ قوموں میں رائج ہیں بڑے اہتمام اور کامل طور سے دیں‘۔
سرسید احمد خانؒ نے 1887 میں ایک بار لکھنؤکے ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے ناصحانہ انداز میں فرمایا تھا کہ ’ جو چیز تم کو اعلیٰ درجے تک پہنچانے والی ہے وہ صرف ہائر ایجوکیشن ہے، جب تک ہماری قوم میں ایسے بزرگ پیدا نہ ہوں گے، ہم ذلیل رہیں گے اور پست رہیں گے اور عزت کو نہیں پہنچیں گے جس پر پہنچنے کو ہمارا دل چاہتا ہے‘۔سر سید احمد خانؒ نے تعلیم کا جو جدید نظریہ پیش کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ روحانیت سے خالی تھا۔ انہوں نے تعلیم کے ساتھ نوجوان نسل کی تربیت کو اس تعلیم کا لازمی جز قرار دیا اور تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازم ملزوم قرار دیا۔ سرسید احمدؒ نے ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ ’ صرف تعلیم سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا، کیا صرف تعلیم سے انسان انسان بن جاتا ہے اور کمثل الحمار یحمل اسفارا (اور یعنی ان کی مثال گدھوں کی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں) اس سے زیادہ مرتبہ پا سکتا ہے؟ کیا صرف تعلیم سے قوم قوم بن جاتی ہے کیا صرف تعلیم سے کوئی قوم عزت پا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ جب تک وہ انسان نہ بنے یہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی۔ پس تعلیم سے زیادہ وہ چیز کرنی ہے جس کو ہم تربیت کہتے ہیں اور جو قوم کو قوم بننے کے لیے ایسی ہے جیسے جان بدن کے لیے ‘۔ سر سید احمد خانؒنے تعلیم و تربیت کا ایسا جامع تصور پیش کیا جو اور اداروں اور کالجوں میں دیکھنے کو کم ملتا ہے بلکہ کمیاب ہے اسی لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک ادارے کے ساتھ ساتھ سرسید کی تربیت گاہ بھی کہا جاتا ہے۔سر سید کی فکر آج کے عالمی منظرنامے میں خاص طور پر مسلم کمیونٹی کیلئے بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے ایک ایسے دور میں مسلمانوں کو جدید تعلیم اور سائنسی علوم کی طرف راغب کرنے کا بیڑا اٹھایا جب ہندوستانی مسلمان تعلیمی پسماندگی اور معاشرتی زوال کا شکار تھے۔ ان کی بصیرت اور دور اندیشی آج بھی مسلمانوں کیلئے رہنمائی کا ایک قیمتی ذریعہ ہیں۔
سر سیدؒنے مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے ان کی تعلیمات نہایت اہم ہیں۔ مسلم دنیا میں تیز رفتار ترقی کیلئے جدید تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنا سر سید کی فکر کا اہم حصہ ہے۔ اس کے علاوہ سر سید کا بین المذاہب ہم آہنگی، انسانی بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کا پیغام آج کے دور میں انتہائی ضروری ہے جب دنیا میں مذہبی انتہاپسندی اور تعصبات عروج پر ہیں۔ ان کا مشن مسلمانوں کو خود مختار اور خود کفیل بنانا تھا اور انہوں نے زور دیا کہ مسلمان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خود انحصاری کی راہ اپنائیں۔ آج جبکہ مسلم دنیا کو سیاسی، سماجی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے سر سیدؒکی یہ تعلیمات اور نظریات ان مسائل کے حل کیلئے نہایت موزوں ہیں۔ سر سیدؒ کا وژن اور مشن مسلمانوں کیلئے ترقی کی راہیں کھولنے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اور بہتر معاشرے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے اگر ان کی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے۔(آخری قسط)
[email protected]