سرسید اکیڈمی اور اس کی قابل تحسین سرگرمیاں: پروفیسر اخترالواسع

0

پروفیسر اخترالواسع
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 1970 میں بنے ہوئے 50سال ہوا چاہتے تھے کہ اسی مناسبت سے یونیورسٹی کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹی کی گولڈن جبلی منائی جائے ،لیکن یہی وہ وقت تھا جب اس کے اقلیتی کردار جو کہ 1965کے ایک ناخوشگوار حادثے کی بنا پر بحق سرکار ضبط کر لیا گیا تھا، کی لڑائی زوروں پر تھی۔ اس وقت ہم سب نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک اقلیتی کردار بحال نہیں ہو جاتا یونیورسٹی میں کوئی جشن نہیں ہونا چاہیے۔ 3دن کی اسٹرائک کے بعد اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر عبدالعلیم مرحوم نے طلبہ کی یہ مانگ مان لی اور جشن کا پروگرام منسوخ ہو گیا لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ سرسید کا مکان جو کہ انتہائی خستہ حالت میں تھا، پروفیسر خلیق احمد نظامی مرحوم کی تحریک پر اس کی تعمیر اور تزئین نو کا بیڑا اٹھا لیا گیا اور اسی طرز پر جس پر سرسید نے اسے بنایا تھا اس کی تعمیرنو ہو گئی۔
لیکن شاید بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ سرسید کا انتقال اپنے گھر میں نہیں، جہاں سے بیماری کی حالت میں ان کے بیٹے سید محمود نے کالج کی چابیاں ان کے حوالے نہ کرنے پر نشے کی حالت میں بوڑھے باپ کو گھر سے نکال دیا تھا اور سرسید دتاولی کے نواب اسماعیل خاں کے گھر آ گئے اور وہیں انہوں نے آخری سانسیں لیں۔ جب سرسید کا انتقال ہوا تو ان کے پاس کفن دفن کے لیے بھی پیسے نہیں نکلے اس پر نواب صاحب اسماعیل خاں نے کہا کہ سرسید کی آخری رسومات کا خرچہ وہ اٹھائیں گے لیکن محسن الملک آگے بڑھ کر آئے اور انہوں نے کہا کہ سرسید کے کفن دفن کا انتظام چندے سے کیا جائے گا۔ اب سید صاحب چندہ مانگنے کہاں آئیں گے۔ اس طرح 27 مارچ 1898 کو امت کا مسیحا، دلِ دردمند رکھنے والے، تعلیم کو عام کرنے کے لیے کوششیں کرنے والے سرسید کا انتقال ہو گیا۔
خیر یہ بات تو ایسے ہی تذکرہ میں آ گئی۔ بعد میں نظامی صاحب کی تحریک پر ہی سرسید اکیڈمی کی اسی گھر میں جہاں سرسید رہتے تھے وہاں پر اساس رکھی گئی اور نظامی صاحب اس کے بانی ڈائریکٹر ہوئے اور 1974ء سے 1975ء تک پہلے اس منصب پر رہے، بعد ازاں وہ شام میں ہندوستان کے سفیر بنا دیے گئے اور جب وہاں سے لوٹے تو 1977ء سے 1985ء تک ایک دفعہ پھر سرسید اکیڈمی کی باگ ڈور اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر علی محمد خسرو نے ان کے ہاتھوں میں سونپ دی۔ اس بیچ کے وقفے میں پروفیسر ظہیرالدین ملِک نے سرسید اکیڈمی کی باگ ڈور سنبھالی۔ ان کے بعد پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر شان محمد، پروفیسر افتخار عالم خاں، پروفیسر اصغر عباس، پروفیسر سعود عالم قاسمی، پروفیسر صلاح الدین عمری، پروفیسر طارق احمد، پروفیسر علی محمد نقوی نے اکیڈمی کی سربراہی کی۔ چلتے چلتے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر گلریز احمد نے سرسید اکیڈمی کی باگ ڈور مشہور مصنف، محقق، ذرائع ابلاغ عامہ کے ماہر، سرسید کے عاشق صادق پروفیسر شافع قدوائی کے سپرد کر دی۔
جہاں تک سرسید اکیڈمی کی اشاعتی سرگرمیوں کا سوال ہے، اب تک وہ گیارہ جلدوں میں مقالات سرسید، جی ایف آئی گراہم کی تصنیف ’’لائف اینڈ ورک آف سرسید احمد خاں‘‘، کرسچیئن ڈبلیو ٹرال کی تصنیف’’سید احمد خاں: اے ری انٹرپریٹیشن آف مسلم تھیولوجی‘‘، شیام کرشن بھٹناگر کی تصنیف’’ہسٹری آف ایم اے او کالج علی گڑھ‘‘ ، کرسچیئن ڈبلیو ٹرال کی تصنیف’’تبئین الکلام: دی گوسپل ایکورڈنگ ٹو سید احمد خاں‘‘، اور سرسید کے پوتے سر راس مسعود اور سرسید کے رفقاء اور علی گڑھ تحریک کی ممتاز شخصیات بشمول راجہ جے کشن داس، جسٹس سر شاہ محمد سلیمان، نواب وقار الملک، نواب سر حافظ احمد سعید خاں، پاپا میاں شیخ عبداللہ، مولوی چراغ علی، کرنل بشیر حسین زیدی، صاحب زادہ آفتاب احمد خاں، سر ضیاء الدین احمد اور حاجی محمد اسماعیل خاں رئیس دتاولی پر مونوگراف اور سرسید ڈے پر دیے گئے کلیدی خطبات کو شائع کرچکی ہے۔
شافع قدوائی کا معاملہ یہ ہے کہ نئے نئے موضوعات ان کے خیال میں غیب سے آتے ہیں اور وہ ان پر یا تو خود قلم اٹھاتے ہیں یا دوسروں سے لکھواتے ہیں۔ فی الحال وہ سرسید کی سوانح ’’حیات جاوید‘‘ اور میر ولایت حسین کی آپ بیتی کے تصحیح شدہ ایڈیشن عنقریب منظرعام پر لانے والے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی سرسید احمد خاں کی اولین اردو سوانح حیات، الطاف حسین حالی کی ”حیات جاوید” کے تصحیح شدہ ایڈیشن کی مع حواشی، تعلیقات و اشاریہ کی اشاعت کا فیصلہ سرسید اکیڈمی نے کیا ہے، جو کہ سرسید ڈے پر انشاء اللہ منظر عام پر آجائے گی۔ اس کے ساتھ ہی سرسید کے ایک رفیق اور مدرسۃ العلوم کے ٹیچر میر ولایت حسین کی آپ بیتی، جو علی گڑھ تحریک کی تفہیم کا اساسی حوالہ ہے، بھی مع حواشی و تعلیقات شائع کی جارہی ہے۔سرسید اپنی ملازمت کے دوران اور وائسرائے کی قانون ساز کونسل اور شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کے گورنر کی قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے جن شہروں بشمول آگرہ، بنارس، غازی پور، بجنور، میرٹھ، مرادآباد، کلکتہ، نینی تال، روہتک، الہ آباد اور شملہ وغیرہ میں قیام پذیر رہے، وہاں ان کی سرگرمیوں پر مبنی مونوگراف بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ ان میں چند کتب کا اجراء 17 اکتوبر کو یوم سرسید کی تقریب میں بھی عمل میں آئے گا۔
حیات جاوید پہلی بار 1901 ء میں شائع ہوئی۔ اس کے متداول ایڈیشنوں میں مختلف مقامات پر تسامحات در آئیں۔ ان کی تصحیح اور قرآن شریف کی آیات و احادیث کی تخریج کی ضرورت تھی۔ حیات جاوید میں جن اشخاص، کتابوں اور مقامات کا ذکر ہے ان پر حواشی و تعلیقات کی ضرورت تھی۔ اشاریہ بھی نامکمل تھا۔ اسی طرح حیات جاوید جب 1901ء میں شائع ہوئی تو اس پر وحیدالدین سلیم، مولانا حبیب الرحمٰن خاں شروانی، سر عبدالقادر اور مولانا ابوالکلام آزاد کے تفصیلی تبصرے شائع ہوئے۔ ان اولین تبصرو ں سے واقفیت عام نہیں ہے۔ چنانچہ تصحیح شدہ ایڈیشن میں ان مذکورہ تبصروں کو بھی شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
سرسید اپنی ملازمت کے دوران مختلف شہروں میں مقیم رہے، جہاں ان کے قیام سے متعلق تفصیلی معلومات سے مطالعات سرسید کے صفحات بڑی حد تک عاری ہیں۔ سرسید اکیڈمی نے ان شہروں میں سرسید کے قیام سے متعلق 100 صفحات پر مشتمل مونوگراف شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان میں سے چند مونوگراف کا اجراء سرسید ڈے کے موقع پر کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اے ایم یو کے پبلیکیشنز ڈویژن کی جانب سے زمخشری کی تفسیر ’’الکشاف‘‘ کے تحلیلی تجزیہ پر مبنی میرے استاد پروفیسر فضل الرحمٰن گنوری(سابق ڈین، فیکلٹی آف تھیولوجی، اے ایم یو) کی تحقیقی تصنیف کی اشاعت بھی آخری مراحل میں ہے۔
خیال رہے کہ مشہور معتزلی عالم محمود بن عمر الزمخشری (م۵۳۸ ہجری) کی تصنیف ’الکشاف‘ جو چھٹی صدی ہجری کی تالیف ہے پورے تفسیری ادب میں ایک نمایاں انفرادی مقام رکھتی ہے۔ اس میں عربی نحو و صرف اور ادبی نقطہ نظر سے قرآنی آیات کا تحلیل و تجزیہ جس انداز میں کیاگیا ہے اس کو غیرمعمولی اعتبار حاصل رہا ہے۔
زمخشری، قرآن کے اعجاز کو اس کے نظم و اسلوب میں پنہاں بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اعجاز کا ادراک اور اس تک رسائی فنون بلاغت کے سہارے ہی ممکن ہے۔ فنون بلاغت کے ذریعہ قرآنی اعجاز کا اثبات و انکشاف ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ’کشاف‘ پورے تفسیری ادب میں منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اسی لحاظ سے زمخشری ایک نئے تفسیری رجحان کے بانی کہلاتے ہیں۔
یہ تصنیف دینیات فیکلٹی سے ماضی میں شائع ہوئی تھی اور ناپید تھی۔ اس کی افادیت کے پیش نظر یونیورسٹی پبلیکیشنز ڈویژن کی جانب سے اس کی اشاعت نو کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔
پروفیسر شافع قدوائی اس اعتبار سے بھی خوش نصیب ہیں کہ انہیں پروفیسر نعیمہ خاتون کی صورت میں ایک ایسی وائس چانسلر ملی ہیں جو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلے طالب علم رہیں پھر استاد اور پھر پرنسپل اور انہیں علی گڑھ سے گہرا عشق ہے۔ بقول پروفیسر شافع قدوائی کہ وائس چانسلر محترمہ پروفیسر نعیمہ خاتون نے سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق اہم کتابوں کے تصحیح شدہ ایڈیشنوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور اس میں خود بھی دلچسپی لے رہی ہیں۔ یہ بھی انتہائی قابل ستائش بات ہے کہ شافع قدوائی نے سرسید اکیڈمی میں علی گڑھ سے متعلق کتابوں پر مذاکرات کا اہتمام کرنا شروع کیا ہے اور اس سلسلے کا پہلا پروگرام مشہور فرانسیسی اسکالر ڈاکٹر لارینس گوٹیئر کی علی گڑھ اور جامعہ پر کیمبرج یونیورسٹی سے کی گئی پی ایچ ڈی پر مبنی کتاب پر تھا جس میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کے علاوہ پروفیسر عرفان حبیب اور دوسرے علی گڑھ کے ممتاز اساتذہ نے شرکت کی۔ امید ہے کہ محترمہ پروفیسر نعیمہ خاتون کی مدت کار میں اور شافع قدوائی کی کوششوں کے نتیجے میں سرسید اکیڈمی نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں۔)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleسرسید احمد خاں اور قومی یکجہتی : عمر پیرزادہ علیگ
Next articleسر سید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور تحریک آزادی : محمد غفران نسیم
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh